ارزش جی ! یہ ایل اے 18 ہے….

زندگی ایک امتحان ہے ہمارا دنیا میں آنا دراصل ایک بہت بڑا امتحان ہے جس کا نتیجہ ہمیں روز قیامت ملے گا !!!!

اچھے برے کاموں کی پہچان کے لئے رب نے ہمیں عقل دی ہے۔ جس طرح ایک طالب علم جب تک وہ کسی ادارے میں پڑھتا ہےتو اسے مختلف قسم کے امتحانات کا سامنا رہتا ہے۔ اور پھر وہ سال یا اس کے تعلیمی دورانیہ کے اختتام پر حقیقی امتحان سے گزرتا ہے۔۔ اور محنت کرنے والے کو اس کا پھل مل جاتا ہے۔

رب تعالی نے قرآن میں فرما دیا ہے۔ ” کہ انسان کو اتنا ہی ملتا ہے جتنی وہ کوشش کرتا ہے”۔

آزاد کشمیر میں قحط الرجال ہے نہ ہی پڑھے لکھے افراد کی کمی، اور اگر کوئی کمی باقی ہے تو وہ میرے "خیال” میں ایک ایسے جہان دیدہ شخص کی ہے جو برادری ازم، خودنمائی اور دوسری معاشرتی اقداروں کو سمجھنے والا ہو۔

جس مقام پر آپ اس وقت موجود ہو یہ کسی طور آپ کی سیاسی جدوجہد کا نتیجہ نہیں ہو سکتا، مگر یہ اللّہ کا انعام اور ساتھ ہی امتحان ہے آپ کے لئے۔۔۔ آزاد کشمیر اور بالخصوص حلقہ ایل اے 18 میں بھی اعلی تعلیم یافتہ افراد کی کمی نہیں ہے۔۔۔ مگر اس کام کے لئے اگر آپ سامنے آئے ہو تو یہ حقیقی طور پر ایک احسن فیصلہ ہے۔ اور اللہ کا انعام بھی ہے ورنہ کوئی بھی پڑھا لکھا فرد آگے آ سکتا تھا۔۔۔۔!!!

میرے "خیال” میں آپ کو اگر دولت کمانے کا شوق ہوتا، سڑکوں کے نام سے پانی کی سکیموں پر آنے والی لاگت کا ایک خاص حصہ اپنے بنک بیلینس میں اضافہ کے لئے ہوتا ۔۔۔۔ اپنے جاہ و جلال کو دیکھنا اور ملحوظ رکھنا ہوتا تو لندن آپ کے ایک بہترین جگہ تھی جہاں ایک بڑے عرصے تک مقیم رہے۔۔۔ اور رزق حلال کماتے رہے۔۔۔ جہاں ہفتوں جوتے پالش کرنے پڑتے ہیں نہ” کف و کالر” پر میل جمتی ہے۔۔۔۔

آپ مجھ سے بہتر جانتے ہوں گے کہ لندن کتنا پرامن شہر ہے؟ وہاں ہر ایک شہری کا بنیادی حق ہے کہ وہ پولیس اسٹیشن میں جائز رہورٹ درج کروا سکتا ہے خواہ وہ کسی سیاسی نمائندے کے خلاف ہو یا بیوروکریٹ کے۔۔۔!!!

وہاں پولیس کا کام شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کے ساتھ ساتھ شہر کے اندر امن و امان قائم رکھنا ہے۔۔۔
وہاں پولیس وزارت قانون کے ماتحت کام کرتی ہے کسی مقامی وزیر و مشیر کے لئے نہیں۔۔۔۔
مگر یہ ایل اے 18 ہے۔۔۔!

جہاں سابقہ ادوار میں پولیس مقامی سطح کے "منشیوں ” کے گرد چکر لگاتی رہی ہے۔ اور ان کی ایماء پر قانون و انصاف ملتا رہا ہے۔ اور مجھے آج بھی یاد ہے کہ کتنے بے قصور اور معصوم لوگوں کو پولیس ایک "رقعہ” یا "فون کال "پر بغیر کسی ابتدائی رپورٹ کے تشدد کا نشانہ بناتی رہی۔۔۔۔۔ اور قصور واروں کو چھوڑتی رہی۔۔۔۔۔

یہاں کون کامیاب ہے ؟ کون کامیاب ہوگا؟ یا ہمارے معاشرے میں عوامی نمائندے کو حقیقی عزت کیسے ملتی ہے؟ ان سوالوں کا جواب آپ کو اتنے عرصے میں مل ہی گیا ہو گا۔

سوشل میڈیا کی بدولت اب یہ اور بھی آسان ہو گیا ہے کہ آپ کسی بھی علاقے کے مسائل کو سیکنڈوں میں جان جاتے ہو۔ جو پہلے ادوار میں اخبار و ریڈیو کی بدولت ہی ممکن تھا۔۔۔

تنقید و تعریف وقت کے ساتھ ہی اچھی لگتی ہے۔ اور آپ نے جس مقصد کے لئے لندن کی پرتعیش زندگی کو خیرآباد کہا وہ واقعی ایک احسن اقدام ہے۔ جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔۔۔

آج کے اس دور میں جہاں ہر خوشحال شخص لندن میں ہی رہنا پسند کرتا ہے۔۔۔ لندن میں ہی صبح و شام کے مزے لینا چاہتا ہے۔۔۔ آپ نے اپنی فیملی کو لندن سے واپس اس جگہ منتقل کیا جہاں سے آپ نے چلنا سیکھا تھا۔۔۔ بچوں کو لندن کے سکولوں سے واپس تراڑکھل کے سکولوں میں داخل کروایا۔۔۔۔۔

اگر آپ نے سب کچھ ایل اے 18 کے عوام کے لئے چھوڑا تو واقعی طور پر آپ اس قوم کے لئے ایک مسیحا ہیں اور اس سے بڑی قربانی ایل اے 18 سے آج تک کسی نے نہیں دی جتنی آپ نے دی ہے۔۔۔

اگر آپ کا مقصد بھی باقی سیاسی لوگوں کی طرح سال بعد یا الیکشن سے پہلے پانی کے پائپ بہم پہچانا ہے۔۔۔۔ سڑکوں کی مرمت ہے۔۔۔۔ یا اپنے حلقہ انتخاب میں پہلے سے نصب” کتبوں ” میں اضافہ کرنا ہے تو اس مقصد کے لئے تو ہمارے پاس پہلے سے موجود نمائندوں کی کمی نہیں ہے۔۔۔۔

اور اب یہ "کتبے” والا جنون مقامی شہری سطح پر منتخب ہونے والی تنظیموں کے اراکین میں نظر آتا ہے۔۔۔ کہ وہ پانی کے ایک "نل” کی تنصیب پر اپنے ناموں کی تختیاں کنندہ کرتے ہیں۔۔۔۔

اگر آپ بھی یہ سب چاہتے ہیں تو بہتر ہو گا کہ واپس لندن لوٹ جائیں ۔۔۔۔ وہاں پھر سے خوشحال زندگی گزاریں، یہاں ایسے افراد کی بالکل کمی نہیں ہے۔ کیوں واپس آئے ہو اس جگہ جہاں سے ایک اچھے کل کی امید لیکر گئے تھے؟

پسنے دو اس عوام کو اندھی چکی میں۔۔۔ جہاں بس خوش آمد والا اوپر آ سکتا ہے۔۔۔۔ دو نعرے بلند کرنے والے کو نوازا جاتا ہو۔۔!!!
لیکن اگر آپ نے بھی طارق بن زیاد کی طرح کشتیاں جلا دی ہیں تو ایل اے 18 کے عوام بہت خوش قسمت ہیں جنہیں آپ جیسا پڑھا لکھا اور جہان دیدہ نوجوان شخص سیاسی قیادت کے لئے ملا ہے۔۔

آپ "کتبوں” پر بھی کام کرو۔۔۔۔مگر ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھو کہ کیا وہاں کے عوام کو انصاف بہم پہنچ رہا ہے؟

کیا کوئی غریب آج بھی مہینہ بھر محنت مزدوری کر کہ اور بچوں کا پیٹ کاٹ کر کسی وکیل یا منشی کا پیٹ "پال” رہا ہے؟

اگر تختی لگانی ہے تو ایسے کاموں کی روک تھام کر کہ وہاں تختی لگاؤ۔۔۔ جو سب سے منفرد کام ہو گا۔۔۔ ورنہ نالیوں، پلوں، سڑکوں اور سکولوں کی تعمیر پر تو ہر جگہ آپ کو "تختیاں” ہی نظر آئیں گی۔۔۔

صرف "تختیوں ” کو سوشل میڈیا کی نظر نہ کریں بلکہ وہاں کے عوام کی ساتھ کھلی کچہری کا اہتمام کریں اور ان کے مسائل جانیں اور ان کو حل کریں۔۔۔۔ !!!
آپ اس وقت اس پوزیشن میں ہو کہ آپ اپنے حلقہ کے عوام کے لئے بہت کچھ کر سکتے ہو۔۔۔۔۔اللّہ اسی شخص کو موقع فراہم کرتا ہے جو اس کا خواہش مند ہو۔۔۔۔ اور محنت بھی کرئے۔۔

آپ کو ابھی تک ایل اے 18 سےعوام نے منتخب تو نہیں کیا بلکہ موجودہ مقام خداداد مقام ہے۔ اور کوشش کرو کہ مستقبل میں بھی عوام آپ کو منتخب کریں تاکہ یہاں کے عوام کو آپ سے وابستہ امیدیں پوری ہوتی ہوئی نظر آئیں۔

آپ بدل سکتے ہو ہمارے عوام کی سوچ کو۔۔۔۔ آپ بدل سکتے ہو موروثی سیاست کے فارومولہ کو۔۔۔۔ آپ کا طرز سیاست منفرد ہونا چاہئیے۔ بجلی، پانی اور سڑک سے ہٹ کر کتنے اور معاشرتی مسائل ہیں جن پر کام ہونا باقی ہے۔۔۔۔

صحت سے متعلق ہمارے علاقہ میں کسی حقیقی تبدیلی کی ضرورت ہے۔۔۔ صحت ایک بنیادی مسلۂ ہے۔ جس پر ہمارے علاقہ میں بہت کام ہونا ابھی باقی ہے۔

میرے خیال میں ہمارے بڑے مسائل اسی وقت حل ہو جاتے ہیں جب چھوٹے مسائل وقت پر حل ہونا شروع ہو جائیں۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے