پاکستانی روہنگیا

’’روہنگیا کے مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے گئے ظلم پر نہ تڑپیں تو مسلمان کیا انسان کہلانے کے بھی مستحق نہیں ۔ وہ دل نہیں پتھر ہے کہ جو روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں کی فوٹیجز دیکھ کر درد محسوس نہ کرے ۔ ایمان اور انسانیت کا تقاضا ہے کہ جس کا جتنا بس چلے ، ان مظلوموں کو ظلم سے نجات دلانے کی کوشش کرے ۔ مجھے تو یوں بھی اس المیے کی شدت زیادہ محسوس ہورہی ہے کیونکہ کئی حوالوں سے روہنگیا کے مسلمانوں اور اپنے قبائلی علاقہ جات کے پختونوں کو درپیش المیوں میں بڑی مماثلت نظر آتی ہے ۔ مثلاً روہنگیا مسلمان برما کا حصہ ہوکر بھی بنیادی انسانی اور شہری حقوق سے محروم ہیں اور قبائلی پختون بھی 1947میں اپنی مرضی سے پاکستان میں شامل ہوجانے کے باوجود بنیادی انسانی اور شہری حقوق سے محروم ہیں ۔

روہنگیا کے مسلمان بھی مطالبہ کررہے ہیں کہ انہیں باقی برمیوں کی طرح برمی تسلیم کیا جائے اور قبائلی پختونوں کا مطالبہ بھی یہ ہے کہ انہیں باقی پاکستانیوں کی طرح پاکستانی بنا دیا جائے ۔روہنگیا کے مسلمانوں کے گھر بھی جلائے جارہے ہیں اور فاٹا کے لوگوں کے گھر بھی مسمار کئے جارہے ہیں۔ روہنگیا کے مسلمان بھی تین چار مرتبہ ہجرت پر مجبور کئے گئے اور فاٹا کے مسلمان بھی بار بار ہجرت پر مجبور ہوئے ۔ وہاں تین آپریشنز ہوئے جبکہ فاٹا میں درجنوں ملٹری آپریشنز ہوئے ۔ روہنگیا میں غیرملکی میڈیا نہیں جاسکتا اور فاٹا میں غیرملکی تو کیا ملکی میڈیا بھی بغیراجازت کے نہیں جاسکتا ۔تاہم بعض حوالوں سے فاٹا کے مسلمانوں کا المیہ روہنگیا کے مسئلے سےبھی زیادہ سنگین ہے ۔ مثلاً روہنگیا کے مسلمانوں کے ساتھ یہ ظلم غیرمسلم بدھسٹ کے ہاتھوں روا رکھا گیا ہے لیکن فاٹا کے لوگوں پر مظالم ڈھانے والے غیرنہیں اپنے ہیں ۔ روہنگیا کے مسلمانوں کے درمیان غربت، دکھ اور آزمائش یکساں بٹی ہوئی ہے لیکن قبائلی علاقوں میں جہاں غربت کی شرح سب سے زیادہ ہے وہاں بعض قبائلی پاکستان کے امیر ترین لوگوں کی صف میں شامل ہیں ۔ روہنگیا کے مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے تو بہ ہر حال ان کے لئے طیب اردوان نے بھی آواز اٹھائی ، اقوام متحدہ بھی حرکت میں آئی، عیسائیوں کے پوپ نے بھی ان کی حمایت میں بیان جاری کردیا اور او آئی سی کے اجلاس میں بھی ان کا تذکرہ ہوا لیکن قبائلی عوام اتنے بدقسمت ہیں کہ ستر سال سے بدترین ظلم کے شکار ہوکر بھی ان کے لئے کسی طرف سے آواز بلند نہیں ہوئی۔ روہنگیا کی حالت زار کے تذکر ے سے آج واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک ٹائمز بھی بھرے ہیں جبکہ بی بی سی یا الجزیرہ جیسے ادارے بھی پل پل کی خبر دے رہے ہیں لیکن قبائلیوں کے المیے کو بین الاقوامی میڈیا کوریج دے رہا ہے اور نہ پاکستانی میڈیا کو فرصت ہے ۔ اب میں حیران ہوں کہ مذکورہ تناظر میں پاکستان کا کوئی سیاسی لیڈر یا صحافی قبائلی علاقہ جات کے مسئلے کو حل کئے بغیرکسی اور قومی یا بین الاقوامی ایشو کوکیوں کر موضوع بحث بنا سکتا ہے ۔ مکرر عرض ہے کہ روہنگیا کے مسلمانوں کا دکھ محسوس کرنا تقاضائے ایمان ہے اور جس کو فرصت ہو یا اس کی استطاعت ہو تو اس کا فرض ہے کہ وہ ان کی مدد کرے لیکن کیا پاکستان کے اندر روہنگیا کی موجودگی سے صرف نظر کرکے دنیا بھر کے مسائل کو پاکستان لانا اور اپنے روہنگیا سے توجہ ہٹانا مناسب ہے ۔ اللہ کے نبیﷺ نے تمام مسلمانوں کو جسد واحد قرار دیا ہے لیکن یہ بھی تو اسی نبیﷺ کا فرمان ہے کہ تم سے پہلے اپنے گھر اور پھر اپنے پڑوسی کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ یوں میں حیران ہوں کہ پاکستان میں فاٹا کے مسئلے پر دھرنے کیوں نہیں دئیے جاتے ، ان کے لئے امدادی کیمپ کیوں نہیں لگائے جارہے ہیں اور ان کو ان کا بنیادی انسانی حق دلوانے کے لئے اداروں کے در کیوں نہیں کھٹکھٹائے جارہے ہیں ۔

میں حیران ہوں کہ بعض وہ لوگ جو آئین اور جمہوریت کے دعویدار ہیں ،بھی خیبرپختونخوا میں فاٹا کے انضمام کی مزاحمت کررہے ہیں ۔ میرے لئےا سٹیج پر بیٹھے سب لیڈر (اسٹیج پر مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی بھی بیٹھے تھے اور اسفندیار ولی خان خراج تحسین کے مستحق ہیں کہ انہوںنے فاٹا سے متعلق اے پی سی میں اصلاحات کے ان دو مزاحمت کاروں کو بھی شرکت پر آمادہ کیا)محترم ہیں ۔ وہ ہر لحاظ سے مجھ سے برتر ہیں اور اس لئے بھی برتر ہیں کہ میں ایک مزدور صحافی ہوں جبکہ وہ قوم کے نمائندے ہیں ۔ یوں میری بات کو کبھی وہ وقعت اور اہمیت نہیں مل سکتی جو ان کی بات کو ملتی ہے ۔ تاہم اس کلئے کی رو سے حاجی شاہ جی گل آفریدی اور ان کے ساتھی فاٹا کے عوام کے منتخب نمائندے ہیں ۔ پھر جب وہ خیبر پختونخوا میں انضمام کے حق میں رائے دے چکے ہیں (بالکل ابتدا میں فاٹا کے انیس پارلیمنٹرین نے جو قرارداد جمع کی تھی اس میں پہلا آپشن انضمام کا تجویز کیا گیا تھا) تو کسی اور کو رکاوٹ ڈالنے کا کیا حق پہنچتا ہے ۔ جس بنیاد پر یہ سیاسی لیڈر مجھ سے اپنا احترام چاہتے ہیں ، اس بنیاد پر فاٹا کے ممبران کی رائے کا احترام کیوں نہیں کرتے ۔

یوں تو کسی معاملے پر سو فی صد لوگ متفق نہیں ہوسکتے۔ اکثریت کی بنیاد پر خاقان عباسی پاکستان اور پرویز خٹک پختونخوا کے حاکم ہیں ۔ جب فاٹا کے عوام کی اکثریت انضمام چاہتی ہے ۔ جب اس حکومت جس کے مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی بھی حصہ ہیں ،کی بنائی ہوئی کمیٹی نے مشاورت کے بعد انضمام کے حق میں رائے دے دی ، جب ان سفارشات کی وفاقی کابینہ نے بھی منظوری دی ، جب تمام بڑی جماعتیں یعنی مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی، اے این پی ، اور سول سوسائٹی سب انضمام کے حق میں ہیں تو پھر دو بندوں کی وجہ سے لاکھوں قبائلیوں کو غلامی کی زنجیروں میں کیوں جکڑا جارہا ہے ۔

اب مولانا فضل الرحمان صاحب اور اچکزئی صاحب افغانستان کی حساسیت کی آڑ لے رہے ہیں لیکن کیا وہ فخر افغان باچا خان کے پوتے اسفندیار ولی خان کے مقابلے میںافغانستان کی حساسیت کو زیادہ سمجھتے ہیں ۔ میرا اور حاجی شاہ جی گل کے قبیلے پاکستان اور افغانستان میں تقسیم ہیں ۔ افغانستان کی حساسیت سے ہم کیوں صرف نظر کرسکتے ہیں ۔ مولانا صاحب کا نہیں بلکہ سراج الحق صاحب کا گھر افغانستان کی سرحد سے متصل واقع ہے ۔ افغانستان کی حساسیت کامسئلہ ہوتا تو پھر وہ فاٹا کے پختونخوا کے ساتھ انضمام کے حق میں کیوں رائے دیتے ۔ بہ ہر حال یہ حقیقت جان چکے ہیں کہ اصل مسئلہ رقم کا ہے ۔ مسلم لیگ(ن) کی قیادت ڈویزیبل پول سے تین فی صد جوسالانہ سو ارب کے قریب بنتے ہیں، سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارش کی رو سے فاٹا کے انضمام کے لئے مختص کرنے کو تیار نہیں ۔

اس لئے اس مقصد کے لئے این ایف سی کا اجلاس نہیں بلایاجارہا ہے ۔ چنانچہ وہ تاخیری حربے استعمال کررہی ہے اور اس معاملے میں میرے یہ دو محترم لیڈران کرام (اچکزئی صاحب اور مولانا صاحب) ایک مہرے کے طور پر استعمال ہورہے ہیں ۔ حکومت نے پہلے جھوٹ بولا کہ فوج مزاحمت کررہی ہے لیکن پھر جب ڈی جی آئی ایس پی آر نے پوزیشن واضح کردی تو حکومت کے پاس کوئی چارہ نہیں رہا۔ حکومت کے پھیلائے ہوئے غلط تاثر کودور کرنے کے لئے خود آرمی چیف جنرل قمرجاویدباجوہ نے وزیراعظم ہائوس میں اس سلسلے میں منعقدہ میٹنگ میں اصلاحات کا عمل تیز کرنے کی سفارش کردی تو اب حکومت ایک اور دھوکے پر اتر آئی ۔

گزشتہ روز وفاقی کابینہ نے جن سفارشات کی منظوری دے دی ، وہ نہ انضمام ہے اور نہ مین اسٹریمنگ۔ دھوکہ ہے اور بس دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ حکومت کی مجوزہ قانون سازی سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات کے برعکس ہے ۔ اپیل کے حق کے لئے پشاور ہائی کورٹ کی بجائے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ذکر سے واضح ہے کہ حکومت بدستور قبائلی علاقوں کو مرکز کا غلام رکھنا چاہتی ہے لیکن قوم اور فوج کو یہ دھوکہ دیا جارہا ہے کہ جیسے فاٹا اصلاحات پر عمل ہورہا ہے ۔ میں اسٹیج پر بیٹھے تمام سیاسی رہنمائوں سے دست بستہ التجا کرتا ہوں کہ اللہ کے واسطے اپنے سیاسی اور ذاتی مقاصد کی خاطر قبائلی عوام کی زندگیوں اور عزتوں سے مزید نہ کھیلیں ۔ سیاست کے لئے اور ایشوز بہت ہیں ۔ وقت ہمارے ہاتھ سے نکل رہا ہے ۔ صرف چند ماہ رہ گئے ۔ انتخابات کے بعد نئی حکومت آئے گی تو قصہ دوبارہ سرے سے شروع ہوگا۔ اس لئے اللہ کے واسطے اورپاکستان کی خاطر آپ سب مل کر جلد از جلد فاٹا کے پختونخوا میں ادغام کے لئے قدم اٹھائیں۔ شکریہ‘‘
(فاٹا سے متعلق عوامی نیشنل پارٹی کے اسلا م آباد میں منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس سے راقم کے خطاب کا خلاصہ۔ تقریر چونکہ لکھی ہوئی نہیں بلکہ زبانی تھی، اس لئے بعض الفاظ کی کمی بیشی کا امکان ہے)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے