عوامی حقوق اور ہماری حکومت

کسی ملک میں حکومت تشکیل دینے کے فلسفوں میں سے اہم فلسفہ عوامی حقوق کو تحفظ فراہم کرنا ہے، اس لیے کہ اجتماعی زندگی میں مختلف فکر اور خیال کے حامل افراد زندگی بسر کررہے ہوتے ہیں ،اجتماعی معاشرے میں ہمیں پاکیزہ، تربیت یافتہ، پارسا ،مخلص وفداکار لوگ بھی ملیں گے اور انسانی شکل میں درندے، چیتے اور انسانی جان لیوا سانپ اور بچھو بھی نظر آئیں گے- معاشرہ اجتماعی میں نادار، کمزور، فقیر اور مفلس طبقے بھی ہوں گے اور طاقتور ثروتمند، امیر طبقے بھی موجود ہوں گے پس اگر اجتماعی زندگی میں قانون اور حکومت کا کوئی نظام نہیں ہوگا تو انسانی حقوق پائمال ہوجائیں، انسان نما درندے کمزور طبقوں کو چیر پھاڑ ڈالیں، بے تربیت افراد معاشرے میں اپنی خواہشتات نفسانی کی تکمیل کے لئے شریف لوگوں کو کچل دیں، نادار اور فقیر طبقوں کو دووقت کی روٹی بھی میسر نہ ہو ، در نتیجہ اجتماعی زندگی میں حرج مرج پیدا ہوجائے، مفاد پرستی کا رجحان عام ہوجائے اور جن معاشروں میں حکومت تو بنی ہوئی ہو لیکن وہ اپنے اصلی مقاصد سے خالی ہو، اس میں روح اور جان نہ ہو، نظام حکومت صرف نام کی حد تک ہو تو اس کے برے نتائج بھی پہلی صورت سے ذیادہ نہ ہوں تو کم ہرگز نہیں-

پاکستان کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے کسی بهی صاحب خرد کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں کہ وطن عزیز میں نظام حکومت برای نام ہے، اسلام کے نام پر معرض وجود میں آئی ہوئی اس مملکت میں عملی طور پر ایسا کوئی قانون نہیں جو سبھی لوگوں پر یکساں لاگو ہوتا ہو، حقوق کی غیر منصفانہ تقسیم اس ملک کے صاحبان اقتدار کا طرہ امتیاز بنا ہوا ہے جس کے سبب اہل منصب روز بروز امیرتر ہوتے جارہے ہیں اور عوام فقر کی زندگی گزارنے پر مجبور ہورہے ہیں جب کہ پاکستان آئین کے آرٹیکل194 ۔38کے مطابق ریاست عوام کے بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی، فلاح و بہبود اور ان کی خوشحالی کی اصل ذمہ دار ہے۔ لیکن پاکستان کی حکمرانی کچهہ مفاد پرست و خواہشات نفسانی کے اسیر طبقوں کے ہاتهوں میں ہونے کی وجہ سے عوام کو نہ صرف خوشحال زندگی میسر نہیں ہے بلکہ بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہیں- پاکستان کے عوام کی اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، حکومت کی اولین ذمہ داری ہے کہ شہری و غیر شہری عوام کے بنیادی حقوق و فرائض کو ادا کرے۔ یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ فلاحی ریاست کے اندر تمام لوگ چاہے وہ شہری ہوں یا دیہاتی حقوق و فرائض کے اعتبار سے برابری کا درجہ رکھتے ہیں ، امیر و غریب شہری وغیر شہری اور حاکم و محکوم، اہل منصب کے خاندان وغیر خاندان میں کوئی تمیز نہیں ہے۔ قانون اور آئین سب کے لئے برابر ہے،

لیکن افسوس؛ آج پاکستان میں غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ قانون، طبقہ فقراء اور گروہ اقلیت کے ساتهہ مختص ہے، غریب لوگوں کے حقوق سے انسان نما درندے خوب کھیل رہے ہیں- عوام تعلیم، صحت ،امن وامان، پانی، بجلی سمیت دیگر بنیادی ضروریات زندگی کے لئے ترس رہے ہیں اور حکمران اقتدار وکرسی پر قبضہ جما کر عیش ونوش کررہے ہیں اور غریب عوام کے سرمائے ہڑپ کرکے مختلف ممالک میں بینک بیلنس بنا رہے ہیں-

پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اور اسلامی تعلیمات اس ملک کی اساس قرار پائی تھی اور اسلام نے جن موضوعات پر شدت سے تاکید کی گئی ہے ان میں سر فہرست نظام عدل انصاف اور مساوات ہے اسلامی تعلیمات روایات اوربالخصوص نہج البلاغہ کی روشنی میں عدالت کا معاشرے کے اندربرقرارکرنے کوحکومت کا سب سے بڑا مقصد سمجھا جاتا ہے اورقرآن کریم کی نگاہ میں بھی انبیاء علیہم السلام کا ہدف بعثت اورآسمانی ادیان کی آمد کو انسانی نظام حیات میں وسیع سطح پرعدالت کومحقق کرنا ہے۔

اساسی طورپرکوئی قوم یا مکتب فکرمعاشرے کے اندرعدالت کونظراندازنہیں کرسکتا اور یہ بات یقینی ہے کہ اجتماعی عدالت براہ راست اقوام اورحکومتوں کی بقاء سے جڑا ہوا ہے یہاں تک کہ پیغمبراکرم (ص) سے نقل شدہ روایت کے مطابق ملک کفر کیساتھ تو باقی رہ سکتا ہے لیکن ظلم کیساتھ باقی نہیں رہ سکتا۔ (الملک یبقی مع الکفرولایبقی مع الظلم )یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ کائنات نظام عدل کی اساس پرقائم ہے حدیث مشہورکے مطابق عدل کی بنیاد پرزمین وآسمان برقرار ہیں۔(بالعدل قامت السموات والارض) اورقرآنی آیات کی روشنی میں میزان جسے دوسرے لفظوں میں عدل کہتے ہیں ایک طرف توپورے نظام ہستی پرحاکم ہے۔ اوردوسری طرف اسے انسانی حیات کے نظام پربھی حکمران ہونا چاہئے تاکہ وہ عدالت کے دائرے سے خارج نہ ہو۔

انسانوں کی فکرو عمل کے حقیقی میزان حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا نقطہ نظر قوم و حکومت کے عادلانہ رابطہ کا عنوان بن سکتا ہے ان لوگوں کیلئے بھی جوحضرت علی(رض) کو امام معصوم اورانسانوں میں رسول خدا کے بعد سب سے زیادہ عادل اور صاحب علم جانتے ہیں۔ اوران لوگون کیلے بھی جو امام عالی مقام کو ایک انسان کامل اورعادل خلیفہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اورمولای کائنات کی دورحکومت کو تاریخ اسلام بلکہ تاریخ انسانیت کی سب سے زیادہ عادل حکومت کے عنوان سے قبول کرتے ہیں۔ اس منزل پرحتی غیرمسلم اہل نظراوراہل قلم چاہے وہ عیسائی ہوں یا دہرئیے ؛ان کے کمالات کو صرف نظرنہیں کر پائے ہیں ۔ اوراس سلسلے میں انہوں نے کتابیں بھی لکھیں جس کا بارزترین نمونہ جارج جرداق عیسائی کی وہ کتاب ہے کہ جس میں امام علی کو انسانی عدالت کی آوازکے عنوان سے یاد کیا ہے۔

(الامام علی صوت العدالۃ الانسانیۃ) بہر صورت انسانی معاشرے میں مختلف نوعیت کے افراد ہیں صلاحیتیں،لیاقتیں،استعداد،علمی حیثیت ، فضیلت ،ایمان ، اخلاق ،کردار وغیرہ میں باہم فرق ہے مختلف میدانوں میں انسانی حقوق ان کے اقدارکے مطابق معین کیے جاتے ہیں ۔ اگر یہ قدریں صحیح ہوئیں اورہر شخص کو اس کی اپنی صلاحیت کے مطابق وہ حقوق مل گئے جن کا وہ مستحق ہے تو گویا معاشرے کے اندرعدالت برقرار ہے لیکن اگراجتماعی مراتب اوربنیادوں کومعاشرے کے حقیقی معیارکے مطابق معین نہ کرلیا تو یہ وہی ظلم ہے جومعاشرے کے نظام کو درہم برہم کردیتا ہے۔ اگر ہر انسان کواس کا واقعی اورحقیقی حق دے دیا جائے تو کسی کے ساتھ ظلم نہیں ہوتا اورنہ ہی کسی کا حق ضایع ہوتا ہے لھذا عدل سیاست کے میدان میں ،معاشرے میں ، حکم اورقانون میں اورفیصلے اورمالی حقوق وغیرہ میں ایک ایساعمومی محورہے کہ جس کے سایے میں سب لوگ امان محسوس کرتے ہیں اوراپنی حق تلفی سے متعلق خوف اور اضطراب میں مبتلا نہیں ہوتے ۔

یہ بات واضح ہے کہ جامعہ کے اندرانصاف کی اسی وقت توقع کی جا سکتی ہے جب ہرفرد کومکمل طور پراس کا حق حاصل ہوجائے ۔ لیکن آج وطن عزیز میں عدل کی جگہ ظلم نے لیا ہوا ہے تمام شعبہ هائے زندگی میں عدل وانصاف ناپید ہوکر ظلم کا بول بالا ہے -اسی وجہ سے پاکستان کی ریاست کے اندرسماجی، معاشی اور اقتصادی حقوق کی تقسیم تفریق کی بنیاد پر ہوتی ہے ۔پاکستان میں بے چارے عوام اپنے حقوق کے حصول کے نمائندے کا انتخاب کرتے ہیں اور ہر سیاسی پارٹی کے لیڈرز اقتدار حاصل کرتے وقت غریب عوام کو طرح طرح کے سبز باغ دکھاتے ہیں ، عوام کو خوشحال زندگی فراہم کرنے کا وعدہ کرتے ہیں،عوام کے مسائل مشکلات حل کرنے کا سنہرے الفاظ میں قول دیتے ہیں،الیکشن کے دوران اپنی تبلیغی تقریروں میں فلاح و بہبود کے منصوبوں کے بلند و بالا دعووں کے قصیدے پڑھتے ہیں ،لیکن غریب عوام کے ووٹ سے جب وہ منصب پر فائز ہوجاتے ہیں، اقتدار کی کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں، تو وہ عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش کجا وہ ان کی جانب توجہ تک نہیں کرتے ہیں، بلکہ اقتدار ہاتھ آنے کے بعد وہ اس قدر ذاتی مفادات کے اسیر ہوجاتے ہیں کہ عوامی مسائل حل کرنے کو وہ اپنی ذمہ داری سمجھنے سے ہی انکار کرتے ہیں۔

عوامی ووٹ سے منتخب ہونے والے نمائندے عو ام کے مسائل ومشکلات کے لئے ایوان بالا میں آواز اٹھانے کے بجائے ہنسی وخوشی سے دوستانہ ماحول بنا کر گپوں میں لگے رہتے ہیں اور یوں وقت گزار کر واپس لوٹ آتے ہیں عوامی نمائندوں کو یہ جان لینا چاہئے کہ جو عوام کا نمائندہ بنتے ہیں ان کی ذمہ داری سنگین ہوتی ہے نمائندہ بننے کے بعد وہ پورے عوام کی آواز بن جاتے ہیں عوامی مشکلات ومسائل کے لئے اقتدار اعلی وایوان بالا میں پوری جرات وشجاعت کے ساتهہ آواز بلند کرنا ان کی ذمہ داری بن جاتا ہے, عوامی حقوق کے حصول کے لئے کوشش کرنا ان کا فریضہ منصبی بن جاتا ہے لیکن آج ہمارے نمائندوں اور حکمرانوں کی غفلت اور عوامی حقوق سے چشم پوشی وعدم توجہ کو دیکھتے ہوئے ہر پاکستانی یہ کہتے ہوئے فریاد کناں ہے آہ عوامی حقوق اور ہماری حکومت

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے