یہ بھی کولیٹرل ڈیمیج ہے کیا؟

سوال یہ ہے کہ کیا سیکیورٹی اداروں کو اپنی کمزوریاں جان کر انہیں دور کرنے کے لیے 15 برس کا عرصہ کافی نہیں؟ نائن الیون کے بعد ہمارے شہروں میں دھماکے شروع ہوئے ۔ اس وقت جو جنگ شروع کی گئی اسے پرائی جنگ کہنا کافی حد تک درست تھا مگر اب تو یہ شعلے تو ”اپنے” بن چکے ہیں ۔

ماضی کی ایک جھلک دیکھیے ۔ جی ایچ کیو پر حملہ ہوا اور کئی گھنٹوں تک وہاں دہشت گرد دندناتے رہے ۔ سلالہ چیک پوسٹ پر ہمارے ہی حلیفوں نے ہمارے جسم چھلنی کر دیے ۔ پشاور کے انتہائی سیکیورٹی کے حامل علاقے میں آرمی پبلک اسکول پر دھاوا بول کر سینکڑوں معصوم جسموں کو بھون دیا گیا ۔ کوئٹہ میں پولیس اکیڈمی میں غریب جوان خاک وخون میں لتھڑ گئے ،اس کے علاوہ بازاروں ، اڈوں ، مسجدوں ، امام بارگاہوں اور دیگر عوامی مقامات پر مرنے والے انسانوں کی تو ابھی تک شاید درست گنتی بھی نہیں ہوئی ۔

حالت یہ ہے کہ کوئی یہاں کولیٹرل ڈیمج کی بات کرتا ہے تو کوئی ان ناگہانی اموات کو ”شہادتوں” کے مقدس کفن میں لپیٹ کر لوگوں کو لالی پاپ دیتا ہے ۔ اب کمر توڑ دینے کے دعوے کرنے والوں کو سوچنا چاہیے بلکہ اب تو دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے پر خرچ آنی والی قومی رقم کا آڈٹ بھی ہونا چاہیے تاکہ قوم یہ اندازہ لگا سکے کہ اسے سکھ سے جینے کے لیے اور کتنی جانیں قربان کرنا ہوں گی ۔

بلوچستان کے کیا حالات ہیں ، سب جانتے ہیں ۔ وہاں عملاً کس کی حکومت ہے، یہ بھی سبھی جانتے ہیں لیکن اس سارے معاملے میں حکومت کو بھی بے قصور نہیں کہا جا سکتا ۔ نواز شریف یہاں جب بھی دباو میں آتے ہیں تو جلسے شروع کر دیتے ہیں ۔ منصوبوں کے اعلانات کرتے ہیں ۔ انہیں چاہئے کہ پنجاب تو انہی کا ہے ذرا بلوچستان کے ناراض لوگوں کی جانب بھی توجہ دیں ۔ ان کے ساتھ وہ سلوک نہ کریں جو 71 سے پہلے تک مغربی پاکستان کی اشرافیہ بنگالی بھائیوں کے ساتھ کرتی رہی اور پھر ملک دو لخت ہو گیا ۔

آج خضدار میں 50 کے قریب لوگ جان سے گئے ۔ حالت یہ تھی کہ ایمبولینسوں کے جانے کے راستے تک سلامت نہ تھے ۔ کئی زخمی بر وقت طبی امداد دے کر بچائے جاسکتے تھے مگر کیا کیا جائے ۔ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے ان کی جلد از جلد مدد کی جاسکتی تھی مگر نہیں ہوئی ۔ آج گلگت بلتستان ، آزادکشمیر ، پنجاب اور بلوچستان میں میاں صاحب ہی کی پارٹی کی حکومت ہے ۔ اس لیے ایسے نازک موقعوں پر انہیں سوالات کا جواب دینا ہو گا۔

قوم کو یہ جواب نہیں چاہیے کہ بھارت ملوث ہے ۔ را کی کارستانی ہے ۔ اس طرح کے حملوں میں مرنا بھی عام آدمی کا کام نہیں ۔ اگر کوئی ملوث ہے تو بتائیں آپ کا کیا کام ہے ؟ ریاست لوگوں کو تحفظ نہیں دے گی تو آسمان سے فرشتے اُتر آئیں گے کیا؟ عوام کو نہ بتائیں کہ آپ نے ماسٹر مائنڈ کا پتہ چلا لیا ہے ، آپ کام کیجیے جس کی آپ تنخواہ لیتے ہیں یا جس کے تحت مینڈٹ لے کر آپ خود کو عوام کا نمائندہ کہتے ہیں ۔

اُدھر آزادکشمیر میں کنٹرول لائن کے اِس پار بسنے والے لوگ کئی ہفتوں سے غاروں میں راتیں گزار رہے ہیں ۔ وہ شدید قسم کی غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہیں ۔ کراس بارڈر فائرنگ نے وہاں کے معصوم بچوں کی مسکراہٹیں چھین لی ہیں ۔ وہ اب آہٹوں پر بھی سہم سے جاتے ہیں لیکن آپ کا یہ دو طرفہ تماشا جانے کب ختم ہو گا۔ لعنت بھیجیے پانامہ پر اور لعنت بھیجیے کسی ایسی خبر پر جو آپ کی نیندیں حرام کرتی ہے ۔ بس لوگوں کو اس طرح کی اچانک اموات سے بچائیے ۔

آپ دنیا میں کتنے تیس مار خان ہیں وہ سب جانتے ہیں بس اپنے گھر کی فکر کیجیے ۔ اِدھر اُدھر تزویراتی گہرائیوں کی چکر میں ایڈونچر کا شوق بہت ہوا اب کم از کم ان بے چارے عوام کو تحفظ دے دیجیے ۔ یہ کب تک یونہی اندھی موتیں مرتے رہیں گے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے