وہ رسم اذاں آج بھی جاری ہے

13 جولائی 1931 کا دن آرہا ہے۔۔۔ شہدائے کشمیر کے اس دن کاایک نہیں دو نہیں بلکہ 22 سے زائد شہید استقبال کرچکے ہیں۔۔۔کیونکہ وہ دن آج بھی خون آلود ہے۔۔۔وہ لہو آج تک خشک نہیں ہوا۔۔وہ نعرہ آج بھی فضاوں میں گونج رہا ہے۔۔۔وہ خواب آج تک شرمندہ تعبیر نہ ہوا۔۔۔وہ امید آج بھی زندہ ہے۔۔۔وہ جذبہ اب بھی پختہ ہے۔۔۔وہ حوصلہ آج بھی بلند ہے۔۔وہ خون دینے کی رسم آج بھی باقی ہے۔۔۔

وہ ماؤں کی آہیں آج بھی سنائی دے رہی ہے۔۔وہ بہنوں کا بین آج بھی ہورہا ہے۔۔۔وہ بوڑھے باپ کا سہارا آج بھی چھن رہا ہے۔۔۔وہ قبرستان آج بھی دلہوں کو سلارہا ہے۔۔۔وہ مہندی آج بھی نم ہے۔۔۔وہ آنسو آج بھی بہہ رہا ہے۔۔وہ بے بسی آج بھی بستی میں بسی ہوئی ہے۔۔وہ محکومی آج بھی قوم کو مفلوج کیے ہوئی ہے۔۔وہ محرومی آج بھی محسوس کی جاتی ہے۔۔

وہ جیل کی زینت آج بھی معصوموں سے قائم ہے۔۔۔وہ زندان آج بھی کسی انسان کو چپ کے سے کھارہے ہیں۔۔۔وہ ٹارچرسیلز آج بھی چیخوں سے لرزرہے ہیں۔۔۔وہ کسی کا شوہر آج تک نہیں آیا۔۔وہ کسی کا بھائی آج بھی غائب ہے۔۔وہ ماں کا لخت جگر آج بھی رسم اذاں نبا رہا ہے۔۔۔
اور۔۔۔

وہ ظلم آج بھی روا ہے۔۔۔وہ جبر آج بھی توڑا جارہا ہے۔۔۔وہ اندھیرا آج بھی قائم۔۔۔وہ غلامی اب بھی ارمانوں کوزنجیر زن کیے ہوئی ہے۔۔۔ وہ خون کی ہولی آج بھی برپا کی جاتی ہے۔۔۔وہ بربریت آج بھی اپنے جوبن پر ہے۔۔۔وہ درندگی آج بھی دندناتے پھرتی ہے۔۔۔وہ ظلم کی طویل رات کا سورج آج تک طلوع نہیں ہوا۔۔

تب ڈوگرہ راج کیخلاف 22 فرزندان کشمیرنے اپنی زندگی قربان کی تھی۔۔اب روز کسی کا لاشا گھر آجاتا ہے۔۔۔تب ظالم مقتول کی لاشہ نہیں چھپاتا تھا۔۔۔آج ظالم کشمیری کی لاش سے بھی خوف زدہ ہے۔۔۔ تب جیل میں مقدمہ چلتا تھا۔۔۔اب
مقدمے کے نام سے ہی ظالم ڈرتا ہے۔۔تب جمہورت نہیں تھی پھر بھی ظالم کی آنکھوں میں کچھ لحاظ تھا۔۔۔آج جمہورت کا ڈھنڈورا پیٹنے والا ہی جمہوریت کا گلا گھونٹ رہا ہے۔

تب سسکیاں تھیں آج چیخو پکار ہے۔۔تب کوئی مرتا تھا تو سناٹا پھیل جاتا تھا۔۔۔ آج کوئی مرتا ہے تو کشمیر ابل آتا ہے۔۔۔تب آسمان پر چھانے والا سرخ رنگ قتل کی خبر دیتا تھا۔۔۔آج زمین پوری دھرتی بول اٹھتی ہے کہ "برہان شہید ہوگیا”۔

تب صرف ظلم تھا۔۔۔اب ظلم کی انتہا ہے۔۔ تب قتل کے بعدمہاراجہ کا محل ہل جاتا تھا۔۔آج خون کی ہولی کے بعد بھی مست ہاتھی ٹس سے مس نہیں ہوتا۔۔۔۔تب نظام کیخلاف جنگ تھی۔۔اب جابراور قابض کیخلاف جنگ ہے۔۔تب اختیارات کا معاملہ تھا۔۔اب قوم کے وقار کا معاملہ ہے۔ تب صرف اقتدار کیلیے کسی کو سولی چڑھایا جاتا تھا۔۔۔آج سماج کے ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے کسی کو تختہ دار چڑھا دیا جاتا ہے۔۔

تب22 فرزندوں نے ایک اذان کی تکمیل کی۔۔۔آج ہزاروں نوجوان رسم آزادی کی تکمیل کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔۔۔ہم تب بھی مقصد کیلئے متحد تھے۔۔۔آج بھی منزل کو پانے کیلئے ایک ہیں۔۔۔

ہم تب بھی نہتے ہونے کے باوجود فولاد ثابت ہوئے۔۔۔ہم آج بھی ایٹمی طاقت کیخلاف پتھروں سے برسر پیکار ہیں۔۔ہم نے تب بھی ہار نہیں مانی۔۔۔ہم آج بھی کامیاب کا عزم کیے ہوئے ہیں۔۔ہم نے تب بھی ظالم کو جھکنے پر مجبور کیا۔۔۔ہم آج بھی بھارت کی ناکامی کے لیے پر امید ہے۔۔۔

کل ظالم کو اپنے ظلم پر ناز تھا …آج ہم ظلم سہتے سہتے ظلم سے بے خوف ہوچکے..کل ظالم کو برتری تھی …آج وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہے ..آج ہمیں برتری حاصل ہے…کل بھارت کا ضمیر خاموش تھا..آج بھارت میں بھی کسی کا ضمیر جاگ رہا ہے اور کشمیر یوں کے حق آزادی کی وکالت کرتا ہے۔۔۔کل کشمیر کوبھارت سے آزاد ہونا تھا ۔۔اب بھارت کو کشمیر سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔۔۔نہیں تو وہ رسم اذاں جاری ہے۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے