کنفیوژن زندہ باد

مہذب اور غیر مہذب ریاست میں فرق صرف کنفیوژن کا ہوتا ہے۔ کامیاب ممالک میں ہر چیز واضح اور شفاف ہوتی ہے جبکہ ناکام ملکوں میں ہر وقت کنفیوژن کا راج ہوتا ہے۔ یہاں اندھے، گونگے و بہرے عوام سوال کرتے رہتے ہیں آگے کیا ہو گا؟
نواز شریف کرپٹ تھا اس نے اثاثے، تنخواہیں، اقامے اور لندن فلیٹس چھپائے، جرم کیا، ہم نے اسے فارغ کر دیا۔ جان چھوٹی، مگر اب آگے کیا؟ زرداری کی باری ہے اسے ماریں، فارغ کریں۔ عمران بھی تنگ کرتا ہے، خود سر ہے، اس سے بھی جان چھڑا لیں مگر آگے کیا؟ یہ سب بھی کر لیا تو کنفیوژن برقرار رہے گا۔

یونانی دیومالائی کہانیاں پڑھیں تو کیوڈو آموس نامی ایک دیوی کا بار بار نام آتا ہے جو کنفیوژن پھیلاتی تھی میدان جنگ اور کنفیوژن سے وابستہ اس دیوی کا ذکر Erisکے نام سے بھی آتا ہے جس کی مخالف Harmonyیعنی باقاعدگی اور ہم آہنگی کی دیوی تھی۔ پرانے زمانے میں بھی کنفیوژن اور شفافیت کا مقابلہ تھا آج بھی ہے۔ مصری اساطیر میں اسی دیوی کو سیتھ کہا جاتا ہے۔ ریگستانوں اور کنفیوژن کی اس دیوی کو خرابی ٔ حالات کا ذمہ دار قرار دیا جاتا تھا۔

اساطیر اور دیو مالائی کہانیوں کا دور لد چکا اب کس دیوی کو موردِ الزام ٹھہرائیں؟ اب تو انسان خود ہی غلطیوں کے ذمہ دار ہیں۔ مہذب ممالک میں آئین، قانون اور روایت پر چلا جاتا ہے جبکہ غیر مہذب ممالک میں آئین سے ماورا اقدامات، لاقانونیت اور موشگافیوں کا دور دورہ ہوتا ہے۔ وہاں کنفیوژن زندہ باد ہوتا ہے۔

آیئے کنفیوژن کے کارناموں کا جائزہ لیں۔ پہلا کنفیوژن یہ کہ سیاست بری چیز ہے اور پاکستانی سیاست تو بہت بری ہے۔ چلو مان لیا تو اب سیاست کی جگہ کیا لائیں۔ پاکستانی سیاستدان کرپٹ اور برے سہی تو کیا اچھے سیاستدان بھارت سے درآمد کریں۔ یہ بھی درست کہ سیاستدان ایک مافیا ہیں تو کیا ان کی جگہ کوئی اور ڈرگ مافیا لائیں یہ بھی ٹھیک کہ ہمارے ملک کا طرز حکمرانی و گورننس بہت برے ہیں مگر اچھا طرز حکمرانی چلانے کے لئے لوگ کہاں سے لائیں۔ چار مارشل لاء لگا چکے، 18وزیر اعظم رخصت کر چکے، کئی حکومتیں معطل کر چکے، سینکڑوں کو سزائیں دے چکے، اب کیا حکومت طالبان کے حوالے کر دیں؟ سر تسلیم خم کہ پارلیمانی جمہوریت مسائل کی جڑ ہے مگر ہم تو ایوب دور میں لائل پور کے گھنٹہ گھر جیسا صدارتی نظام بھی لا چکے، ہم تو مشرف دور میں فرانس جیسا مضبوط صدر اور جمالی جیسا کمزور وزیر اعظم بھی لا چکے۔ گورنر جنرل، صدر ضیاء الحق اور صدر غلام اسحاق خان سے ہم اسمبلیاں تڑوا چکے۔ ہم ہر تجربہ کر چکے جو نہیں کیا تو وہ کنفیوژن دور نہیں کیا۔ کسی نظام کو چلنے نہیں دیا ہر وقت شک، وہم اور سازشوں سے شفافیت نظام اور باقاعدگی کا بیڑہ غرق کیا ہے۔

ہر ملک یا ادارہ جو صحیح چل رہا ہے اس کا ایک کیلنڈر، شیڈول یا اصول و ضوابط طے ہوتے ہیں۔ یونیورسٹی کیلنڈر کے مطابق چلتی ہے، کب امتحان ہوں گے اور کب داخلے، یہ سب کیلنڈر میں طے کر دیا جاتا ہے۔ فوج میں ہر چیز کا ٹائم ٹیبل طے ہے کس افسر کی کتنی ملازمت ہے، کب ریٹائر ہونا ہے سب طے شدہ ہوتا ہے۔ عدلیہ میں بھی ہر چیز شفاف ہے چیف جسٹس کی مدت ملازمت کتنی ہے، نیا چیف جسٹس کون ہو گا، یہ سب کو معلوم ہوتا ہے مگر واحد چیز پاکستان ہے جس کا دستور موجود ہے جس میں سب تحریر ہے قاعدہ قانون، شیڈول مگر اس پر عمل نہیں ہوتا۔ کیا کسی کو علم ہے کہ اگلا الیکشن کب ہو گا؟ جماعتی ہو گا یا غیر جماعتی؟ ن رہے گی یا نہیں؟ نواز شریف مقابلہ کریں گے یا شہباز شریف؟ زرداری لڑ سکیں گے یا نہیں؟ اٹھارھویں ترمیم رہے گی یا ختم کر دی جائے گی؟ سب کنفیوژن ہے۔

پیپلز پارٹی جیسی قومی جماعت رو بہ زوال ہے۔ عدالتی فیصلے کے بعد ن لیگ کا مستقبل بھی محفوظ نہیں۔ تحریک انصاف پر فیصلہ سازوں کو اعتماد نہیں اسی لئے کنفیوژن ہے کہ آگے کیا ہو گا حالانکہ ملک کو چلاناہے تو کنفیوژن نہیں بلکہ سکون، باقاعدگی، امن یقین اور اعتماد ہونا چاہئے۔

سوچنا تو چاہئے کہ ہم کر کیا رہے ہیں۔ سیاست کو اتنا مار رہے ہیں کہ اس کی جان ہی نکل جائے۔ جمہوریت کو اتنا برا بھلا کہہ رہے ہیں کہ اس کی سانسیں پھول چکی ہے۔ یہ تو بتائیں کہ سیاست اور جمہوریت کی جگہ کیا لانا چاہتے ہیں؟
قانونی موشگافیاں اور تشریحات و نظرثانی کو چھوڑیں آئین میں واضح درج ہے کہ وزیر اعظم چیف آف آرمی سٹاف کو گھر بھیج سکتا ہے مگر کیا جنرل پرویز مشرف کی برخاستگی اور مارشل لاء کے نفاذ کے بعد آئین کے اس آرٹیکل پر عمل ہو سکتا ہے؟ آئین سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے خلاف آرٹیکل 209کے تحت ریفرنس بھیجنے کی اجازت دیتا ہے مگر کیا فاضل جج رمدے صاحب کے فیصلے کے بعد کوئی حکومت کسی چیف جسٹس کو فارغ کر سکتی ہے۔ 58ٹو بی کے خاتمے کے بعد آئین میں وزیر اعظم کو نکالنے کے دو ہی راستے تھے عدم اعتماد یا پھر خود وزیر اعظم کا استعفیٰ۔ مگر ہم نے دو وزیر اعظموں کو ایک تیسرے راستے یعنی عدالتوں کے ذریعے گھر بھیج دیا یعنی آئین میں عدلیہ اور فوج کے سربراہ کو بھیجنے کے جو راستے تھے ہم نے بند کر دیئے اور وزیر اعظم کو گھر بھیجنے کا جو راستہ آئین میں نہیں تھا وہ ہم نے کھول دیا۔ واہ رے کنفیوژن تیری کون سی کل سیدھی!!

لال بجھکّڑڈرائنگ روم دانشوروں سے پوچھیں کہ کئی نظام بدلے، صدر بدلے، وزیر اعظم نکالے مگر پھر بھی ملک ٹھیک کیوں نہیں ہوا تو گھڑا گھڑایا جواب دیتے ہیں عوام بہت گنوار ہیں، اَن پڑھ ہیں، زرداری اور نواز شریف وغیرہ کو اپنے مفادات کی وجہ سے آگے لے آتے ہیں مگر ان سے کون پوچھے کہ نواز شریف کو کس نے سیاست میں اتارا تھا؟ زرداری کے دور صدارت میں اس کا Best Friendکون تھا؟ یہ بساط بچھانے والوں کا بھی تو احتساب ہونا چاہئے۔ آخر ان مسائل کا حل کیا ہے۔ کنفیوژن دور کیسے کیا جائے؟ دستور پر چلیں، عدلیہ آئی جی کی تقرری اور تبادلوں کو اپنے ہاتھ میں نہ لے، سیاستدان فوج اور عدلیہ سے پنگے نہ لیں، فوج سیاست سے دور رہے، باقی دنیا کو دیکھیں امریکی صدر کلنٹن کتنے سچے اور ایماندار تھے، برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے عراق جنگ میں کون کون سے جھوٹ نہیں بولے، اسرائیلی وزیر اعظم کیا بدعنوانیاں نہیں کرتے، بھارتی وزیر اعظموں پر کیا کیا الزام نہیں لگے، صدر ٹرمپ کے کاروبار کے معاملات کتنے شفاف ہیں؟ ہم کیا دنیا سے الگ پیمانوں پر سیاستدانوں کو تولنا چاہتے ہیں۔ عرض ہے کہ دودھ سے دھلے، کوثر و تسنیم میں پلے، 62اور 63کی چھلنی سے گزرے فرشتے سیاستدانوں کی تلاش بند کریں اور جو چند باقی بچ گئے ہیں چوم چاٹ کر انہی پر گزارا کریں۔ اسی سے کنفیوژن دور ہو گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے