یہ کام صرف پاک فوج ہی کر سکتی ہے

23 فروری 2017کو میرا کالم ’’سب گونگے کیوں ہو گئے؟‘‘ جنگ میں شائع ہوا۔ اس کالم میں میں نے دی نیوز کے رپورٹر فخر درانی کی چند روز قبل شائع ہونے والی ایک خبر کا حوالہ دیا جس کے مطابق راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی تین بچوں کی ماں مختلف ہاتھوں میں بکتے بکتے افغانستان پہنچ گئی۔ چالیس سالہ خاتون کے اغوا کے کوئی دو ماہ بعد اس واقعہ کی ایف آئی آر راولپنڈی کے ائیر پورٹ تھانہ میں درج کی گئی۔ اس خاتون کے شوہر سے اغوا کاروں نے افغانستان سے رابطہ کر کے تین لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کیا لیکن مزدوری کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالنے والے کے پاس نہ تو پیسہ تھا کہ تاوان کی رقم ادا کر کے اپنی بیوی کو واپس لاتا اور نہ ہی وہ اتنا اثر ورسوخ رکھتا تھا کہ اُس کے بیوی کو افغانستان سے بازیاب کرانے کے لیے حکومت کوئی سنجیدہ کوشش کرتی۔ خاتون کے شوہر کے مطابق اُسے اغوا کاروں کے افغان ایجنٹ نے بتایا کہ اُس کی بیوی کو افغانستان میں کسی نامعلوم جگہ پر رکھا گیا تھا جہاں اُسے ایک معمر افغان شہری کو نکاح کر کے فروخت کیا گیا۔

مغوی خاتون کے شوہر کے مطابق جب اُس کی بیوی نے افغانی شخص کو بتایا کہ وہ تو پہلے سے ہی شادی شدہ ہے اور اس کے تین بچے ہیں تو اس پر معمر شخص نے اس خاتون کو ایجنٹ کو واپس کر کے اپنی رقم واپس لے لی۔ فروری 2017 میں جب یہ خبر اور کالم جنگ میں شائع ہوے اُس وقت خاتون کے بارے میں اُس کے شوہر نے پولیس کو بتایا کہ اُس کی بیوی افغانستان میں ایجنٹ کے پاس ہے جو تین لاکھ روپے تاوان مانگ رہا ہے۔ جنگ میں میرے کالم کے شائع ہونے پر چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ثاقب نثار صاحب نے فخر درانی کی خبر کا سو موٹو لے کر راولپنڈی پولیس کو خاتون کی فوری بازیابی کے احکامات جاری کرنے کے ساتھ ساتھ اُس گینگ کو بھی پکڑنے کا حکم دیا جو اس قسم کے جرائم میں شامل ہے۔ اس سوموٹو کے بعد پولیس نے کچھ پکڑ دھکڑ کی لیکن تین بچوں کی ماں،ایک غریب مزدور کی بیوی اور ایک پاکستانی خاتون شہری تقریباً دس ماہ گزرنے کے باوجود ابھی بھی افغانستان سے پاکستان بازیاب کروا کر نہیں لائی جا سکی۔ گزشتہ روز ( 12ستمبر) کے جنگ اخبار میں فخر درانی نے اسی خبر کا فالو اپ دیا جس کے مطابق مغوی خاتون کا شوہر پولیس، حکومت حتی کہ سپریم کورٹ سے بھی انصاف نہ ملنے پر انتہائی مایوسی میں کہتا ہے کہ اُسے انصاف نہیں مل سکا۔

اُس کا کہنا ہے کہ اب ماسوائے خودسوزی کرنے کے اس کے پاس کوئی چارہ نہیں۔ ارشد نامی اس مظلوم کا کہنا ہے کہ اُس کا تعلق مری سے ہے جس کے منتخب نمائندہ قومی اسمبلی جناب شاہد خاقان عباسی اس وقت ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ خبر کے مطابق اُس نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے تین بچوں (دو بیٹیوں اور ایک بیٹا) سمیت شاہرہ دستور پر خود سوزی کرے گا۔ اُس کا کہنا ہے کہ اُس نے سپریم کورٹ کے ہیومن رائٹس سیل کو بھی درخواست دی کہ اس کیس کی سماعت کر کے پولیس اور حکومت پر دباو ڈالا جائے کہ اس کی مغوی بیوی کو افغانستان سے واپس اپنے ملک اور اپنے بچوں کے پاس لایا جا سکے۔ ارشد کا کہنا ہے کہ اُس نے وزیر اعظم آفس کے علاوہ، وزیر اعلیٰ پنجاب، وزیر داخلہ اور وزارت خارجہ کو بھی خطوط لکھے اور اپنی بیوی کی بازیابی کی بھیک مانگی لیکن کسی طرف سے کوئی جواب موصول نہ ہوا۔ ارشد کے مطابق اس کی بیوی کو خواتین کی سوداگری، قحبہ خانہ چلانے اور جعلی شادیوں میں ملوث ایک منظم مبینہ گروہ نے اغوا کیا لیکن تمام تر ثبوت دینے کے باوجود پولیس نے سپریم کورٹ اور ٹرائل کورٹ دونوں میںمبینہ گینگ کے حق اور مغویہ کے خلاف رپورٹ پیش کی اور یہ کہا کہ اس کی بیوی اغوا ہی نہیں ہوئی بلکہ اپنی مرضی سے رقم لے کر افغانستان چلی گئی ہے۔ پولیس کی رپورٹ کے بعد تمام گرفتار افراد جنہوں نے یہ تسلیم بھی کیا تھا کہ خاتون کو افغانستان کے شہری کو فروخت کیا تھا کو رہا کر دیا گیا۔ اگر پولیس اور مبینہ گینگ کے افراد کی بات کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو بھی کیا یہ حکومت کی ذمہ داری نہیں کہ ایک مغوی پاکستانی خاتون کو افغانستان سے بازیاب کرایا جائے۔

ارشد ان تمام الزامات کو سختی سے رد کرتا ہے لیکن حیرانگی کی بات یہ ہے کہ پولیس نے اپنی رپورٹ میں شکایت کنندہ کی بات کو تو تسلیم نہیں کیا لیکن مبینہ گینگ سے تعلق رکھنے والے ملزمان کے کہے کو سچ جانا۔ خبر کے مطابق راولپنڈی پولیس کی رپورٹ کے برعکس صوابی (خیبر پختون خواہ) پولیس نے اسی مبینہ گینگ کے خلاف مزید دو خواتین کو اغوا کرنے کے کیس درج کیے۔ فخر درانی نے اپنی تحقیقات کے دوران ارشد، اس کے ہمسایوں اور ٹھیکیدار جس کے ساتھ وہ گزشتہ پانچ سالوں سے کام کر رہا ہے سے بھی رابطہ کیا اور کسی نے بھی اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ ارشد کی بیوی اس طرح کے کاموں میں کبھی ملوث رہی ہو یا کبھی گھر سے غائب ہوئی ہو۔ پولیس کے مطابق ارشد کی بیوی جو 3دسمبر 2016 کو اغوا ہوئی تھی نے مبینہ گینگ سے پچاس ہزارروپیے کا سودا کیا جس میں سے نو ہزار ایڈوانس اور باقی اس کے جانے کے بعد مبینہ طور پر ارشد اور اس کے بیٹے کو ادا کیے گئے۔ پولیس کے برعکس فخر درانی نے جب معاملہ کی کھوج لگائی تو معلوم ہوا کہ ارشد نے مختلف چھوٹے پیمانے کے مائکرو فائنانس بنکوں سے تقریباً ایک لاکھ کے قریب قرضہ لیا ہوا تھا جو وہ بیوی کے اغوا ہونے سے پہلے باقاعدگی سے دو ہزار روپیےماہانہ قسطو ں میں ادا کر رہا تھا۔ تاہم بیوی کے اغوا کے بعد اُس کی طرف سے تمام بنکوں کو قسطوں کی فراہمی رک گئی ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اُس نے بیوی کے اغوا کا ڈرامہ رچایا اور پچاس ہزار وصول کیے تو پھر قرضہ کی کوئی ایک قسط بھی کیوں نہ ادا کر سکا۔ چند ماہ بعد کسی مخیر شخص نے ارشد کے تمام قرضہ کو ادا کر دیا۔ یہ معاملہ اگر تحقیق طلب ہے تو پولیس ضرور کرے لیکن مغوی خاتون کو افغانستان سے بازیاب کرانا ریاست پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ راولپنڈی پولیس کے متعقلہ تفتیشی افسر نے ایک بار فخر درانی کو بتایا کہ پولیس کے بس کی بات نہیں کہ خاتون کو افغانستان سے واپس لا سکے۔ یہ کام صرف پاک فوج ہی کر سکتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے