کشمیریوں کے زخموں کے تاجر

شام مجھے اقبال ٹاون جانا تھا۔ پنجاب یونیورسٹی کے عقب میں بھیکے وال موڑ والے اشارے پر رُکا تو کچھ نامانوس سی آوازیں کانوں سے ٹکرائیں ۔ آواز کی سمت کا انداز لگا کرکچھ آگے بڑھا تو دیکھا کہ حافظ سعید کی جماعت کے دو کارندے مائیک پر کشمیرمیں ہونے والے ظلم ستم سے لوگوں کو آگاہ کر رہے تھے ۔ کھمبے کے ساتھ ایک عدد بڑے ایل سی ڈی بھی ٹانگی ہوئی تھی جس کے پردے ( اسکرین)پر دلدوز مناظر مسلسل گزرتے جارہے تھے۔ کرسیوں کے برابر میں ایک بڑا سیاہ رنگ کا ڈیک بھی رکھا ہوا تھا ۔

ان دو کارکنوں میں سے ایک کہہ رہا تھا کہ ”کشمیری کہتے ہیں کہ پاکستان سے مل جانے تک انہیں چین نہیں ملے گا” ۔ میں زیر لب اس پرجوش باریش شخص کی”ترجمانی” پر مسکرایا ۔ وہ کشمیر میں بھارتی فورسز کی درندگی کی منظر کشی کر کے امداد کے نام پر سامان اور مال اکٹھا کر رہے تھے ۔ میں نے سُنا ہے ملک بھر میں ڈیڑھ ماہ سے یہ دھندہ جاری ہے ۔

مخصوص شہرت کی حامل ان تنظمیوں سے جانے کب کشمیریوں کی جان چھوٹے گی ۔”جہاد” کے یہ سویلین ٹھیکے دار کشمیر کو ایک ہاٹ پراڈکٹ سمجھتے ہیں ۔ جب بھی موقع ملتا ہے بڑھ چڑھ کر کشمیریوں کے دُکھوں کی تجارت کرتے ہیں ۔ کشمیر کے مسئلے کو ان کی غیرضروری مہم جوئیوں سے مسلسل نقصان پہنچ رہا ہے ۔

میرے بھائیو! کشمیری تمہیں بہت اچھی طرح جان چکے ہیں ۔ وہ اب اپنی جنگ خود لڑنا چاہتے ہیں ۔ وہ ان ”مہمان مجاہدین” کو ہاتھ جوڑ کر کہتے ہیں کہ بابا ہمیں معاف کردو ۔ ہماری تین نسلیں منقسم کشمیر میں خاک کا رزق ہو گئیں ۔ کوئی عمر بھر باپ سے ملنے کی خواہش میں تو کوئی خونی لکیر کے اُس پار اپنی ماں کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے سسکتا بلکتا اس جہاں سے گزر گیا ۔ یہاں ان گنت خواب قتل کیے گئے اور بے شمار ارمان ان نام نہاد ”بہی خواہوں ” کی تجارت کی نذر ہوگئے ۔

اب یہ تماشا بند ہو جانا چاہئے ۔ آپ کوئی اور روزگار تلاش کیجیے ۔ کشمیریوں کو ان کی اپنی جنگ لڑنے دیجیے ۔ ان کی بات کی ترجمانی آپ نہیں وہ خود کریں گے ۔ فلٹر ہٹا دیجیے ۔ انہیں پراکسی جنگوں میں دھکیلنے سے گریز کیجیے ۔ انہیں اب جینے دیجیے ۔ آپ کے اخلاص میں کوئی شبہ نہیں مگر انہیں ایسا ”اخلاص ” نہیں چاہیے جو ان کی نسلوں کی تباہی کا باعث بن رہا ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تجزیے و تبصرے