چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی کی جانب سے پارلیمنٹ ، عدلیہ اور فوج کے درمیان وسیع البنیاد مکالمے کی تجویز کو سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور شہباز شریف کی جانب سے متعدد بار دوہرائے جانے کے باوجود ادارہ جاتی سطح پر حسب توقع کوئی پذیرائی نہیں ملی۔ شائد بعض حلقوں کا خیال ہو کے آئین پاکستان میں تمام اداروں کی حدود اور اختیارات متعین ہیں اور آئین کی موجودگی میں کسی مکالمے یا مذاکرے کی کیا جوازیت ہے ۔ تاہم قابل فکر امر یہ ہے کہ کیا تمام تر قومی ادارے بشمول پارلیمنٹ، حکومت ،عدلیہ ، عساکر اور صحافت اپنے اپنے دائرہ کار کے اندر رہ کر کام کر رہے ہیں یا پھرایک دوسرے کی حدود متعین کرنے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ قومی اور سیاسی اداروں کے رویے سے بظاہر یہ عیاں ہوتا ہے کہ وہ ذہنی طور پر مکالمے کے لئے تیار ہیں اور نہ ہی ایک وسیع تر قومی مکالمے کے لیے درکارساز گار ماحول فی الوقت میسر ہے۔
اداروں کے درمیان اختیارات کی کھینچا تانی تو ہمیشہ سے جاری رہی ہے مگر یہ کھینچا تانی بسا اوقات محاذ آرائی کی حد تک چلی جاتی ہے ۔ مشرف دور سے چلی آ رہی تناو کی کیفیت کو پیپلز پارٹی کے دور میں کم کیا جا سکا اور نہ ہی مسلم لیگ(ن) نے اس طرح کی کوئی سنجیدہ کوشش کی۔ نتیجتاً دونوں سیاسی جماعتیں اب تک ایک ایک منتخب وزیر اعظم عدالتی فیصلوں کی بھینٹ چڑھا چکی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے پارلیمنٹ کے اندر واضح عددی اکثریت نہ ہونے کے باعث کسی بھی ادارےسے براہ راست ٹکراو پیدا کرنے کے بجائے منتخب وزیر اعظم قربان کر کے اپنی حکومت کو برقرار رکھا تاہم مسلم لیگ (ن) بھاری عوامی مینڈیٹ کے زعم میں پارلیمنٹ سمیت تمام قومی اداروں کو خاطر میں نہ لانے کے باعث اب تک ایک وزیر اعظم کو گھر بھجوا چکی ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اب تک صرف ایک سیاسی حکومت اپنا آئینی دورانیہ پورا کرنے میں کامیاب ہوئی تاہم ان ستر سالوں میں ایک بھی منتخب وزیر اعظم پانچ سال کا اپنا آئینی دورانیہ پورا نہیں کر پایا۔ فوج کو جب جب موقع ملا اس نے سیاسی معاملات میں مداخلت کی اور اقتدار پر قبضہ کیا۔ عدلیہ ماضی میں بھٹو کو سزائے موت دینے کے فیصلے سمیت متعدد فیصلوں کے غلط ہونے کا اعتراف کر چکی ہے۔ ملکی پالیسیوں خصوصاً خارجہ پالیسی میں عدم تسلسل کے باعث ملک نہ صرف اندرونی طور پر عدم استحکام کا شکار رہا بلکہ بیرونی دنیا کے ساتھ روابط اور تعلقات بتدریج مدو جذر کا شکار رہے۔ شفافیت اور جوابدہی کے عمل کی عدم موجودگی میں اداروں نے کھل کر ایک دوسرے کی حدود میں مداخلت کی اور اپنی متعین آئینی حدود اورقانونی اختیارات سے تجاوز کیا ۔
اس صورتحال کے پس منظر میں کار فرما سب سے اہم مسئلہ ریاست کے اندر سماجی ، سیاسی و ادارہ جاتی مکالمہ کی عدم موجودگی ہے ۔ کہیں قومی سلامتی کے تلوارسروں پر لٹکتی رہی تو کہیں اداروں کا تقدس آڑے آتا رہا۔ کبھی بولنے والوں کی زبانوں پر تالے رہے اور کبھی سننے والوں کے کانوں پر مہریں ثبت رہیں۔ اس عمل کے دوران سیاسی و سماجی اقدار تو کمزور ہوتی رہیں مگر چند اداروں نے اپنی طاقت اور اپنی انا کو اس حد تک مظبوط اور مستحکم کر لیا کے کہ انہوں نے اپنے آپ کو پاکستان کا بلا شراکت غیرے مالک و مختار تصور کر لیا۔ اب اس مرحلے پر مکالمہ کی تجویز انہیں شائد “جوابی احتساب ” کا مطالبہ یا حاصل اختیارات سے دستبرداری کے مترادف لگتی ہے۔
تمام اداروں کو بخوبی ادراک ہے کہ اگرحقیقی بنیادوں پر قومی مکالمہ شروع ہو گا تو اس میں وہ تمام موضوعات بھی زیر بحث آئیں گے جو اب تک قومی سلامتی کی آڑ میں چھپے رہے ۔ مکالمہ اگر قومی نوعیت کا ہو گا تو قیام پاکستان سے لیکر اب تک کے اہم سیاسی،سفارتی، دفاعی اور عدالتی فیصلے اور کامیابیاںو ناکامیاں زیر بحث آئیں گی۔ عین ممکن ہے کئی گڑے مردے اکھڑیں تو ان کے تعفن سے مزید بیماریاں پیدا ہوں۔
کل کو اگر کوئی یہ سوال کر بیٹھے کے قائد اعظم کو خراب ایمبولینس میں کس نے سوار کروایا، لیاقت علی خان کے قاتل کو گرفتار کرنا ممکن تھا تو گولی کیوں ماری گئی یا پھر محترمہ بینظیر بھٹو کی جائے شہادت کوپانی سے دھونے کا فیصلہ کسی پولیس آفیسر کا ذاتی تھا یا پھر احکامات اوپر سے آئے تھے۔ ریمنڈ ڈیوس کی عدالت میں آخری پیش کے دن جنرل پاشا کس کس کو ایس ایم ایس کرتے رہے۔ اوجڑی کیمپ سانحہ ، حمود الرحما ن کمیشن، بھٹو کی پھانسی، افغان جہاد، کشمیر پالیسی میں اتار چڑھاو، دفاعی اخراجات کا حساب کتاب، دہشت گردی کے خلاف جنگ ، ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ ، اے پی ایس حملہ ،نیشنل ایکشن پلان اور اس طرح کے سینکڑوں دیگر موضوعات جن پر بات کرنے کی اجازت دینا شائد اداروں کے مفادات کے خلاف ہو تاہم ان موضوعات کو زیر بحث لائے بغیر ہونے والا کوئی بھی مکالمہ جنرل (ر) مشرف کے این آر او سے زرہ برابر مختلف نہیں ہو گا۔
رضا ربانی کی تجویز کو پذیرائی نہ دینے والوں کے پیش نظر رہنا چاہیے کہ مکالمہ معاشرے میں زندگی کی علامت ہے ۔ انسانی جبلت کا تقاضا ہے کہ وہ دوسروں کی بات سننے سے زیادہ اپنی بات کہنے کا خواہشمند ہوتا ہے ۔ اس لئے دوسروں کی بات سننے کے حوصلے کے ساتھ ساتھ لوگوں اور اداروں کو اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کی اجازت اور مواقع میسر ہونے چاہیں۔ یہی سماجی مکالمہ معاشرے کی گھٹن کو کم کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے ورنہ جس معاشرے میں اظہار پر پا بندی ہو وہاں گھٹن جنم لیتی ہے۔ معاشرہ عدم تحفظ اور عدم رواداری کا شکار ہوتا ہے۔ شہریوں کی شناخت یا تو چھن جاتی ہے یا پھروہ از خود ترک کر دیتے ہیں ۔ معاشرتی مساوات اوربرداشت ختم ہو جاتی ہے،انسانیت وحشت کی گہرائیوں میں کہیں دب کر رہ جاتی ہے اور یہ صورت حال بتدریج سیاسی و سماجی شکست و ریخت کا موجب بنتی ہے ۔
جن معاشروں میں زبانوں پر تالے لگ جائیں وہاں طبقات اور اداروں کے درمیان ٹکراو پیدا ہوتا ہے ، انسانی خون ارزاں ہو جاتا ہے، مُحبت نا پید ہو جاتی ہے اور لالچ، ہوس، حرص ، خود غرضی اور بے حسّی کا راج ہو جاتا ہے۔ روح جسم کے اندر ہی کہیں مر جاتی ہے ۔ گلیوں اور بازاروں میں انسانوں کے بجائے زندہ لاشیں چلتی پھرتی نظر آتی ہیں۔ ہمارا معاشرہ آج کل لگ بھگ یہی منظر پیش کرتا ہے۔ قوم کے اسی المیہ کو سالوں پہلے ایک درویش نے یوں بیان کیا تھا کہ؛
ایک ہی حادثہ تو ہے، اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی۔ بات نہیں سُنی گئی
(جون ایلیا )