صد ف بنت انصاف
اسلام آباد
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ارے سن … دل کے ساتھ… تیرا کیا لفڑا چل رہا ہے آج کل ؟
اسے کیوں نہیں کرنے دے رہے اسکا کام … !!
حد ہو گئی بھائی …. اس کا کام کیا تھا ؟
خواہش کرنا .. یہی نا
تو کیا جرم ہے ؟
نہیں نا
پھر اسے کوستے کاہے کو ہو ؟
بچارے کو کبھی کہتے ہو ؛
دل تو پاگل ہے،،،،،،،،،دل دیوانہ ہے”” ..
غالب و فراز….. بدبخت کہیں کے … اس بچارے کو ‘ظالم دل’ کہہ کہہ کے تھکتے نہیں ہیں … ملیں ذرا مجھے بتاؤں انکو .. کیا ڈرامہ لگا رکھا ہے …
اسکا کام ہی خواہشں پیدا کرنا ہے … حسرتیں پالنا ہے …. بھلا ڈانٹے کیوں ہو اس بچارے کو ؟
دیکھ بیٹا … ہم تو آج سچی بات کرنے کا ہے … کہ
” دل زندہ رہنے کو __ کوئی جستجو مانگے ہے….. ”
ہاں جی … جیسے اس کا ایک کام خون پمپ کرنا ہے نا !
ایسے ہی .. بلکل ایسے ہی .. اسکا ایک اور اہم کام ،، بلکہ ڈیوٹی ؛ خواہشیں پمپ کرنا بھی ہے …
ارے مر جائے گا .. مر جائے گا .. اگر روکا اسے تو ..
کرنے دو اسے اسکا ازلی کام … ہاں نہیں تو پھر _____
جیتے جی بھی غالب بھی مرنے والی باتیں کرے گا…. کون سی بات ؟ یہی کہ …
"جس دل پہ ناز تھا ہمیں وہ دل نہیں رہا ”
اور
” دل ہی نہیں رہا کہ جستجو کرے کوئی”
تو اسلئے عزیزم ! کرنے دو بچے کو جستجوئیں … آرزوئیں … اس کے ساتھ پنگا نہ کرنا ورنہ …
گھروں کے بجائے ….رہبانیت کی خانقاہیں تعمیر ہوا کریں گی … !
مسجدوں کے بجاے غار آباد ہو جائیں گے ….!!
کیا بولے ؟ خواہشیں پوری کون کرے گا ؟
ارے وہ دل کی ذمداری نہیں … یہ دل کا درد سر نہیں … اسے کیا لگے پوری ہو گی یا نہیں .. اسکا کام ہے بس پمپ کرنا .. اگے خواہش کس کھاتے میں جا گرتی ہے … یہ بعد کی بات ہے … جو بعد میں ہی ہو گی ….
مگر میرا پیٹنا رونا یہ ہے کہ ، ایک طرف کم بخت وہ ہیں جو اسے خواہش پیدا کرنے کی بھی اجازت نہیں دیتے …. اس کے منہ پہ تکیہ دے کے ھر معصوم حسرت کی جان نکلنے کو تیار بیٹھے ہیں ____ اور دوسری طرف وہ ہیں کہ … ابھی ٹھیک سے خواہش نے انگڑایی بھی نہیں لی ،،، آنکھ بھی نہیں کھولی … کہ بس تکمیل کے لئے ہاتھ پاؤں ، بلکہ سر اورمنہ بھی دھو کہ پیچھے پڑ جاتے ہیں !! یہ چاھتے ہیں کہ دھرا دھڑ ھر خواہش پوری ہوتی جائے ..
ابے غالب کے بھانجو ، اور فرازکے بھتیجو … کیا رونا پیٹنا ڈالا ہے … یہ دنیا تو صرف آرزو ” بنانے ” کی جگہ ہے ….”پوری” کرنے کی نہیں… پوری کرنے کے لئے تو جنت تعمیر ہوئی پڑی ہے …. فکر کاہے کی کرتے ہو . جنت کو ہم دل والوں کے لئے ہی تو بنایا گیا ہے ….نہیں تو اور کیا ڈائناسور اور ‘پانڈیں’ وہاں پناہ گزیں ہوئے پڑے ہیں ؟
ہاں .. تو میں نے بس التجا یہ کرنی تھی کہ ! دل کو خواہش کا کھلونا مانگنے پہ ڈانٹنا نہیں….. بلکہ کوشش کرنا صراط مستقیم کی گلی سے خرید کہ لا دو .. اگر وہاں سے نہ ملے اور دل، اس خواہش پہ ضدی بچوں کی طرح اڑ جاے تو پھر ضرور جھڑک دو اسے
اور بعد کی ‘وہ’ بات ‘یہ’ ہے کہ ،
پروین شاکر کے نواسوں، نواسیوں ! دنیا میں خواہشات، "جینریٹ” کرنے کے لئے بھیجا گیا ہے ،،، کہ جاؤ ،، پہلے بہت سے خواہشیں پیدا کر لاؤ دل میں .. ہو سکے تو کچھ کی لذت وہیں چکھ لینا ….کیونکہ جس کے پاس خواہشوں کا خزانہ نہیں ،، اس کا جنت میں جانے کا کوئی فائدہ نہیں.. اسکا وہاں کوئی کام نہیں .. منہ اٹھا کہ بیٹھا رہے گا … لیکن یہ بھی یاد رکھیو … جنت سے پہلے ان خواہشوں کو پورا کرنے کے پیچھے پڑ جانا پاگل پن ہے …. کہ بس آج نہیں تو کل .. ہر صورت پوری ہو ورنہ ___ یہ رہا پنکھا … اور وہ رہی رسی ……
ہائے ___ ایسے لوگوں کی خواہشیں بھی کہتی ہوں گی ..یہ کون تاولا ، ہمارے گلے پڑ گیا ہے … گھامڑ کہیں کا!