مختصر وقت میں مختصر کالم

اس وقت دوپہر کے دوبجے ہیں اور مجھے یاد ہی نہیں تھا کہ آج میرے کالم کا دن ہے یہ تو میرے ڈرائیور کی مہربانی ہے جو مجھ سے زیادہ میرے کالم کی باقاعدگی کا دھیان رکھتا ہے چنانچہ صورتحال یہ ہے کہ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ،کیونکہ ’’جنگ‘‘ والوں نے کالم نگاروں کیلئے ایک وقت مقرر کیا ہواہے جس کے دوران کالم انکے ہاتھوں میں پہنچ جانا چاہئے۔ویسے بھی اس وقت لاہور کے حلقہ این اے 120میں الیکشن کی گہما گہمی ہے میں دفتر تک پہنچتے پہنچتے اس کے بہت دلچسپ نظارے دیکھ رہا ہوں، بلکہ صبح ناشتے کے دوران جب میں نے ٹی وی آن کیا ہوا تھا اس میں ایک سفید ریش لاہوریئے کا انٹرویو دکھایا جا رہا تھا۔رپورٹر اس سے پوچھتا تھا آپ ووٹ ڈال آئے اس نے کہا نہیں ابھی تو وہ ناشتے کا سامان لینے گھر سے نکلا ہے، پائے خریدنے ہیں ،کلچے لگ رہے ہیں اس کے بعد لسی اور حلوہ پوری بھی خریدنی ہے ۔
انٹرویو دینے والے نے بتایا کہ اس کا بھتیجا کراچی سے خاص طور پر شیر کو ووٹ ڈالنے آیا ہے بس ناشتے سے فارغ ہو کر ووٹ ڈالنے جائیں گے اس مکالمے کا سب سے دلچسپ حصہ وہ تھا جس میں رپورٹر نے پوچھا کہ جناب ووٹ اور ناشتے میں ضروری چیز کون سی ہے اس کا برجستہ جواب تھا دونوں بہت ضروری ہیں ۔
’’میچ‘‘ کا جو نتیجہ ہے وہ تو سب تجزیہ نگار اس پر متفق نظر آئے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) جیتے گی ۔’’اختلاف‘‘ صرف اس بات پر ہے کہ تھوڑے بہت فرق سے یا بہت زیادہ فرق سے …میرا ذاتی خیال یا چلیںاختلاف کرنے والے اسے میری خواہش قرار دے ڈالیں لیکن جو ’’پھڈا‘‘ پڑ سکتا ہے وہ 29ہزار ووٹوں کا ہے یہ ایک رپورٹ کی اطلاع ہے ۔ملی مسلم لیگ کے نام سے ایک پارٹی راتوں رات بنائی گئی ہے اسکے امیدوار نے جگہ جگہ حافظ سعید صاحب کی تصویریں لگائی ہیں اور کمال مہربانی سے حافظ صاحب کے ساتھ قائداعظم کی تصویر بھی نظر آتی ہے۔ملی مسلم لیگ کے ’’جان نثار ‘‘ کارکن تقریباً 29ہزار ہیں اس پارٹی کے امیدوار کھڑے تو آزاد ہوئے ہیں لیکن تصویریں حافظ سعید کی لگائی ہوئی ہیں اب ’’فیصلہ کرنے والوں‘‘ نے فیصلہ کرنا ہے کہ یہ 29ہزار ووٹ یاسمین راشد کو ڈلوانے ہیں کہ نہیں ؟تاہم اگر یہ خبر صحیح ہے اور ایسا ہوتا ہے تو مجھے یقین کامل ہے کہ ا لیکشن کمیشن اس امیدوار کو نااہل قرار دے دیگاجو بظاہر آزاد کھڑا ہے لیکن ملی مسلم لیگ اس کی پشت پر ہے ۔
سو قارئین کرام جو مرضی ہو جائے جیت بہرحال مسلم لیگ کی ہے لاہور سے عمران خان حسب معمول سپریم کورٹ کی کشتی میں ’’وٹے‘‘ ڈالنے والا یہ بیان بھی دے چکے ہیں کہ یہ الیکشن اس بات کی ضمانت ہے کہ لوگ سپریم کورٹ کے فیصلوں کے حق میں ہیں یا وہ مسلم لیگ کو ووٹ دے کر اس کے فیصلے کو رد کرتے ہیں۔اب یہ سپریم کورٹ کا کام ہو گا کہ عوام کی طرف سے اس کے فیصلے کو رد کرنے پر اس کا ردعمل کیا ہوتا ہے ؟
کیا خیال ہے اتنے کم وقت میں اتنی باتیں کافی نہیں ہیں میں اس لسی میں جتنا پانی ڈالنا چاہوں ڈال سکتا ہوں مگر اس کا فائدہ کوئی نہیں، نہ آپ کو پانی کا مزا آئے گا اور نہ لسی کا۔میرے ’’جنگ‘‘ کے دوست بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے میرے کالم کے انتظار میں ہوں گے تاکہ کالم ختم کرکے ووٹ ڈالنے جائیں مجھے ان کے قیمتی ووٹ کا بھی خیال ہے چنانچہ اگر میں باقی باتیں آپ سے کل کروںتو آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے