کروں کس طرح سے ستم بیاں

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کی مندوب ملیحہ لودھی نے بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو مدلل و ترکی بہ ترکی جواب تو دے دیا، مگر کشمیر کے بجائے ایک فلسطینی بچی کی تصویر دکھا کر دودھ میں مینگنیاں ڈالنے کا کام کرکے نہ صرف جگ ہنسائی کا سامان فراہم کیا، بلکہ بھارت کو پروپیگنڈہ کا ایک ہتھیار بھی بخش دیا۔

میں سمجھتا ہوں کہ کشمیر میں ظلم و ستم کی خونچکاں داستان اتنی طویل اور حقیقت پر مبنی ہے کہ اس میں مبالغہ آمیزی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مگر ہماری غیر سنجیدہ اپروچ نے اکثر و بیشتر ان واقعات پر یا تو دبیز تہہ جمائی ہے یا پھر جب انکی سفارتی اور اطلاعاتی تشہیر کرنے کا موڑآتا ہے تو مبالغہ آمیزی سے کام لیکر اپنا کیس خراب کردیتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ میں 90کی دہائی میں ایک بار ضلع کپواڑہ کے رامحال علاقہ کے ایک دوردراز گاوں تارت پورہ گیا ہوا تھا۔ د و تین دن قیام کے بعد جب ہندواڑہ کے راستے واپس سوپور آرہا تھا تو ہندواڑہ بس اڈہ پر سوپور کے ایک تاجر نے بتایا کہ میرے اہل خانہ سخت پریشان ہیں کیونکہ کل رات پاکستان ٹی وی کے نیوز بلیٹن میں بتایا گیاکہ کپواڑہ کے اس گاوں میں بھارتی فوج نے آپریشن کرکے مکان وغیرہ تباہ کرکے کئی افراد کو ہلاک کیا ہے۔

جب میں سوپور پہنچا تو دیکھا کہ بس اڈہ پر میرے والد کپواڑہ سے آنے والی ہر گاڑی کے مسافروں سے اس آپریشن سے متعلق اور ہلاک شدہ افراد کی شناخت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ جبکہ اس علاقے میں اس طرح کی کوئی واردات پیش نہیں آئی تھی۔

کشمیر سے خبروں کی فراہمی کیلئے پی ٹی وی نے ایک مقتدر صحافی جو خیر سے ایک مصنف بھی ہیں، کو متعین کیاہوا تھا۔ یہ حضرت رات کے خبر نامہ میں فوٹو اور آواز کے ساتھ حاضر ہوکر دن بھی کی روداد سناتے تھے۔ مگر یہ صحافی صاحب سرینگر کے بجائے دہلی میں مقیم تھے ۔ صحافتی بددیانتی کی انتہا یہ تھی کہ صوتی لہروں پر دہلی کے بجائے سرینگر ڈیٹ لائن سے دستخط کرکے اپنی رپورٹ کا اختتام کرتے تھے۔چونکہ ان دنوں انٹرنیٹ اور موبائیل فون تو دور کی بات، لینڈ لائن پر بھی کال ملنا محال ہوتا تھا، ان حضرت کی کشمیر رپورٹنگ کسی خواب یا انکے اپنے تخیل کی مرہون منت ہوتی تھی۔ ایک دن تو حد ہوگئی۔

کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر عالمی توجہ مبذول کرنے کی غرض سے حریت کانفرنس نے متاثرین کو دہلی لاکر اقوام متحدہ کے دفتر تک مارچ اور دھرنا کا پروگرام بنایا۔ مقررہ دن بستی حضرت نظام الدین سے حریت لیڈران نے تقریباً 200متاثرین کے گروپ اور بھارت میں سرگرم حقوق انسانی کے کارکنان سمیت سلطان سکندر لودھی کی آرام گاہ سے متصل لودھی روڈ پر اقوام متحدہ کے دفتر تک مارچ کیا۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنما محمد یاسین ملک تو وہاں دن بھر بھوک ہڑتال پر بیٹھ گئے۔ پورا پروگرام خوش اسلوبی کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا۔ دہلی پولیس نے سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے تھے، مگر پروگرام میں کوئی رخنہ نہیں ڈالا۔ ستم ظریفی کہ پی ٹی وی کا نامہ نگار جو بالعموم دہلی سے کشمیر کی رپورٹنگ کرتا تھا، اس دن سرینگر گیا ہوا تھا۔

رات کے خبر نامہ میں اینکر نے اس مارچ اور دھرنا کی خبر سناکر نوید دی کہ اب ان کے نامہ نگار دہلی براہ راست اسکی تفصیلات سنائیں گے۔ یرقان زدہ صحافت کی حد کہ نامہ نگار نے یہ رپورٹ دہلی کے بجائے سرینگر سے فائل کی اور سکرین پر تصویر نمودار ہوتے ہی تفصیلات دیتے ہوئے بتایاکہ کس طرح دہلی پولیس نے حریت لیڈروں اور متاثرین کو بری طرح زد و کوب کیا اور پانی کی دھاریں اور آنسو گیس کے گولے داغے، جو سراسر جھوٹ کا پلند ہ تھا۔ بعد میں ایک بار ہمت جٹاتے ہوئے میں نے ان سے پوچھا کہ آنسو گیس کے گولے اور پانی کی دھاریں مجھے اور ایک اور مقتدر کشمیری صحافی یوسف جمیل کو نظرکیوں نہیں آئیں ؟ ہم دونوں نظام الدین سے اقوام متحدہ کے دفتر تک پورا راستہ جلوس کے ہمراہ تھے اور دن بھر دھرنا کے اختتام تک وہیں بیٹھے تھے۔پہلے تو وہ بغلیں جھانکتے رہے، پھر گویا ہوئے کہ بھارت کو نشانہ بنانے کا اس سے اچھا موقع کہاں حاصل ہوسکتا تھا؟ بعد میں انہوں نے کہا کہ میر واعظ عمر فاروق کے ایک دست راست مرحوم غلام محمد بٹ نے فون پر انکو یہ معلومات دی تھیں۔ میں نے کہا کہ صحافتی اصولوں کے مطابق انکو تصدیق کرنی چاہئے تھی۔ ’’یہ صحافتی اور سفارتی پیچیدگیا ں ابھی تم بچوں کی سمجھ سے باہر ہیں‘‘، یہ کہہ کر انہوں نے لگام لگائی۔ مگر ان حضرت نے اپنی صحافت کے ساتھ ساتھ پورے پی ٹی وی کی ساکھ کو وہ زک پہنچائی، شاید ہی کبھی پاکستان کا سرکاری میڈیا اس سے ابھر پائے گا۔

خیر اس تفصیل کا مقصد تھا کہ ملیحہ لودھی کی تقریر سے محض چند روز قبل ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پلٹ گن کے متاثرین پر ایک مفصل اور مدلل رپورٹ جاری کی تھی۔ تقریباً120صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں 88کیسوں پر تصویروں کے ساتھ مفصل روشنی ڈالی گئی ہے اور بتایا گیا کہ زخمی افراد شدید جسمانی اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہوگئے ہیں۔ پچھلے سال پلٹ گن کے چند متاثرین کو دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز لایا گیا تو کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی اور پارٹی کی ریاستی یونٹ کے سربراہ غلام احمد میر ان کو دیکھنے گئے۔ میں بھی اسوقت وہاں موجود تھا۔ ان زخمی افراد کو دیکھ کر کوئی شقی القلب انسان بھی خون کے آنسو رونے پر مجبور ہو جاتا تھا۔ بینائی سے اب محروم اور اپنے کنبے کا واحد کفیل سوپور کے 25سالہ آٹو ڈرائیور فردوس احمد کے الفاظ زندگی بھر میرے کانوں میں گونجتے رہیں گے۔ جب اس کو بتایا گیا کہ راہول گاندھی اس کے سرہانے کھڑے ہیں تووہ گویا ہوا ’’ سر مجھ جیسے سینکڑوں افراد کشمیر میں مصیبت میں مبتلا ہیں ۔ میں آنکھوں کے نور سے محروم ہوا ہے تو کیا ہوا اگر میری بینائی سے محرومی بھارت کے سیاسی راہنماوٗں کی آنکھیں کھول دیتی ہے تو یہ سودا برا نہیں۔‘‘ امراض چشم کے ماہر ڈاکٹر ایس نٹراجن بتا رہے تھے کہ ایسے کیسز کے ساتھ ان کا پہلی بار واسطہ پڑا ہے۔ ان کے مطابق کسی جنگ زدہ خطہ میں بھی اس طرح کے کیسز ریکارڑ نہیں ہوئے ہیں۔

دنیا کے دیگر جنگ زدہ علاقوں کے برعکس میں سمجھتا ہو ں کہ کشمیر پر بہت کم رپورٹنگ ہوئی ہے اور بہت کم حقائق منظر عام پر آئے ہیں۔بیشتر رپورٹنگ بھی سرینگر اور اس کے آس پاس کے علاقوں کی ہوئی ہے۔ برطانوی مصنفین ایڈرین لیوی اور کیتھی سکاٹ نے اپنی کتاب The Meadowsمیں کشمیر میں ہوئے ظلم و ستم کا ہلکا سا احاطہ کیا ہے ۔میں کئی واقعات کا خود عینی شاہد رہا ہوں۔ جموں وکشمیر کے طول وعرض میں ایسے لاتعداد المناک واقعات رونما ہوئے ہیں جنہیں بیان کرنے یا ضبط تحریر میں لانے سے زبان اورقلم کو خوف کی آندھیوں کا سامناکرناپڑتاہے ۔ کیا آپ یہ تصور کر سکتے ہیں کہ ایک پوری آبادی سے پورے 15برس تک فوجی بیگا ر یا جبری مزدوری کا کام لیا جا رہا تھا؟ جب بیگار پر جانے والے مردوں کی تعداد کم پڑتی تھی اور چند ایک دیہات کی عورتوں کو حکم دیا جاتا تھاکہ وہ ٹوکریوں میں فوج کی بارکوں اور بنکروں کی تعمیر کے لئے اینٹیں وغیرہ ڈھودیں۔

یہ واقعہ سوپور اور ہندواڑہ کے درمیان قلم آباد کا ہے۔ سردیاں آنے سے قبل سوپور اور ہندواڑہ کے لوگ جلانے کیلئے لکڑیاں یا بالن اسی علاقہ کے جنگلوں سے ٹریکٹر اور ریڑھوں وغیرہ پر لے جایا کرتے تھے۔ شرط تھی کہ ہر ٹریکٹر ٹرالی یاریڑھی والے کو قلم آباد اور ر مرٹ گام کے فوجی کیمپ پر بالن کا ایک حصہ بطور جبری ٹیکس جمع کروانا پڑتا تھا۔ 1997 کی سردیوں کی آمد تھی۔ منزپورہ کا غلام احمد وانی نامی ریڑھی بان بالن کو لیکرمحوسفر تھا۔ بدنصیب ریڑھی بان متعلقہ ایم ایل اے مرحوم عبدالاحد کار صاحب کے محلے کا باشندہ تھا اور ان کا نزدیکی رشتہ دار بھی۔ وہ اس بھرم میں مبتلا تھاچونکہ وہ ایم ایل اے صاحب کا رشتہ دار ہے ‘ لہٰذا متعلقہ کیمپ کے فوجی اسکو کچھ رعایت دیں گے۔ اس نے بنکر میں موجود سنتری کی توقع کے برعکس کچھ کم ہی مقدار میں بالن جمع کروایا۔ سنتری نے غلام احمد کو مزید بالن جمع کروانے کاحکم دیا۔ لیکن غلام محمد کا اصرار تھاکہ اس نے پہلے ہی ایک معقول مقدار دے دی ہے۔ دونوں کے درمیان توں توں میں میں ہوگئی۔ سنتری سے لے کر میجر بہادر تک کو غلام احمد کی ایم ایل اے صاحب سے رشتہ داری کا علم تھا اور وہ بدقسمتی سے اس کو اپنی طاقت سمجھنے کی حماقت کر بیٹھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے سنتری کو ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ بس پھر کیا تھا سنتری نے بنکر سے باہر نکل کر اپنی بندوق ریڑھی بان کے سینے کی طرف موڑلی۔۔ بنکر سے چند گز دور اسکولی بچے یہ سارا کرب ناک منظر دیکھ رہے تھے ۔سنتری نے سچ مچ گولی چلا دی اور یہ سیدھے غلام احمد کے سینے میں پیوست ہوگئی۔ اس کے سینے سے گرم گرم خون کے فوارے سڑک کو لال کرگئے۔ اس کا گھوڑا اپنے خوددار مالک کی لاش کے گرد محافظ کی طرح کھڑا ہوگیا۔ اس گھوڑے کی وفاداری کے قصے آج بھی اس علاقہ کے لوگ سناکر فخر محسوس کرتے ہیں۔

اس علاقہ کے موجودہ ایم ایل اے انجینئر رشید کا قصہ بھی ملاحظہ کرلیں۔ سرکاری انجینئر ہوتے ہوئے جب وہ ایک دن اپنی باری کی مزدوری اداکرنے کے لئے کیمپ پرحاضر ہو ئے تو ان کو کیمپ کے اندر میجر صاحب (اشوک ناتھ ) کے سامنے لے جایا گیا۔جس نے انکے ہا تھوں میں سو روپے کا نوٹ تھما دیا اورسمجھا دیا کہ اوڑی کے آرمی کیمپ میں موجود کینٹین کو جاناہے اور وہاں کھانا کھانے کی ایک مخصوص تھالی خرید کر لانی ہے۔ اوڑی اس علاقہ سے خاصی دوری پر ہے۔ کئی بسیں بدلنی پڑتی ہیں۔ کینٹین جاکر معلوم ہوا کہ میجر صاحب نے جو تھالی لانے کو کہا تھا اس کی قیمت 140روپے تھی ۔ بہرحال اپنی جیب سے باقی ماندہ رقم ادا کرکے تھالی خریدکر انجینئر دیر رات گئے تھالی لے کر قلم آباد کیمپ پہنچے۔ جیسے ہی میجر صاحب نے تھالی ہاتھوں میں لے لی تو ان کا موڈ خراب ہوا۔ ان کا کہنا تھایہ تھالی ان کی پسند کی نہیں ہے۔ نومبر کا مہینہ تھا میجر صاحب نے انکو الٹے پاؤں واپس لوٹنے کا حکم دیا اور اس تھالی سے نسبتاًچند انچ بڑی تھالی لانے کو کہا۔ انجینئر کے بقول انہوں نے میجر صاحب سے گزارش کی کہ اب کوئی سواری بھی نہیں ملے گی، رات کا کرفیو بھی نافذ ہوتا تھا، وہ صبح سویرے جاکر میجر صاحب کی پسند کی تھالی لے آئیں گے ۔ مگر میجر صاحب نے حکم دیا کہ ان کی پسند کا تھال لانے تک وہ اس علاقہ میں یا اپنے گاؤں میں نہیں رہ سکتے۔ جب تک تھال نہیں آتا ، تب تک وہ ایک طرح سے تڑی پار ہیں۔

خیر کسی دوسرے گاوٗں میں رات گزارنے کے بعد اگلے روز وہ پھر اوڑی کی ملٹری کنٹین کے دروازے پر کھڑے تھے انہوں نے تھال واپس لینے سے صاف انکارکردیا۔انجینئر صاحب نے اب جیب سے 170روپے اداکرکے میجر صاحب کی پسند کا تھال لیا اورپرانا تھال بھی اپنے ساتھ چاروناچار واپس لے کر آگئے۔ جب وہ واپس کیمپ پر تھال لے کر پہنچے تو میجر صاحب نے ایک مرتبہ پھر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا کہ یہ دوسرا تھال بھی ان کی پسند کا نہیں تھا۔ سچ یہی ہے کہ دوسرا تھال ان کی سوفیصدپسند کے مطابق تھالیکن ان کی نظریں اب دونوں تھالوں پر پڑی تھیں اور اپنی ناپسندکااظہا رکرنے کے ساتھ ہی انہوں نے وہاں کھڑے جوان سے کہا ’’ یہ دونوں تھال کسی کام کے نہیں پھر بھی رکھ لو ‘‘۔ انہوں نے چند نازیبا الفاظ بک کر کے انجینئر کو وہاں سے جانے کو کہا۔ وہ دل ہی دل خدا کا شکر اداکرکے وہاں سے چل دیئے۔ ڈھیرساری گالیاں کھانے‘ دو دن دربدر پھرنے اور لگ بھگ 200روپے جیب سے اداکرنے کے باوجود خود کو یہی تسلی دیتے رہے کہ ’’جان بچی سو لاکھوں پائے ‘‘۔ میجر صاحب علاقے کے لوگوں کو نفسیاتی اور ذہنی طور زیر کرنے کے لئے مختلف قسم کی گھٹیاحرکتیں کرنے میں اپنا منفرد مقام رکھتے تھے۔ مقامی لوگوں کو یہ حکم دیا جاتا تھا کہ اپنے گاؤں یا علاقے کے کسی عسکریت پسند یاسیاسی کارکن کی جائیداد کو تلف کردیں ۔ اندازہ کریں کہ ایسا کرنا کس قدر ذہنی تکلیف کا باعث رہتا ہوگا۔

ویسے بھی حریت ، جماعت اسلامی یا عسکریت سے وابستہ فراد کے اہل خانہ کی زرعی زمین پر کوئی فصل اْگانا ممنوع تھا لیکن ان کے باغات اور اخروٹ کے درختوں پر چونکہ قدرتی طور سے فصل اْگ جاتی تھی لہٰذا اہلکاروں کے لئے اس فصل کو تباہ کرنا دیش بھگتی کاجزولاینفک تھا۔تب تک سپاہی ان باغات کے ساتھ کچھ بھی نہیں کرتے تھے جب تک ان میں موجودفصل پک نہ جاتی تھی۔ جیسے ہی فصل تیار ہو جاتی تھی تو جبراً مزدوری کی ڈیوٹی دینے والوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ وہ باغات کی پوری فصل کو تباہ کریں۔ چنانچہ حکم کی تعمیل میں بے بس دیہاتیوں کو کسی اپنے ہی ہمسایہ کی لاکھوں روپیہ کے مالیت کے سیب اور ناشپاتی وغیرہ کے درختوں پر بندروں کی طرح چڑھ کر ساری فصل کو تلف کرنا پڑتا تھا۔ کبھی کبھار کوئی فوجی آفیسر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لئے حکم دیتا کہ وہ کلہاڑیاں لے کر فصل سمیت درختوں کو ہی کاٹ دیں۔ستم ظریفی کی بات یہ تھی کہ اس فصل کو تباہ کرنے اور انکے مکانات کو مسمار کروانے کے لئے قریب ترین رشتہ داروں کو مامور کیا جاتا تھا تاکہ وہ اپنی بے بسی کا خودمذاق اڑا کر اپنی آنکھوں سے آنسو کا قطرہ بھی نہ بہاسکیں۔

کشمیر کے گلی کوچے پکار پکار کر زبان حال کہہ رہے ہیں۔ میں کس طرح سے کروں بیاں، جو کئے گئے ہیں ستم یہاں۔۔سنو کوئی میری یہ داستاں، کوئی ہم نشین ہے نہ رازداں۔ایسے ان گنت واقعات ہیں، جو کسی ایڈرین لیوی یا کیتھی اسکاٹ کے منتظر ہیں ، جو انکو دنیا کے سامنے لاسکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے