دوست نے قائداعظم سے کہا:سر!یہ کمیونسٹ ہے،فسادات کی یادیں رُلاتی ہیں:بائیں‌بازو کے معروف دانش ور اور کارکن تحریک پاکستان عبدالرؤف ملک سے خصوصی انٹرویو

عبدالرؤف ملک کاشمار پاکستان میں بائیں بازو کے ان نمایاں افراد میں ہوتا ہے جنہوں نے ہندوستان کی برطانوی راج سے آزادی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تقسیم کو شعور کی آنکھ سے دیکھا ۔ عبدالرؤف ملک تقسیم ہند کے وقت 20برس کے تھے۔ 1945ء میں انہیں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیاکی جانب سے ممبر شپ کارڈ مل چکا تھا ۔کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے مسلم لیگ کی جانب سے کیے گئے نئے ملک کے مطالبے کی حمایت کا فیصلہ کیا تو عبدالرؤف ملک بھی تحریک پاکستان میں متحرک ہو گئے۔قائداعظم محمد علی جناح اور ان کے ساتھیوں کو دیکھنے اور سننے کا موقع بھی ملا۔

 

انہوں نے تقسیم کے نتیجے میں پیدا ہونے والے انسانی المیے کا بھی بہت غور سے مشاہدہ کیا۔ عبدالرؤف ملک اس زمانے کے فرقہ وارانہ فسادات کا ذکر کرتے ہوئے آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔انہوں نے پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست میں سرگرم شرکت کی اور پاکستان کی سیاسی تاریخ کے سبھی رنگ ان کے دیکھے بھالے ہیں۔رواں برس ان کے سفر زیست کی رودادپر مبنی کتاب ’’سرخ سیاست‘‘ شائع ہوئی جو سیاست کے طالب علموں کے لیے خاصے کی چیز ہے۔ یہاں خیال بھی رہے کہ عبدالروف ملک بائیں بازو کے معروف دانش ور اور مصنف عبداللہ ملک کے چھوٹے بھائی ہیں.

 

ملک کے 70ویں یوم آزادی کی مناسبت سے ہم نے عبدالرؤف ملک سے ایک شام ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی اور خاص طور پر گفتگو تقسیم ہند کے مشاہدات پر مرکوز رکھی ۔ آخر میں حال اور مستقبل پر بھی کچھ کلام ہوا۔ ان سے ہوئی گفتگوکا خلاصہ ان سطور میں پیش کیا جا رہا ہے۔

(فرحان خان)

 

تقسیم کے وقت میری عمر بیس سال تھی اور میں اس وقت لاہور میں تھا ۔میں نے 1947ء میں پنجاب یو نیورسٹی سے بی اے کا امتحان دیا تھا۔میں 1945ء سے ہی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کا ممبر تھا اور اس وقت لاہور میں غالباً واحد زندہ شخص ہوں، جس کے پاس کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کا ممبر شب کارڈ ہے۔پارٹی فیصلوں کی مطابق میں نے مسلم اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے ساتھ سرگرم کردارادا کیا ۔ اس دوران میری دیگر دوستوں کے ہمراہ قائداعظم کے ساتھ ملاقاتیں بھی رہیں ۔

*دوست نے قائداعظم سے کہا: سر! یہ کمیونسٹ ہے

میں اپنے دوستوں اور جاننے والوں میں کمیونسٹ کے طور پر جانا جاتا تھا۔وہ میرے ساتھ بحث مباحثہ بھی کرتے تھے ،مسلم لیگ میں سے شیخ رفیق مرحوم اوراحمد سعید کرمانی وغیرہ بھی میرے دوست تھے،یہ کسی حد تک پروگریسو قسم کے لوگ تھے اور میں مارکسسٹ تھا لیکن یہ لوگ ریجڈ مذہبی نہیں تھے۔ اس لیے ان کے ساتھ بات چیت ہوتی رہتی تھی ۔
مجھے یاد ہے ایک محفل میں قائداعظم طلبہ کی بڑی تعدادکے درمیان موجود تھے۔میں بھی دوستوں کے ساتھ وہیں تھا، میرے ایک جونئیر منصور ملک نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے قائد اعظم سے طنزاً کہا ’’سر! یہ کمیونسٹ ہے‘‘ انہوں نے میرے سراپے پرنگاہ ڈالی کہ اس میں کیمونسٹوں والی کیا بات ہے ۔ میں شیروانی میں ملبوس تھا ، ٹوپی پہنی ہوئی تھی ،گویامسلم لیگی دکھائی دیتا تھا۔ قائداعظم میری طرف دیکھ کر مسکرائے۔اس وقت میرے ہاتھ میں قائداعظم کی ایک تصویر تھی جومیں نے وہیں ایک فوٹو گرافر سے ایک روپے میں خریدی تھی،قائداعظم نے میرے ہاتھ سے تصویر لے کر اس پر M.A Jinnah لکھ کر دستخط کر دیے۔ان دنوں مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے ایک سمر اسکول آف پالیٹکس قائم کیا تھا۔لیڈرز وہاں آکر لیکچرز دیتے تھے اور طلبہ کی سیاسی تربیت کرتے تھے ۔یہ سمر اسکول فاطمہ میموریل اسکول میں گرمیوں کی چھٹیاں میں لگتا تھا۔ مذکورہ بالاواقعہ وہیں کا ہے ۔اس کے بعد میں نے نواب افتخارممدوٹ کی کوٹھی میں ان کو کئی بار دیکھا۔قائداعظم اردو میں بات بالکل نہیں کرتے تھے ، انہیں اردو آتی ہی نہیں تھی ۔ہمیں ’’ینگ مین‘‘ کہہ کر مخاطب ہوتے تھے ۔

*قائداعظم مسلمانوں کی معاشی خود انحصاری کی بات کرتے تھے
قائداعظم اکثر کہتے تھے کہ ہم پاکستان کا مطالبہ ہندو سرمایہ داروں سے معاشی آزادی حاصل کرنے(Emancipation of Muslims from Hindu Capitalists) کے لیے کر رہے ہیں ۔ میں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ان کا رویہ کمیونسٹوں کے ساتھ کبھی ترش نہیں تھا ۔قائداعظم مسلمانوں کی معاشی خود مختاری اور خود انحصاری چاہتے تھے ۔ میں نے علامہ اقبال کو بھی دیکھا ہے ، ہمارے ایک رشتہ دار علامہ اقبال کے مداح تھے۔ایک بارعلامہ ان کے گھر آئے تو میں نے دیکھا ۔اس کے بعد ایک بار سنٹرل ماڈل اسکول میں وہ اپنے بیٹے جاوید اقبال کو لینے آئے تھے تب دیکھا ، جاوید اقبال مجھ سے دو کلاسیں سینئر تھے ۔

*فسادات کی یادیں رُلا دیتی ہیں
جب سینتالیس میں فسادات ہوئے تو میں لاہور میں تھا ۔وہ بہت اندوہ ناک یادیں اور باتیں ہیں ۔ مجھے تو رونا آتا ہے۔ ۔ ۔ ۔جب میں اپنے پرانے غیر مسلم اور مسلم دوستوں کو سوچتا ہوں تو بیان نہیں کر سکتا (اُن کا گلا رُندھ گیا اور آنکھیں نم ہو گئیں۔ ذرا وقفے کے بعد انگریزی میں کہا :I am very small hearted

تصویر بشکریہ: 1947 آرکائیو

man ۔ جلد رو پڑتا ہوں) جب تقسیم ہوئی تو دوسرے تیسرے دن عید تھی۔مجھے وہ منظر نہیں بھولتا کہ ایک مہاجر عورت بین کر رہی تھی ۔(عید پر ہمارے ہاں اپنے عزیزوں کی قبروں پر جا کر فاتحہ کے لیے جانے کا رواج ہے ) وہ کہہ رہی تھی کہ اب میں کیسے جاؤں گی تمہاری قبر پر۔کیسے فاتحہ پڑھوں گی۔وہ اپنے بھائی یا بھتیجے کو یاد کر رہی تھی ۔(وہ یہ منظر بیان کرتے ہوئے پھر سے رو پڑے ، اورذرا وقفے کے بعد پھرگویا ہوئے)تقسیم کے بعد ہماری ڈیوٹی لگی تھی کہ ہم وہاں کیمپوں میں جا کر مہاجرین کی دلجوئی کریں ، ان میں تحائف تقسیم کریں۔ ہم نے یہ کام سرگرمی سے انجام دیا

*فسادات دراصل طاقت کے بھوکے لوگوں کی سازش تھی
فسادات کا ذکر چلا تو بتایاکہ کبھی کبھار کسی بات پر ہندو مسلم یا سکھ مسلم جھگڑا ہو جاتا تھا جیسا کہ اب یہاں مسلم فرقوں میں ہوجاتا ہے۔شیعہ سنی لڑائی تو معمول بن چکی ہے۔ میں کمیونسٹ پارٹی میں تھا ، اس پارٹی میں اکثر ہندو سکھ تھے لیکن ہمارے تو بہت مثالی تعلقات تھے ۔ ایک دوسرے کے ساتھ کھانا پینا اور گھر آنا جانا ، سب تھا۔ فسادات دراصل طاقت کے بھوکے لوگوں کی سازش تھی۔

*نہرو کے برعکس قائداعظم کے رویے میں لچک تھی،آزادؔ بہت اچھے انسان تھے
قائداعظم کی میں بہت تعریف کرتا ہوں ، ان میں لچک تھی ۔وہ معاملات کو سمجھنے میں ہٹ دھرم نہیں تھے ۔اس کے برعکس میں نے محسوس کیا کہ نہرو میں اس طرح کی لچک نہیں تھی ۔ یہی رویہ میرے نزدیک تقسیم کا موجب بنا ۔ میں سمجھتا ہوں تقسیم کی وجہ کانگریس اورنہروو پٹیل لوگ تھے۔ مولانا آزاد کے متعلق میں بڑی اچھی رائے رکھتا ہوں لیکن وہ کانگریسی ماحول کی گرفت میں آ گئے تھے اس لیے وہ نہ ہو سکاجو ان کا وژن تھا ، وہ بھی قائداعظم کی طرح سوچ میں کُھلے تھے ۔بات سنتے تھے اوربات سمجھانے کی کوشش کرتے تھے۔انہیں میں نے ایک دفعہ دلی میں دیکھا تھا اور پھر لاہور میں ان کے قریب بیٹھ کر ان کی تقریر سنی ہے ۔وہ بہت اچھے آدمی ہیں۔

*آبادیوں کے انخلاء کے بعد یہاں کی اشرافیہ کی بھوک تیز ہوئی
تقسیم کے بعد کے حالات سے متعلق سوال پر کہاجو بات پاکستان بنانے والوں کے ذہن میں تھی اس پر بالکل عمل نہیں کیا گیا ۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ آبادی کا جو انخلاء ہوا اس کے سبب پاکستان کی اشرافیہ کی دولت کی بھوک تیز ہوئی۔یہاں میں ایک مثال دیتا ہوں۔انار کلی اس وقت پوش ایریا سمجھا جاتا تھا۔ انار کلی میں بمشکل دس فیصد دکانیں مسلمانوں کی تھیں ۔جب پاکستان بنا تو ہندو بے شمار کاروبار اور بہت سی جائیداد چھوڑ کر چلے گئے توکچھ مہاجر ہو کر آئے ہوئے لوگ ان پر قابض ہوئے اور کچھ مقامی لوگوں نے قبضے کیے۔اس طرح ان کو بہت بڑا کاروبار بنا بنایا مل گیا ۔کارخانے ، زرعی زمینیں وغیرہ۔

*میاں افتخار الدین کی پالیسی کو ناکام بنایا گیا
میاں افتخارالدین کو اس وقت پنجاب میں وزیر مہاجرین بنایا گیا ۔وہ قدرے روشن خیال آدمی تھے اورکسی حد تک کمیونسٹوں کے قریب تھے۔انہوں نے تجویز دی تھی کہ غیرمسلموں کی چھوڑی ہوئی زمینوں کو الاٹ کرنے کی بجائے قومی تحویل میں لے لیناچاہئے لیکن یہاں لوگوں کی نگاہ بڑے بڑے کارخانوں، دکانوں اور جائیدادوں پر تھی جن میں نواب ممدوٹ ، شوکت حیات وغیرہ وغیرہ شامل تھے ۔ اگر ایسا ہوجاتا اور صرف ضرورت مندوں کو کچھ زمینیں الاٹ کی جاتیں تو مسائل بہت حد تک حل ہو جاتے۔

*طبقاتی تضاد ختم یا کم سے کم کیا جاتا تو حالات مختلف ہوتے
میری معاشی امور پر نگاہ رہتی ہے ۔ میں سمجھتا ہوں ہمارے ہاں تمام جھگڑے طبقاتی تفریق کے ہیں ،میں طبقات سے پاک سوسائٹی کا قائل ہوں۔پاکستان میں گزشتہ ستر برس میں عام آدمی کے معیار زندگی پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا۔ انہوں نے پنجابی کاایک دوہا پڑھا جس کا مطلب یہ تھاکہ’’لوگ صرف اس وقت تک ساتھ رہتے ہیں جب تک کشتی چلتی رہتی ہے جب کنارے لگ جاتی ہے تو سب بکھر جاتے ہیں ‘‘ پاکستان بننے پر طبقاتی تضاد کم ہونے کی بجائے بڑھا ہے۔چاہئے تو یہ تھا کہ مساوات قائم کی جائے اور طبقاتی تضاد کو ختم یا پھر کم سے کم کیا جائے لیکن ایسا نہ ہوسکا۔میں ایسے بے شمار لوگوں کو جانتا ہوں جو ادھر سے مہاجر ہو کر آئے،وہاں ان کے پاس جو کچھ تھا وہ بھی مجھے معلوم ہے ، یہاں آکر انہوں نے توبہت کچھ بنا لیا ۔ یہ سب کچھ ہونے کی بجائے اگر کوئی اچھی اسکیم بنائی جاتی تو حالات کافی بہتر ہوتے ہیں۔

*ہمارے اداروں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے
ہمارے ہاں تعلیمی نظام پر بھی توجہ نہیں دی گئی۔یہاں بھی طبقاتی تضاد ابھر کر سامنے آیا ۔ایک طبقے نے تعلیم کو اپنی خوشحالی کے لیے استعمال کیا۔سوسائٹی کی بہتری نہیں سوچی۔انہوں نے لاہور کی ایک مہنگی یونیورسٹی کی مثال دیتے ہوئے کہاکہ یہ قائم ہی اس لیے کی گئی ہے کہ اس میں ایسے لوگ بنائے جائیں جو ہمارے بڑھتے ہوئے کاروبار کو مینیج کر سکیں۔ اسی طرح اور بھی ماڈرن ٹیکنالوجی سکھانے کے ادارے کھولے گئے ۔ہمارے سرکاری تعلیمی اداروں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔مختصریہ کہ اگر ہم نے اس ملک کو بہتر کرنا ہے تو ہمیں یہاں موجود طبقاتی تضاد کو ختم یا پھر کم سے کم کرنا ہوگا۔

*ہر فرد سوسائٹی کے بارے میں وہی سوچے جو اپنے بارے میں سوچتا ہے
پاکستان کو کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے؟ یہ مشکل سوال ہے۔اپنی کلاس کو بہتر کریں،کوشش کریں کہ آپ جس کلاس(طبقے) سے ہیں ، اس میں موجود انا اور ایگو ختم ہو، اس سے انسان دوستی کے جذبات بڑھیں گے اور طبقات میں ربط بڑھے گا۔ ہر فرد کا سوسائٹی میں کردار ہوتا ہے اور سب سے بڑا کردار یہ ہے کہ وہ ہر ایک کو اپنے جیسا سمجھے ۔ جو اپنے لیے چاہے وہی دوسروں کے لیے چاہے۔ ’’دی رول آف انڈیویجول اِن سوسائٹی‘‘ ایک بہت مشہور روسی مصنف کا مقالہ ہے ۔سب سے بنیادی بات اس نے یہی لکھی تھی ایک فرد کو چاہئے کہ وہ سب کو اپنے جیسا سمجھے ۔ یہ بہت بنیادی بات ہے ۔

 

عبدالرؤف ملک نے بتایا کہ اس برس کے آخر میں وہ 91برس کے ہونے والے ہیں ۔ عمر کے اس حصے میں بھی حالات حاضرہ سے باخبر رہنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کچھ نہ کچھ پڑھتے رہتے ہیں ۔اہلیہ کی علالت کے باعث زیادہ باہرنہیں نکلتے ۔ تقریبات میں بھی جانا محدود ہی ہے ۔ گاہے اپنے پرانے دوستوں سے ملنے نکل پڑتے ہیں ۔ ہم نے ان کی جانب آخری سوال اچھالا کہ’’ اگرآپ کو پھر موقع ملے توگزرے 70برسوں میں سے کس دہائی میں جینا پسند کریں گے ؟وہ مسکرائے ، ایک لمحہ توقف کیا اورپھربولے:’’کسی میں بھی نہیں‘‘ ۔ پھر کہا :’’ میں تقسیم ہند سے پہلے کی دہائی میں جینا چاہوں گا‘‘ ۔یہ کہتے ہوئے ان کے چہرے پر معصومیت بھری مسکراہٹ پھیل گئی ۔یوں کشادہ پیشانی والے ملن سار بزرگ دانش ور سے ہماری ملاقات تمام ہوئی ۔

 

 

 

یہ انٹرویو روزنامہ 92 سنڈے میگزین کےشکریہ کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے