لفافہ بھائی !!

ان کا اصل نام تو الف دین ہے مگر بچپن ہی سے ان کے کارناموں کو دیکھتے ہوئے لوگوں نے ’’لفافہ‘‘ کا نام ڈال دیا، معاشرے میں پہچانے جانے لگے تو لفافہ بھائی کے نام سے مشہور ہو گئے۔ اب تو خود بھی انہیں اپنا اصل نام اور اصلیت شاید ہی یاد ہو۔وہ جہاں سے گزرتے ہیں بے تکلف دوست زور سے لفافہ بھائی کی آوازیں لگاتے ہیں جبکہ حاسدین ایک دوسرے کے کانوں میں انکے کارناموں کا ذکر کرتے ہیں مگروہ داد وتحسین اور تنقید سے بے پروا ہو کر سب کو ہاتھ ہلاتے چھلاوے کی طرح گزر جاتے ہیں۔
موصوف موقع پرستی، مصلحت پسندی اور عیاری جیسے اعلیٰ اوصاف کا مرقع ہیں، ہر نئی حکومت کی آمد پر اس کے پرجوش حمایتی ہوتے ہیں، کوشش کرتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی عہدہ مل جائے۔ اکثر کامیاب بھی ہو جاتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ مکمل طور پر اس حکومت کے حامی ہو جاتے ہیں، موقع بہ موقع جب کوئی حکومتی کارندہ موجود نہ ہو تو وہ اپوزیشن کے حق میں گفتگو کرتے ہیں، اپوزیشن لیڈر شہر میں آئے تو ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے ساتھ والی کرسی پر قبضہ کرکے تصویر بنوالیں تاکہ حکومت اور اپوزیشن دونوں حلقوں میں ان کی قدر بڑھے۔ موصوف کو حالات پڑھنے کا ملکہ حاصل ہے ہر حکومت کے جانے سے پہلے اس کی پرزور مذمت شروع کر دیتے ہیں، وہ ہر محفل میں گن گن کر حکومت کی خامیاں بتاتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ میں آپ کو اندر والی بات بتا رہا ہوں، یوں ہر کوئی ان کی بات توجہ سے سنتا ہے۔ موصوف کو سچ اور جھوٹ، حقیقت و افسانہ اور حقیقت و الزام کو ملانے کا بے پناہ تجربہ ہے جس کا اظہار وہ آئے روز کرتے ہیں۔ کردار کشی میں ان کا کوئی ثانی نہیں،ایک فن کار مجسمہ ساز جس طرح اپنے شاہکار کو تخلیق کرتا ہے بالکل اسی انداز میں موصوف اپنے ہدف کے کردار کو سرعام زیر بحث لاکر اسے بدنام کرتے ہیں۔
لفافہ بھائی کسی سے ڈرتے ورتے نہیں سب کو لتاڑتے ہیں۔ لوگ ان سے خوفزدہ رہتے ہیں کہ کہیں بھری محفل میں بدتمیزی پر نہ اتر آئیں وہ جہاں جاتے ہیں مجمع لگ جاتا ہے ہر کوئی لفافہ بھائی کے پاس کھڑا رہنا پسند کرتا ہے کہ مبادا وہ دور جائے تو لفافہ بھائی اسی کے خلاف محاذ کھول دیں۔ اپنے پرائے سب لفافہ بھائی سے ڈرتے ہیں اور اسی خوف کی وجہ سے ظاہراً ان کا احترام بھی کرتے ہیں، لفافہ بھائی سازشوں کے بادشاہ ہیں ہر کسی سے حسد کرتے ہیں ان کو مل کر ولیم شیکسپیئر کے ڈرامہ اوتھیلو کے کرداروں کا حسد یاد آ جاتا ہے وہ لیگو کی طرح ہر وقت کسی نہ کسی اوتھیلو کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہیں،مخبری میں تو کوئی ان کا ثانی نہیں، ڈبل گیم ان سے اچھی کوئی نہیں کھیلتا اداروں اورایجنسیوںکو مخبریاں کرتے ہیںاورآکر جمہوریت کے حق میں تقریریں کرتے ہیں جس طرح لیگو نے اوتھیلو کی شادی کا راز فاش کرکے اوتھیلو کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تھی یہ بھی ہر کسی کی شکایت لگاتے ہیں بات کا بتنگڑ بنانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔
لفافہ بھائی ضمیر کے قیدی نہیں مفادات کے قیدی ہیں۔ وہ خود کو محب وطن اور ہر مخالف کو غدار قرار دیتے ہیں۔ پہلے نواز شریف کے حامی تھے مگر اس کے جانے کے بعد ہر محفل میں ان کی غلطیاں گنواتے ہیں، کسی حکومت کے باضابطہ مشیر ہوتے ہیں اور کسی کے خفیہ صلاح کار وہ کہتے ہیں میں خاکی رنگ کا لفافہ نہیں ہوں میرے اندر جو بھی رنگ ڈالو میں اسی میں رنگا جاتا ہوں۔حکومتی مراعات اور پروٹوکول لینے کا ا نہیں شوق ہے، سب پر تنقید کرتے ہیں کہ وہ راشی، چور، غدار اور لفافہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کا نام لفافہ بھی اس لئے پڑا کہ وہ ہر ایماندار کو لفافہ کہہ کر اس کا مذاق اڑاتے تھے۔ دن میں اتنی بار لفافہ کا لفظ منہ سے نکالتے تھے کہ لوگوں نے ا نہیں لفافے پیش کرنے شروع کر دئیے اور پیار سے ان کا نام بھی لفافہ بھائی ڈال دیا۔وہ کمال کے آدمی ہیں، شیشے کے گھر میں رہتے ہیں مگر کوئی انہیں پتھر نہیںمار سکتا۔کل رات ان کے محبوب صاحبزادے نے پوچھا اباّ آپ کی کامیابی کا راز کیا ہے تو انہوں نے رازدارانہ انداز میں کہا سب سے طاقتور سے دوستی اور باقی سب کو آگے لگا کر رکھنا۔
صاحبزادہ سمجھ نہ سکا تو کہاسب سے طاقتور لوگوں سے لفافہ بھی لیں اور حمایت بھی جبکہ حکومتوں سے عہدے لیں مگر جب مشکل وقت آئے تو انہیں چھوڑ دیں، طاقتور ادارے کا ساتھ ضروری ہے ورنہ ملک دشمن بھی کہلائیں گے اور لفافے کی گالی بھی کھانی پڑے گی۔ طاقتور ادارے کی مرضی سے چلیں گے تو محب وطن بھی کہلائیں گے اور ایماندار بھی۔
لفافے میاں لیوٹالسٹائی کے سخت خلاف ہیں لیوٹالسٹائی کا یہ مقولہ’’اگر اکثریت غلط کوصحیح کہے تب بھی غلط صحیح نہیں ہوسکتا‘‘ انہیں سخت ناپسند ہے وہ کہتے ہیں کہ جب اکثریت غلط کو صحیح مان لے تو وہ صحیح ہی ہوتا ہے سچ بولنے پہ آئے تو ایک بار یہ تک کہہ دیا میرے بال بچے ہیں میں گولیوں اور گالیوں کی باڑھ کا سامنا کیوں کروں؟ لفافے میاں کا مشہور مقولہ ہے کہ’’سیاستدانوں کو گالی دو برا بھلا کہو انہی سے لفافہ بھی لو تبھی یہ ٹھیک رہتے ہیں ہاں ریاست کے اصلی حکمرانوں سے بنا کر رکھو‘‘۔
لفافے میاں کی تہہ در تہہ شخصیت کا ایک دلربا پہلو غریبوںسے ان کی محبت ہے، اس کی وجہ شاید بچپن میں ان کی اپنی غربت ہے یا وہ پھر واقعی اندر سے سوشلسٹ ہیں اور ان کے اندر جلنے والا انقلاب کا شعلہ جوالہ مصلحتوں کی نذر ہو کر اس محبت تک محدود ہوگیا ہے۔
لفافہ بھائی کا کوئی نظریہ نہیں مگر اپنے ہر مخالف کو نظریاتی مخالف قرار دیتے ہیں جس سے حسد کریں اس پر لفافہ لینے کا الزام عائد کردیتے ہیںجس پر مہربان ہوں اسے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ عطا فرمادیتے ہیں۔ ہر آنے والی حکومت کے بارے میں دعویٰ کرتے ہیں کہ اسے میں لایا ہوں یہ میرے ہی مشوروں کی وجہ سے اقتدار میں آئی ہے اور ہر جانے والی حکومت کے بارے کہتے ہیں کہ اسے میں نے نکلوایا ہے۔ لفافہ بھائی جھوٹوں کے بادشاہ ہیں جھوٹ گھڑنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں، تاریخ کے جھوٹے واقعات، مرے ہوئے لوگوں سے جعلی مکالمات اور ہر ا ہم واقعہ میں اپنی موجودگی ڈالنا ان پر ختم ہے۔ ایسے واقعات میں بار بار اپنے کردار کا ذکر کرکے وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ یہ میں ہی ہوں جو یہ سب کرواتا ہوں، موصوف کی میں معصومیت اس قدر ہے کہ اپنے ہی بتائے ہوئے جھوٹ پر وہ خود ہی یقین کرنا شروع کردیتے ہیں اور کچھ عرصہ بعد اپنے ہی جھوٹ کو ایمان کی حد تک سچا سمجھنا شروع کردیتے ہیں۔لفافہ بھائی کی نس نس میں خود غرضی اور نفرت کے وہ جذبے بھرے ہیں جن کی وجہ سے دن بہ دن انہیں ترقی ملتی رہی ہے، موصوف کو کسی انجان سے نہ نفرت ہے اور نہ حسد، ان کے سارے شکار ان کے دوست احباب ا ور جاننے والے بھی ہوتے ہیں، آج کل وہ آنے والے دنوں میں بننے والی نگران حکومت کی کہانیاں سنارہے ہیں اور ساتھ ہی یہ توقع بھی لگائے بیٹھے ہیں کہ نگران حکومت میں وہ خود بھی شامل ہوں گے۔
لفافہ بھائی آج کل اداروں کے دفاع اور تحفظ میں پیش پیش ہیں کوئی ان اداروں کے حق میں اشارہ بھی کرے تو طیش میں آجاتے ہیں اور یوں ظاہر کرتے ہیں کہ ان حساس اداروں پر نہ کسی اور کو تعریف کا حق ہے اور نہ ہی تنقید کا صرف موصوف ہی کو یہ اختیار ہے کہ اس موضوع پر بات کر سکیں۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے لفافہ بھائی زندگی میں آگے سے آگے ہی بڑھتے جارہے ہیں اور ایک وقت آئے گا کہ زمام اقتدار بھی ان کے ہاتھ ہوگی (نوٹ:کسی بھی سیاستدان، اینکر یا دانشور سے مشابہت اتفاقی ہوگی)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے