نامعلوم کا پیار اور مار

ایسے نہیں ہوتا کہ کسی لکھاری یا صحافی کو کسی بھی دن کوئی نامعلوم اچانک ٹھوک دے، قاتلانہ حملہ کردے یا غائب کر دے۔ ایسے گھٹیا کام صرف نان سٹیٹ ایکٹرز کرتے ہیں۔ سٹیٹ ایکٹرز کا یہ وطیرہ ہرگز نہیں۔ ان کا اپنا معیار، انداز اور مقام ہے۔

مثلاً پہلے آپ سے اچانک کسی محفل یا ریستوراں میں یا راہ چلتے کوئی صاحب اتفاقاً ملتے ہیں۔ آپ بھلے انھیں نہ جانتے ہوں مگر وہ آپ کو اچھے سے جانتے ہیں۔ اگر آپ ادیب ہیں تو آپ کے کسی ناول یا افسانے کی تعریف کریں گے۔ شاعر ہیں تو آپ کے دو تین شعر بھی سنا دیں گے، صحافی ہیں تو آپ کی جرات مندی اور تحقیقاتی خبروں کے گرویدہ نکلیں گے، کالم نگار ہیں تو کیلکولیٹڈ قہقہہ لگاتے ہوئے کہیں گے ارے بھئی خان صاحب مجھے اخبار وخبار سے ہمیشہ چڑ سی رہی ہے۔ مگر جب سے آپ نے روزنامہ کرتب میں لکھنا شروع کیا مجبوراً خریدنا پڑتا ہے۔

اگر آپ ٹی وی اینکر ہیں تو آپ کے یہ نامعلوم مداح بتائیں گے کہ جس وقت آپ کا ٹاک شو آتا ہے مجھ میں اور بیوی میں ریموٹ کنٹرول پر ضرور چھینا جھپٹی ہوتی ہے۔ وہ کوئی اور چینل دیکھنا چاہتی ہے اور میں تو بس آپ ہی کا پروگرام دیکھتا ہوں۔

اس کے بعد نامعلوم مداح کی گفتگو میں دوسرا گیئر لگتا ہے۔ ’خان جی فی زمانہ جس جرات مندی سے آپ لکھتے اور بولتے ہیں کبھی کبھی تو ڈر سالگتا ہے کہ آپ کو کیوں ڈر نہیں لگتا۔ آپ اس ملک کا سرمایہ ہیں سر۔ بس لکھتے وقت آج کل ذرا احتیاط کرلیا کریں۔ اس ملک میں بڑے بڑے جنگلی گھوم رہے ہیں۔ کچھ پتہ نہیں کون کیا سمجھ کے کیا کر ڈالے۔ بہرحال اللہ تعالی آپ کو حفظ وامان میں رکھے۔‘

اور جب آپ ہمت کر کے پوچھتے ہیں کہ آپ کی تعریف؟ بس جی میرا نام اے زیڈ سلیم ہے، ایک سرکاری محکمے میں ملازم ہوں۔ اب اجازت۔ اللہ حافظ۔۔

اگر آپ نے اس گفتگو کو محض ایک عام سے فین کے جذبات سمجھ لیا تو آپ کی قسمت۔ کچھ عرصے بعد آپ کے کسی افسانے، نظم، اخباری رپورٹ، کالم یا بلاگ کو پکڑ کے سوشل میڈیا اور مخصوص ٹی وی چینلز پر اچانک ایک دھڑم دھکیل مہم نمودار ہوگی۔ ضمیر فروش، ملک دشمن، بیرونی ایجنٹ، یہودی لابی کا کتا، لبرل فاشسٹ، کرائے کا لکھاری، یہ دیکھیے اس کی بیٹی کی سلیو لیس تصویر، یہ دیکھیے لال دائرے میں افغان ایجنٹ سے خفیہ طور پرملتے ہوئے۔ یہ دیکھیے ایک مغربی سفارتخانے کی شراب و شباب کی محفل میں بے غیرتی سے ہنستے ہوئے (لال دائرے میں)۔

مطلب یہ کہ اب بھی وقت ہے نادان سنبھل جا اور اپنے قلم کو لگام دے لے۔ پھر بھی اگر آپ بے وقوفی کی حد تک دلیر ہیں تو غضب ناک گھوڑے کے سموں سے نکلنے والی چنگاریوں کے لیے تیار رہیں۔ نامعلوم یا اجنبی نمبروں سے کالز کا سلسلہ ۔ آپ ہیلو ہیلو کرتے رہیں اورآگے سے کوئی نہ بولے، تھوڑی دیر بعد کال کٹ جائے اور پھر گھنٹی بجے اور پھر خاموشی کا ٹارچر شروع ہوجائے۔ یا اچانک سے کوئی غلیظ برسٹ مارے اور کال منقطع کردے۔
یا پھر کوئی ایسی کال آئے ’آپ کل دوپہر ڈیفنس فیز ایٹ کی سٹریٹ 48 میں دو بجکر 35 منٹ پر مکان نمبر اے 35 سے نکلتے دیکھے گئے۔ ایسے نہ گھوما کریں۔ آپ آج بچے کو سکول لینے 10 منٹ لیٹ کیوں ہوگئے تھے خیریت؟۔‘

اگر آپ اب بھی سدھرنے پر آمادہ نہیں تو یا تو پاگل ہیں یا پھر منیر نیازی کے عاشق ’کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی۔‘
اس ڈھٹائی پر کہ جسے آپ حق و باطل کے اصولوں اورآزادیِ اظہار کی جنگ سمجھ رہے ہیں۔ اگلے مرحلے میں آپ کو ’اس کی سجا جرور ملےگی بروبر ملے گی۔‘

ہو سکتا ہے آپ کا کوئی ایک تحریری یا زبانی فقرہ سیاق و سباق سے الگ کر کے توہینِ مذہب کے دائرے میں داخل کر دیاجائے تاکہ آپ روپوشی یا بیرونِ ملک ہجرت میں انتخاب کرسکیں۔ ہو سکتا ہے آپ کو کوئی موٹر سائیکل سوار یا پیدلیا یا کوئی بھوت ناقابلِ برداشت جسمانی نقصان پہنچادے۔ ہو سکتا ہے آپ ہوا میں غائب ہو جائیں اور چند دن بعد اچھے بچے بن کر لوٹ آئیں یا پھر ہو سکتا ہے آپ کو۔۔۔۔۔
یعنی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

اس لیے خیریت چاہتے ہیں تو پہلی اتفاقی، مہذب، تعریفی، دوستانہ وارننگ کو غنیمت جانیں اور کسی بھی ایسی منڈلی کا حصہ بن جائیں جو دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا گاتے بجاتے گذر رہی ہو۔

پھر بھی اگر تنقید کا کیڑا کلبلانے پر بضد ہو تو اس کا رخ کسی یتیم تھانیدار، لینڈ مافیا، بدعنوان ٹھیکیدار، جمہوریت وغیرہ کی طرف موڑ دیں، کسی یسیر سیاستداں کے پیچھے لگا دیں، شہر میں گندگی کے ڈھیروں پر نظم یا نثر لکھنے پر مامور کر دیں، بھارت، افغانستان، امریکہ یا اسرائیل جیسوں پے چڑھا دیں۔

کیا فائدہ ایسے حساس موضوعات پر قلمی تلوار بازی کا کہ جو سادے یا مد والے الف ، ف یا ع وغیرہ سے شروع ہوتے ہوں۔
جھاڑو نال بناون مور تے فیدہ کی
بوتھی ہو جائے ہور دی ہور تے فیدہ کی
پچھوں کردا پھراں ٹکور تے فیدہ کی
(بابا عبیر ابوزری)۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے