بارہ مئی کےسانحہ مستونگ کو چند روز ہوگئےمگر کبھی علمی،ادبی اورسیاسی حوالوں اور زعفران کے باغات کی وجہ سے مشہور اس شہرکی فضاء اب بھی سوگوار ہے۔
بازار کھل گئے ،کاروباری سرگرمیاں بھی کسی حد تک معمول پر آگئیںمگر اب بھی شہر کے باسی غم کی کیفیت میں ہیں اور ماضی میں بیش قیمت زعفران کی خوشبوسے معطر رہنےوالے مستونگ کی فضا میں اب خون کی بو رچی ہوئی ہے۔ شہر’شہر بےاماں‘ دکھائی دےرہاہے۔
بارہ مئی کو شہرکےنواح میں قائم بچیوں اور خواتین کےلئےمخصوص مدرسہ عائشہ البنات کی دستاربندی کی تقریب کےبعد خود کش حملے میں اٹھائیس افراد شہید اورچالیس سےزائد افراد زخمی ہوئےتھے۔
زخمیوں میں جمعیت علمائے اسلام کے اہم رہنماء اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولاناعبدالغفورحیدری بھی شامل ہیں جبکہ جاں بحق افراد میں مولاناصاحب کےپرسنل اسٹاف افسر افتخارمغل اوردیگر کئی شخصیات شامل تھیں۔
شہداء میں زیادہ ترنوجوان اورطالب علم تھے۔جغرافیائی لحاظ سے دیکھاجائے تو بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے تقریبا پچاس کلو میٹر کی دوری پر واقع مستونگ تقریبادو لاکھ کی آبادی کاشہراورکوئٹہ سےکراچی اور تفتان کی گزرگاہ ہے۔
بے فکری آزاد خیالی اور وسیع القلبی کےباعث بلوچ اور براہوی اکثریتی آبادی کاشہرمستونگ ہندواورعیسائی اقلیتوں کےلئےبھی پرامن شہر رہاہے۔اسی شہر کو قائداعظم محمد علی جناح کی میزبانی کا شرف بھی حاصل ہوا، صوبے کے پہلے کیڈٹ کالج کےقیام کااعزاز بھی اسے حاصل ہےجہاں سے فارغ التحصیل طلباء صوبے اور ملک بھر میں پیشہ ورانہ فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔۔۔
مگر گزشتہ دس سال میں مختلف اوقات میں ہونےوالے دہشت گردی کےچار بڑے واقعات اور ٹارگٹ کلنگ وبم دھماکوں کےچھوٹےبڑے کئی واقعات نےاس شہرمیں امن اوربھائی چارہ کی فضا کو سبوتاژکردیا۔ رہی سہی کثر دہشت گردی کےحالیہ واقعہ نےپوری کردی۔
یہ بھی درست ہے کہ سانحہ مستونگ میں شہیدہونےوالے افراد کا غم تو پورےبلوچستان کےساتھ ساتھ ملک بھر میں بھی شدت سے محسوس کیاگیامگر اہل مستونگ کےلئے تو یہ سانحہ بڑا روگ لایا۔
جی ہاں،سانحے کےشہداء میں سے اکیس کاتعلق اسی شہرسے تھا ۔ان میں سےسات حفاظ قرآن بھی تھے۔سب کی عمریں دس سے پچیس سال کےدرمیان تھیں۔انہی میں سےایک جواں سال میرتنویرملازئی بھی تھا۔وہ گریجویشن کےبعد روزگارکی تلاش میں تھا۔وہ سماجی کاموں میں پیش پیش رہتا، فارغ وقت میں اسنوکر اس کامشغلہ تھا،اس کی جدائی کاغم اس کےبوڑھےوالدین ، بھائیوں اورعزیزواقارب کےلئے ناگہانی آفت سے کم نہیں ۔
تنویر ملازئی کےعلاوہ مستونگ کے طالب علم عمران، عبدالغفاراوردیگر بھی اس سانحہ میں زندگی کی بازی ہارگئے تھے۔ان سب کےاہل خانہ بھی اس بڑے غم پر نوحہ کناں ہیں ۔ان میں خودکش حملےکانشانہ بننےوالے مدرسہ کےمہتمم کے حافظ قرآن بیٹےسمیت خاندان کےتین افراد بھی شامل ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ سانحہ مستونگ تو اب تاریخ کاحصہ بن گیا ہےاور یہ بھی کہ دہشت گردی کا یہ کوئی نیا واقعہ بھی نہیں تھا،اس سے پہلے دس برسوں کےدوران دہشت گردی کےمتعدد واقعات نے مستونگ کو لہولہو کیاہے۔ان واقعات کانشانہ بننے والے متاثرین پوچھتے ہیں کہ وہ کس کےہاتھ پہ اپنالہوتلاش کریں ؟
سانحہ مستونگ پر شہر میں شہداء کےایصال ثواب کےلئے فاتحہ خوانی اور تعزیت کاسلسلہ جاری ہےلیکن شہر کےباسی اربابِ اقتدار سے سوال کررہے ہیں کہ انہیں سکون اور چین کب ملےگا،اس شہر بےاماں کو اماں کب ملے گی؟؟