امرت دھارا جدید ۔ جگاڑ

حضرت علامہ بریانی عرف برڈ فلو اور قہر خداوندی چشم گل چشم عرف ڈینگی مچھر کے درمیان آج کل ایک بہت بڑا پانامہ چل رہا ہے۔ بلکہ یو ں کہیے کہ سرد پانامہ جوان کے درمیان ہمیشہ چلتا رہتا ہے آج کل کچھ گرم پانامہ ہو چکا ہے اور دونوں ایک دوسرے کو ایک نئے نام ’’جگاڑو‘‘ کے نام سے پکارتے رہتے ہیں یہ لفظ دونوں نے پڑوسی ملک کی فلموں اور ڈراموں سے لیا ہے۔آپ سوچیں گے کہ چلیے قہر خداوندی تو پڑوسی ملک کی فلمیں دیکھتا ہوگا لیکن علامہ اور فلمیں؟
تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ علامہ بھی خلوت میں انڈین بلکہ انگریزی فلمیں دیکھتے ہیں لیکن قہر خداوندی کی طرح ایسے ویسے ارادے سے نہیں بلکہ عبرت پکڑنے کے لیے ملاحظہ فرماتے ہیں اس بات کا پتہ انھیں فلموں ہی سے چلا ہے کہ پڑوسی ملک میں’’غربت‘‘ انتہا کو پہنچ چکی ہے اتنی زیادہ کہ اداکاراؤںکو اپنی ستر پوشی کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور وہ غربت کی وجہ سے دو چار گرہ میں ہی گزارہ کر رہی ہیں بلکہ خطرہ ہے کہ کہیں یہ دوچار گرہ لباس بھی ان کی استطاعت سے باہر ہوجائے انھیں انڈین فلموں سے ’’شکھشا‘‘ بھی ملتی ہے۔
چنانچہ وہاں کے رام رحیم اور آسارام کی آمدنی دیکھ کر اپنی آمدنی بڑھانے کے منصوبے بھی لانچ کرتے رہتے ہیں مطلب یہ کہ خلوت میں بھی وہ عبرت و موعظمت پکڑنے کے کام میں اپنا وقت صرف کرتے ہیں اس لیے ان کو بھی پتہ چل چکا ہے کہ ’’جگاڑو‘‘ کا مطلب کیا ہوتا ہے جگاڑو کا ٹھیک ٹھیک مطلب تو انھیں آئینے میں معلوم ہو سکتا تھا لیکن وہ آئینہ تو دیکھتے نہیں اس لیے قہر خداوندی میں ان کو جگاڑو نظر آجاتا ہے اور قہر خداوندی تو خود پکا پکا خاندانی جگاڑو ہے اس لیے وہ بھی ’’جگاڑو را جگاڑو می شناسد۔ کے مصداق دوسرے جگاڑو کو پہچان چکا ہے کہ

بہر رنگے کہ خواہی جامہ می پوش
من انداز ’’قدت رامی شناسم
لفظ’’جگاڑو‘‘کا مطلب تو آپ بھی جانتے ہوں گے کیونکہ ان دنوں اپنے یہاں کی جانکاری وہاں کی جانکاری سے فیض یافتہ ہے۔بچے تک آپس میں ’’رام رام‘‘ ہے بھگوان اور پرنام کر لیتے ہیں اور خواتین نے تو اپنے اپنے گھر وں کو اسٹار پلس اور زی بنایا ہوا ہے ۔
خیر بات جگاڑو کی ہو رہی ’’جگاڑو‘‘ کا لفظ یونہی کہ تمام جادؤوں،منتروں، جنتروں اور تنتروں کا نچوڑ ہے یا الہ دین کے چراغ کا جن کہیے کہ جو کام کسی بھی طرح ہو یارو اسے کسی ’’جگاڑو‘‘ کو ریفر کر دیا جاتا ہے آسمان کے تارے توڑنے ہوں، سورج پر ’’بھٹے‘‘ بھوننا ہو چاند میں پلاٹ بک کرنا ہو کسی سرکاری افسر یا محکمے سے ناممکن کا لفظ نکالنا ہو ’’جگاڑو‘‘ المدد کہیے ہوجائے گا۔مثلاً نوکری نہیں مل رہی ہے تو کچھ ’’جگاڑ‘‘ کر و مل جائے گی، ٹینڈر منظور نہیں ہو رہا ہے بل اٹکاہوا ہے فنڈز نہیں مل رہے ہیں توکوئی بات نہیں جگاڑ کرکے کروا لیجیے۔
اس قسم کا ایک اور غریب سا لفظ ’’مک مکا‘‘ بھی ہمار ے ہاں مروج ہے لیکن مک مکا میں وہ بات کہاں جو اس کم بخت جگاڑ میں ہے یہ تو کبھی کبھی ’’مکا۔ لات‘‘بھی ہو سکتی ہے اور ’’مقا۔ لات‘‘ کی جگہ ’’ہوا ۔ لات‘‘ تک بھی بات پہنچ سکتی ہے لیکن ’’جگاڑ‘‘ میں ناکامی یا ناممکن کا دور دور تک شائبہ نہیں۔
جہاں تک ہم اس خطے کی زبانوں کا علم رکھتے ہیں وہاں تک تو یہ اس برصغیر میں بولی جانے والی کسی بھی زبان کا لفظ نہیں ہے لیکن آج کل ہر زبان پر یہی لفظ ہے جہاں تک ہم نے اپنی تحقیق کے خچر کو دوڑایا ہے تو ’’جگاڑ‘‘ کو ’’بگاڑ‘‘ کی ضد اور اپوزیٹ پایا ہے یعنی جو بھی کام بگڑ جاتا ہے وہ اس سے ’’جگڑ‘‘ جاتا ہے یوں یہ ایک طرح سے ’’بگاڑ‘‘ کا ’’نصف بہتر‘‘ ثابت ہوتا ہے مثالیں تو ہمارے ہاں قدم قدم موجود ہیں سیاست میں تجارت میں اقتصاد میں محکموں میں دفتروں میں بازار میں گلیوں چوباروں میں جہاں دیکھیے ادھر تو ہی تو ہے۔ لیکن یہ زیادہ وزیروں، لیڈروں، کونسلروں، افسروں، ٹھیکیداروں اور کچریوں میں زیادہ پایا جاتا ہے ۔
اس کی ایک مثال ہمیں فوری طور پر یاد آرہی ہے کافی عرصہ پہلے پشاور کے ایک ناظم اعلیٰ نے ایک ٹھیکیدار کی بنائی ہوئی ساری سڑکیں نامنظور کردیں اس کے بل روک لیے اور ضمانت کی ضبطی تک نوبت پہنچ گئی ٹھیکیدار لوگ تو نمبر ون جگاڑو ہوتے ہیں لیکن اس ٹھیکیدار کی کوئی نہیں چلی کیونکہ وہ ناظم اعلیٰ حددرجہ دیانتدار اور نہ دینے والا تھا۔ وزیروں وزیر اعلیٰ کا ذریعہ بھی کام نہیں آیا ۔مک مکا کے سارے حربے بھی فیل ہوگئے کیونکہ وہ سٹرکیں سامنے موجود بلکہ اب ناموجود تھیں۔ لیکن جگاڑ تو اسے کرنا تھی ورنہ اس کی ساری ہستی مٹ جاتی اور آخر کار اس نے کرلیا وہ یوں کہ الیکشن آگئے جس حلقے میں وہ ٹھیکیدار تھا اس میں اسی پارٹی کا ایک قابل احترام بزرگ امیدوار تھا جس سے اس ناظم اعلیٰ کا تعلق تھا۔
اور جب اپنی پارٹی کا وہ بزرگ رہنماء اس کے سامنے بیٹھ گیا۔تو ٹھیکیدار کے سارے ٹھیکے منظور ہوگئے بل نکل آئے اور شاندار منافع بھی ملا اسے کہتے ہیں جگاڑ۔ یا آج کل وزیر یا ممبر لوگ آپس میں یہ میوچل جگاڑ کرتے ہیں کہ تم میرا آدمی چترال میں ملازم لے لو میں تمہارا آدمی ڈیرہ اسماعیل خان میں لے لوں گا بلکہ چترال سے ڈی خان تک یہ میوچل جگاڑ ہر ضلعے اور حلقے سے ہوتا ہوا بھی پہنچ جاتا ہے یہی میوچل جگاڑ محکموں میں بھی مروج ہے گویا اسے ہم ’’امرت دھارا جدید‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے