میں تجھے بھول جائوں اگر

یہ لکھنا لکھانا بھی عجیب کام ہے۔کبھی موضوع نہیں ملتا، کبھی موڈ نہیں بنتا، کبھی دونوں ہی نہیں ہوتے اور کبھی دونوں ہی موجود ہوں تو ’’دل‘‘اجازت نہیں دیتا اور ڈاکٹر جاوید سبزواری عجیب و غریب پابندیاں عائدکردیتے ہیں مثلاً…..ٹی وی نہیں دیکھنا۔اخبار نہیں پڑھنا۔ڈرائیو نہیں کرنا۔غصہ نہیں ہونا۔شانت رہنا ہے۔معمول کا کھانا نہیں کھانا۔دوائیں ذمہ داری سے کھانی ہیں۔سگریٹ وغیرہ نہیں پینا۔ہفتہ بھر فزیو تھراپی سے بھی پرہیز کرنا ہے۔چند دن کا کالم بھی نہیں لکھنا۔بندہ پوچھے اگر یہ سب کچھ نہیں کرنا تو پھر سانس لے کر بھی کیا کرنا ہے۔ گھر کا پہلا بچہ پہلی بار اکیلا بیرون ملک جارہا تھا۔ اسے پہلے کبھی تنہا سفر کا تجربہ نہیں تھا۔ اس میں خوداعتمادی پیداکرنے کے لئے یہ بہت ضروری تھا لیکن میری اپنی خوداعتمادی نجانے کہاں تحلیل ہو رہی تھی۔ ڈائریکٹ فلائٹ ہوتی تو بہتر تھا۔ ٹرانزٹ مجھے پریشان کر رہا تھا۔ جہاز ٹیک آف کر گیا لیکن بے چینی لینڈ کرچکی تھی۔ سینے میں شروع دبائو، درد، گھٹن اور جلن میں بتدریج اضافہ، میں نے دھیان بٹانے کےلئے اپنا پسندیدہ وِرد شروع کردیا۔ دو ڈھائی گھنٹے کی کشمکش کے بعد میں نے عاصم کو فون کیا کہ ’’ہارٹ کلینک‘‘میں ڈاکٹر جاوید سبزواری کو فون کرکے پوچھو کہ کلینک میں موجود اور فارغ بھی ہیں تو میں آجائوں۔ گرین سگنل ملتے ہی گاڑی نکالی۔ خود ڈرائیو کی عادت ہے لیکن احتیاطاً ڈرائیور ساتھ لے لیا تو اندازہ ہوا سر بھی چکرا رہا ہے۔سوچا سٹیئرنگ سے ہٹ جائوں لیکن پھر اپنی اس تھڑدلی پر لعنت بھیج کر ڈٹا رہا۔ کلینک پہنچتے ہی ECU میں ہارٹ مانیٹرنگ اور سٹیبلائزیشن کا بورنگ پراسس شروع ہوگیا۔ آکسیجن، بلڈپریشر، سانس کی رفتار، شوگر، دل کے الو کے پٹھوں پردبائو اور جانے کیاکچھ۔ مٹھی بھر گولیاں پیٹ میں، ایک چبھتی ہوئی گولی زبان کے نیچے….. پھر انجکشن اور ڈرپ، خون کا سامپل شوکت خانم ہسپتال روانہ۔ ایک عدد برینیولا (Branula) ہتھیلی کی پشت میں گاڑ دیا گیا۔خوشخبری یہ تھی کہ دل بال بال بچ گیا۔ انجائنا کا حملہ ہے جسے سنجیدہ وارننگ سمجھ کر احتیاط کی جائے تو خیر ہے ورنہ سواری اپنے سامان کی خود ذمہ دار ہوگی۔ ڈاکٹر سبزواری چاہتے تھے میں رات کلینک میں رکوںاور انڈر اوبزرویشن رہوں لیکن میں منت ترلا کرکے چند گھنٹے بعد گھر آگیا اور آنے سے پہلے درخواست کی کہ Branula اتار دیں ۔ ڈاکٹر صاحب نے درخواست رد کردی کہ کل پھر ضرورت پڑے گی، لگا رہنے دیں اور یہیں سے بات ہاتھ سے نکل گئی۔دوٹی وی چینلز کو پہلے سے وقت دیا ہوا تھا۔ نبھانا ضروری تھا سو بیٹھ گئے۔ پہلی ریکارڈنگ سے پہلے امیر افضل کا اسلام آباد سے فون آیا۔ روٹین کی گپ شپ کے بعد میں ریکارڈنگز میں مصروف ہوگیا۔ پہلا پروگرام ٹیلی کاسٹ ہوتے ہی فون کالز کی بوچھاڑ۔ حفیظ خان کو میرا نمبر نہ ملا تو امیر افضل کو فون داغ کر پوچھا ’’حسن کے ہاتھ پر برینیولا کیوںہے؟‘‘افضل نے کہا ’’خاں جی آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے میری تو دو گھنٹے پہلے بات ہوئی ہے، وہ کبھی کبھی ہاتھ پر رومال لپیٹ لیتا ہے۔‘‘ خان صاحب نے افضل کو بتایا کہ ’’یار! مجھے رومال اور برینیولا میں فرق کی تمیز ہے چیک کرکے بتائو۔‘‘ دوبارہ فون اور سوال کرنے پر میں نے روداد گوش گزار کردی لیکن فون کالز اور میسجز کی بھرمار جاری تھی۔ پہلی بار اندازہ ہوا کہ سفر رائیگاں نہیں گیا۔ دوست، احباب، رشتہ داروں کا تعلق اور تشویش تو قابل فہم لیکن یہ جو اپنوں سے بڑھ کر اجنبی اور ان کی بے پناہ اپنائیت تو انسان اسے کہاں لے جائے؟ کیسے سنبھالے اور کیسے ان کا شکریہ ادا کرے۔ سرور بھائی (سرور سکھیرا) ہوں یا جاوید اقبال کارٹونسٹ ان کا کنسرن تو بہت ہی قابل فہم لیکن دنیا بھر میں پھیلے وہ لوگ جنہیں میں ذاتی طور پر جانتا تک نہیں بہت سے مہربانوں نے تو نام تک نہ چھوڑے صرف خیریت معلوم کی اور دعائوں سے نوازا۔ دل کی گہرائیوں سے ان سب اجنبی اپنوں کا شکریہ….. بہت شکریہ’’میں تجھے بھول جائوں اگرمرا داہنا ہاتھ اپنا ہنر بھول جائے‘‘کیلنڈر اور کاربن ایئرز کے فرق کا احساس ہو تو زندگی اتنی بھی نہیں جتنی دیر کے لئے جگنو ایک بار چمکتا ہے لیکن محبت اور اپنائیت بے کراں ہے جو گناہ و ثواب کی طرح ساتھ جاتی ہوگی۔ بقول خواجہ صالح ’’بات کچھ آگے جا پڑی ہے‘‘ لیکن کتنی آگے؟زندگی اتنی غنیمت تو نہیں جس کے لئےعہد کم ظرف کی ہر بات گوارا کرلیں”There is a tide in the affairs of men,Which taken at the flood, leads on to fortune,Omitted, all the voyage of their life,Is bound in shallows and in miseries.”(William Shakespeare)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے