’قابل ذکر کتاب پڑھنے کو نہیں ملی‘

ادب، آرٹ اور شوبز سمیت کسی بھی حوالے سے 2016ء کوئی غیر معمولی سال نہیں تھا۔کوئی بھی غیر معمولی کتاب چھپ کر مارکیٹ میں نہ آ سکی۔
جمہوری پبلیکیشنز کے سربراہ اور ممتاز پبلشر فرخ سہیل گوئندی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سال 2016 کتابوں کے حوالے کچھ زیادہ اچھا نہیں رہا۔ ان کے بقول اس سال کتابوں کے بزنس میں پچھلے سال کی نسبت کمی دیکھی گئی، کتابوں کی ڈیمانڈ میں کوئی اضافہ نہیں ہو سکا۔ ان کے مطابق اس سال بھی سب سے زیادہ مذہبی کتابیں پڑھی گئیں، ادبی اور فکری کتابوں کے قارئین مزید محدود ہوتے نظر آئے۔ ان کے بقول جب تک خواندگی کی شرح میں کافی اضافہ نہیں ہوتا اور لوگوں کی قوت خرید نہیں بڑھتی تب تک اس صورتحال میں تیزی سے بہتری نہیں لائی جا سکتی۔

گوئندی کو دکھ ہے کہ سال 2016 میں بھی پاکستان میں کاپی رائٹس کے اصولوں کی خلاف ورزی کی جاری رہی۔ کئی مقبول کتابیں بغیر اجازت چھاپی گئیں اور حکومت اس عمل کو روکنے میں ناکام رہی۔ تاہم انہیں امید ہے کہ دو ہزار سترہ کا سال کتابوں کے حوالے سے بہتر ہوگا اور اس سال بہت سی اچھی کتابیں چھپ کر مارکیٹ میں آنے کی توقع ہے۔

پاکستان کے ممتاز ادیب اور دانشور محمود شام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ادبی حوالے سے 2016 کا سال ملا جلا رہا۔ اس سال کتابوں کے بہت سے میلے لگے، ادبی میلوں کی روایت بھی مستحکم انداز میں آگے بڑھی البتہ ان ادبی میلوں کو کسی خاص موضوع سے منسلک کرنے کی ضرورت ہے۔ اکادمی ادبیات کی ادبی کانفرنس جو دھرنوں کی وجہ سے ملتوی ہو گئی تھی اب چند ہفتوں بعد بغیر کسی تھیم کے منعقد ہونے جا رہی ہے۔ شام صاحب کہتے ہیں کہ 2016ء میں شائع ہونے والی کتابوں میں کوئی ایسی قابل ذکر کتاب دیکھنے کو نہیں ملی جس میں نئی جہت ہو اور معرکے کا کام کیا گیا ہو۔ زیادہ تر ادبی رسائل بھی معمول کی روایتی تحریریں لیے ہوئے تھے۔

محمود شام بتاتے ہیں کہ 2016ء میں اردو ادب ڈیجیٹل دنیا کی طرف جاتا دکھائی دیا، شاعروں اور ادیبوں نے سوشل میڈیا کو اظہار کا ذریعہ بنایا اور آن لائن کتابوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ان کے بقول پاکستان کی حکومت کو بیانیے کی تبدیلی کے حوالے سے دیرپا منصوبہ بندی کر کے ایسی پالیسیاں بنانی چاہیئں، جن سے معاشرے کے سدھار کے لیے کام کرنے والے فنکاروں، ادیبوں، دانشوروں اور اداروں کی حوصلہ افزائی ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے