مُردوں کے لئے موت کی دعاحسن نثارجس معاشرہ میں اقتصادیات لوٹ مار کی لپیٹ میں آ جائے وہاں اخلاقیات کا تار تار ہو جانا بھی ناگزیر ہو جاتا ہے۔ جہاں اقتصادیات میں ڈسپلن تباہ و برباد ہو جائے وہاں اخلاقیات میں بھی ڈسپلن کا جنازہ نکل جاتا ہے۔ یہی کچھ ہمارے ہاں ہوا جس کا 90فیصد کریڈٹ اس ’’کلچر‘‘ کو جاتا ہے جو سیاست میں ’’نووارد‘‘ نواز شریف نے متعارف کرایا اور پھر وہ سریع الاثر زہر کی طرح پورے معاشرے میں پھیلتا چلا گیا۔ تھوڑی سی سوچ بچار سے واضح ہو جائے گا کہ نواز شریف کی سیاست میں تشریف آوری سے پہلے کی سیاست کے خدوخال کیا تھے؟ بعد میں بتدریج کیسے تبدیل ہوئے اور آج یہ حالت ہے کہ اجتماعی بدن کا ایک ایک مسام ناسور میں تبدیل ہو چکا۔ کبھی کوئی اصلاح کا بیڑہ اٹھائے بھی تو اسے یہی سمجھ نہ آئے کہ شروع کہا ںسے کرے۔صرف ایک دن کی صرف چند خبروں کو آپس میں مکس کر کے دیکھیں، کیسی مکروہ ترین صورتحال سامنے آتی ہے۔ ذرا غور فرمائیں ملک میں اعلیٰ تعلیم کے نام پر جعلی یونیورسٹیوں اور کیمپسز کی تعداد 155تک جا پہنچنے کا ہوشربا انکشاف ہوا ہے۔
تفصیل کے مطابق پنجاب شریف 102، سندھ سائیں میں 36، پختونخوا عرف نیا پاکستان میں 11، اسلام آباد میں 3اور کشمیر میں بھی 3جعلی یونیورسٹیاں ہیں۔چشم بددور جعلی کلیموں اور جعلی ذاتوں سے شروع ہو کر جعلی ڈگریوں، جعلی دوائیوں سے ہوتے ہوئے ہم جعلی یونیورسٹیوں تک آ پہنچے اور یہ ’’ہم‘‘ کون ہیں؟ جن کا آغاز اقرا (پڑھ) سے ہوا اور ہمیں بتایا گیا کہ علمتمہاری کھوئی ہوئی میراث ہے۔ ہم نے میراث کو منڈی کا حال بنا کر اس کی لوٹ سیل لگا دی اور ایسا ایسا سیاسی جوکر پیدا کیا جو کہتا تھا ’’ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے، جعلی ہو یا اصلی‘‘ یعنی قوم تو قوم ہوتی ہے جعلی ہو یا اصلی، عزت تو عزت ہوتی ہے جعلی ہو یا اصلی، غیرت تو غیرت ہوتی ہے جعلی ہو یا اصلی۔معیشت تو معیشت ہوتی ہے جعلی ہو یا اصلی، وزیراعظم تو وزیراعظم ہوتا ہے صادق ہو یا جھوٹا، امین ہو یا خائن علی ہذالقیاس۔ دوسری طرف میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز کے انٹری ٹیسٹ لیک ہونے پر وائس چانسلر ہیلتھ سائنسز ڈاکٹر جنید سرفرار کو عہدے سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ یہ مذموم، تباہ کن ’’کاروبار‘‘ کب سے جاری تھا، نسلیں غیر محفوظ کر کے کتنا مال بنایا گیا؟ فی پیپر کتنا چارج کیا جاتا تھا؟ کون کون شامل تھا؟ سب چھوڑیں اور صرف اتنا سوچیں کہ کتنا گر چکے ہیں اور منڈی میں کتنا جعلی ڈاکٹر موجود ہے۔اب ایک اور رخ سے اپنا ’’اجتماعی رخ مبارک‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔ آپ کو 2015میں شاہین ایئر لائنز کا حادثہ تو یاد ہو گا۔ اس کی انکوائری رپورٹ آ گئی ہے جس کے مطابق اقبال کا جو ’’شاہین‘‘ یعنی پائلٹ جہاز اڑا رہا تھا، وہ نشے میں دھت تھا۔ اسی حالت میں فلائٹ کو کراچی سے لاہور لایا اور مقررہ حد رفتار سے تجاوز کرنے کی وجہ سے ہنگامی لینڈنگ کی گئی۔ پائلٹ کی میٹرک کی سند بھی جعلی نکلی ہے۔ لینڈنگ کے لئے رن وے کا راستہ بھی غلط اختیار کیا گیا۔ پرواز سے قبل پائلٹ اور عملے کا الکوحل ٹیسٹ بھی نہیں کیا گیا تھا۔رہی سہی کسر پبلک سروس کمیشن نے سی ایس ایس 2017کے مایوس کن شرمناک نتائج کااعلان کر کے پوری کر دی جن کے مطابق کامیابی کی شرح 3.32 فیصد رہی۔ امتحان میں 9301امیدواروں نے حصہ لیا، صرف 312کامیاب ہوئے اور مجھے یقین ہے کہ ان 312کو مل کر بھی مایوسی ہی ہو گی۔ میں شاید پہلے بھی کبھی یہ لکھ چکا ہوں کہ آپ کبھی پنجاب یونیورسٹی ’’نیو کیمپس‘‘ جائیں تو یوں محسوس ہو گا آپ کسی میلہ مویشیاں میں آ گئے ہیں۔ عجیب سوئے سوئے، بے ترتیب میلے میلے ستھنیں، جوگرز، چپلیں پہنے اک بے سمت ہجوم سا دیکھ کر رونا آتا ہے۔ کسی طرف سے نہیں لگتا کہ یہ کسی یونیورسٹی کا منظر ہے۔اور کیا آپ جانتے ہیں، ایسا کیوں ہے؟اس لئے کہ وزیراعظم اعلیٰ ترین عدالت کی طرف سے نا اہل، غیر صادق، غیر امین قرار دیئے جانے کے باوجود پوچھتا پھر رہا ہے۔ ’’مجھے کیوں نکالا؟ وزیر خزانہ بددیانتی، ہیرا پھیری کے سنگین الزامات پر پیشیاں بھگت رہا ہے لیکن وزارت سے چپکا ہوا ہے۔مارشل لائوں اور ڈکٹیٹروں کی پیداوار بلکہ ان کے ’’پوتے‘‘ اور ’’نواسے‘‘ جمہوریت کے چمپئن بنے ہوئے ہیں اور بے حیائی سے وفاداریاں تبدیل کرنے والے قوم کو سیاسیات، جمہوریت اور اخلاقیات کے لیکچر دے رہے ہیں۔
تین بار وزیراعظم رہ چکے شخص کی سوئی سقوط ڈھاکہ پر اٹکی ہوئی ہے اور وہ اپنے ہی وزراء کو کنٹرول میں رکھنے، بلیک میل کرنے کے لئے ان کے خلاف فائلیں تیار کروا رہا ہے اور شاید اسمبلی کی تاریخ میں پہلی بار ریاض پیرزادہ سمیت 4وزراء اور حکومتی ارکان اپنی ہی حکومت کے خلاف قومی اسمبلی سے واک آئوٹ کر گئے اور ایک اخباری اطلاع کے مطابق نواز شریف نے اپنے 3معتمد درباریوں کو یہ ٹاسک دے دیا ہے کہ حکومت کے باغیوں کو منا کر لائو یا ان واک آئوٹ کرنے والوں کے انتخابی حلقوں میں ان کے متبادل تلاش کر کے ان کی ہر ممکن ناممکن مدد کرنے کے ساتھ ساتھ باغیوں کو پولیس اور بیورو کریسی کے ذریعہ تنگ کرو۔عقیدہ ختم نبوت کے ساتھ ٹمپرنگ کی غلیظ ناپاک ناکام سازش کے بعد اس حکومت کی اصل کمائی یہ ہے کہ بزرگ، سینئر ترین رکن اسمبلی اور سابق وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی نے اس اسمبلی کے لئے موت کی دعا کی ہے حالانکہ مرتے تو وہ ہیں جو زندہ ہوں۔