مانی کی پوزیشن پر ہَنی کادُکھ!

آج کل اسکولوں کے امتحانات کے نتائج کا موسم ہے۔ مجھے اپنا بچپن یاد آتا ہے ۔ جب ہم بڑی بے تابی سے 31 مارچ کا انتظار کیا کرتے تھے ۔ دل میں بہت سے اندیشے ہوتے تھے مگر یہ یقین ہمیشہ ہی رہا کہ پہلی تین پوزیشنوں میں سے ایک اپنی ہے ۔ دوسری آجاتی تو گھر سے بہت پرجوش انداز میں نہیں سراہا جاتا تھا ۔ میرا گھر میں موقف ہمیشہ یہ رہا کہ لوگوں کے بچے پاس ہو جائیں تو وہ مٹھائیاں بانٹتے پھرتے ہیں اور ادھر آپ لوگ اس بات پر برہم ہیں کہ پہلی کیوں نہ آئی ۔ ویسے میرے سبھی بھائی اکثر اول نمبر پر ہی رہے ہیں لیکن گزشتہ چند سالوں سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ اول ، دوم، سوم والا مقابلہ نہایت منفی سرگرمی ہے ۔ یہ بچوں کے اچھا انسان بننے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔

میں نے ان نمبروں کی وجہ سے بچوں کو کوستے بہت سے والدین دیکھے ہیں ، ایسے بھی دیکھے ہیں جو کہتے ہیں کہ ”شرم کرو اگلے محلے کے جمال دین کی بیٹی/بیٹا تم سے آگے نکل گیا ہے ۔ ۔ ۔ ڈوب مرو ” ، کبھی یوں کہتے ہیں کہ ” قسمت خان کا لڑکا تو رات دو بجے تک پڑھتا ہے اور تم حرام خور کچھ بھی نہیں کرتے” ، کچھ تو ذات برادری کی بنیاد پر زہریلے جملے بچوں کے ذہن میں انجیکٹ کرتے ہوئے کہتے ہیں ” دیکھو! فقیرو میراثی کا لڑکا تم سے آگے نکل گیا ، تمہیں مر جانا چاہیے ”وغیرہ وغیرہ ، اس قسم کا تقابل بچوں میں منفی رویوں کو جنم دیتا ہے ، اپنی اولاد سے اس قسم کی گفتگو کرنے والے لوگ دراصل نہیں جانتے کہ ہر انسان کی صلاحیت وقابلیت الگ اور منفرد ہوتی ہے ، اس کا موازنہ کسی اور سے نہیں کیا جا سکتا۔ ہر بچے کے ذہن کا میلان دوسرے سے جدا ہوتا ہے۔

دو دن ہوئے میری گھر بات ہوئی ، بہن نے بتایا کہ ہمارے چچا کے بچوں کا رزلٹ آ گیا ہے اور ان دو جڑواں بھائیوں ہَنی اور مَانی میں سے ایک کی پوزیشن نہیں آئی ، مانی اور ہنی ہیں تو جڑواں مگر مانی ہنی سے چند منٹ بڑا ہے ۔ پرائیویٹ اسکول کی طرف سے مانی کو اول پوزیشن دی گئی ۔ وہ خوشی سے سرشار ہے ۔ اب جب ہَنی کو کہا جاتا ہے کہ مانی کی پوزیشن آئی ہے تو وہ بہت چِڑتا ہے ، تشدد پر اتر آتا ہے ۔ بتایا گیا کہ اس نے مانی کو ملنے والی انعامی ٹرافی سے انتقام لینے کی کوشش بھی کی ہے ۔ اس چھوٹے سے واقعے سے بچوں پر اس مسابقت کے پڑنے والے انتہائی منفی نفسیاتی اثرات سمجھے جا سکتے ہیں ۔

کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے ، مجھے اپنے سب سے چھوٹے بھائی عارج خان کے اسکول کے پرنسپل سے فون پر بات کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی، بات چیت کے دوران اس نے ہمارے خاندان کی خوب تعریفیں وغیرہ کیں ۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ عارج خان اس کے اسکول کا برائیٹ اسٹوڈنٹ ہے اور ہر سال اسکول ٹاپ کرتا ہے ۔ میں نے پرنسپل صاحب کو صرف اتنی گزارش کی کہ بھائی! ہمیں پوزیشنیں نہیں چاہییں ۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ اگر آپ ہمارے بچے کو کتاب سے مثال کے طورپر یہ لائن پڑھائیں: ”یہ درخت ہے ” تو اسے باہر لے جاکر درخت دکھائیں ، اسے بتائیں کہ تنا کیا ہوتا ہے ، شاخ کیا ہوتی ہے ، جڑیں کیا ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ اگر ایسا نہیں ہے تو ہمیں کھوکھلے جعلی نمبروں کی ضرورت نہیں ۔

میں نے پرنسپل صاحب کو ایک اور مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر بچے کو اس سوال کا جواب فَر فَر یاد ہے کہ پاکستان کا محل وقوع کیا ہے؟ تو میں اتنے کو کافی نہیں سمجھتا ۔ اگر اس بچے کے ہاتھ میں مارکر تھما کر کہا جائے کہ بیٹا! بورڈ پر نقشہ (Map)بناو اور بتاو کہ تم اس وقت کہاں کھڑے ہو اور تمہارے مختلف اطراف میں کون کون سے علاقے ہیں ۔ اگر وہ بچہ یہ کر گیا تو میں سمجھوں گا کہ اس کو جغرافیے کا سب سے پہلا یعنی محل وقوع والا سوال آتا ہے۔مختصر یہ کہ بچے کو رَٹُو طوطا بنانے اور نمبر کمانے کی مشین بنانے کی بجائے اس کے اشیاء کے بارے میں تصورات (Concept)واضح (Clear)کیے جانے چاہییں ۔ آسان لفظوں میں یوں کہنا چاہیے کہ اگر ایک بچہ اگر پانچویں جماعت کر چکا ہے تو اس کی ذہنی سطح اور شعور اس گریڈ کے مطابق ہونا چاہیے۔

اب آتے ہیں مزدور اور نچلے متوسط طبقے کے علاقوں میں قائم پرائیویٹ اسکولوں کی جانب ، یہاں بچوں کی تعداد بڑھانے کے لیے مختلف حربے کام میں لائے جاتے ہیں ۔ بہانوں بہانوں سے کئی طرح کی رنگ برنگی فیسیں لی جاتی ہیں ، کئی اسکول تو یہ بھی بتاتے ہیں کہ وردری اور دیگر اسٹیشنری کہاں سے خریدنی ہے ۔اور وہ دکان عموما پرنسپل صاحب/صاحبہ کے کسی کزن ٹائپ کی ہوتی ہے ۔ بھاری بستوں کے بوجھ سے بقول میری امی کے ” یہ بچے کبڑوں کی طرح چلتے دکھائی دیتے ہیں ۔” ان اسکولوں میں اکثر وہ استانیاں رکھی جاتی ہیں جو میٹرک یا انٹر پاس یا فیل ہوتی ہیں ، گھر میں فارغ بیٹھنے یا گھر داری سے اکتائی ہوئی یہ ٹیچرز ان بچوں پر تدریسی تجربات کرتی رہتی ہیں ۔ انہیں اسکول مالک بہت کم تنخواہ پر کام کے لیے راضی کر سکتا ہے ۔ اس سب کے بیچ بچوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے کبھی فرصت میں ان کی کاپیاں کھول کر دیکھ لیجے گا ، لگ پتا جائے گا ۔ ۔ ۔ میں بارہا دیکھ چکا ہوں۔

جہاں تک امتحانوں میں پوزیشنیں لینے کا تعلق ہے تو یہ بھی ایک انوکھی سائنس ہے ۔ بچوں کو اپنے ہی اسکول میں اگلی کلاس میں رکھنے کے لیے نمبروں میں گھپلا کیا جاتا ہے۔بہت دفعہ تو ایک ہی کلاس میں چار چار اول پوزیشنیں دے دی جاتی ہیں اور یہی حال دوم درجے کا ہوتا ہے ۔ اس حربے کے ذریعے ان نَک چڑھی مائوں کا علاج بھی کیا جاتا ہے جو ہر صورت میں اپنے بچے کو اوۤل (1st)ہی دیکھنا چاہتی ہیں ۔ اب ہوتا یہ ہے کہ بچوں کے والدین خوش ہو جاتے ہیں اور جگہ جگہ بتاتے پھرتے ہیں کہ ہمارے بچے نے پہلی پوزیشن لے لی ہے ، ساری کلاس کو پچھاڑ دیا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ والدین کا بچوں کی کامیابیوں پر خوش ہونا فطری ہے لیکن انہیں کبھی نمبروں کے اس گورکھ دھندے سے نکل کر بچوں کی ذہنی سطح کا جائزہ بھی لینا چاہیے ۔ انہیں دیکھنا چاہیے کہ ان کا پانچویں کلاس میں اول پوزیشن لینے والا بچہ کیا واقعی ذہنی طور پر پانچویں کلاس کے بچے کے برابر اہلیت کا حامل ہو چکا ہے یا نہیں؟

میرے خیال میں اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں کو اب اس منفی دوڑ سے بچوں کو نکالنے کے بارے میں سوچنا چاہیے ۔ والدین کی بھی ایسی ذہن سازی کی ضرورت ہے کہ وہ بچوں کو نمبر دوست بنانے کی بجائے علم دوست بنائیں ۔ بچوں کو یہ سکھانا چاہیے کہ علم بذات خود بہت بڑی دولت اور طاقت ہے ۔ انہیں بتانا چاہیے کہ جب آپ کچھ نیا جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر جان لیتے ہیں تو اس لمحے کی خوشی کیسے انجوائے کیا جاتا ہے اور اس جان کاری کو کیسے برتا جاتا ہے ۔ یہی اصل مدعا ہے پڑھنے کا ۔ اسی طرح یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ بچہ درجہ بدرجہ آداب زندگی بھی سیکھ سمجھ رہا ہے یا نہیں ، اس کا اپنے سماج سے جو تعلق بن رہا ہے اس کی نوعیت کیا ہے ۔ کہیں کچھ منفی تو نہیں ہے ، اسے کھانے ، پینے ، پہننے سے لے کر دوسروں کے ساتھ اٹھنے ، بیٹھنے ، بولنے اور سننے کے اطوار سمجھ میں آرہے ہیں یا نہیں ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس بچے نے ”سیکھنا” سیکھا ہے یا نہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے