ایس ایم ظفر تاریخِ پاکستان کے سبھی ادوارکے عینی شاہد ہیں۔
آپ ممتاز قانون دان ، سیاست دان ، مصنف اور دانش ور ہیں ۔6دسمبر 1930ء کو برما کے دارالحکومت رنگون میں پیدائش ہوئی۔ ابتدائی تعلیم بھی وہیں حاصل کی ۔جنگ عظیم دوم کے ہنگام جب برما میں حالات بگڑ گئے توآپ اپنے خاندان کے ساتھ ہندوستان میں اپنے آبائی علاقے میں واپس آگئے۔1945ء میں شکرگڑھ سے میٹرک ،گورنمنٹ کالج لاہور سے انٹر میڈیٹ جبکہ قانون کی تعلیم پنجاب یونیورسٹی لاء کالج سے حاصل کی۔پورا نام توسید محمد ظفر ہے،ایس ایم ظفر اس وقت بنے جب کالج یونین کے جنرل سیکریٹری کا الیکشن لڑا،اور پھر اسی نام سے پہچانے گئے۔ایس ایم ظفر پاکستان کے سابق صدر جنرل محمد ایوب خان کی کابینہ میں وزیرقانون وپارلیمانی امور رہ چکے ہیں۔علاوہ ازیں 2003ء سے 2012ء تک سینیٹ کے رکن جبکہ 2004ء سے 2012 ء تک ہمدرد یونیورسٹی کے چانسلر کی حیثیت سے انہوں نے خدمات انجام دی ہے ۔آپ کی چھ کتابیں شائع ہو چکی ہیں ، ساتویں پر کام جاری ہے۔ ملکی تاریخ کے کئی اہم مقدمات میں کامیابی کا سہراآپ کے سر ہے۔
پچھلے دنوں ایس ایم ظفر کے ساتھ ان کے کینال بینک پر واقع وسیع و عریض گھر میں تفصیلی نشست ہوئی ۔ملاقات کے لیے دوپہر کا وقت طے تھا۔وہ اپنی لائبریری میں تشریف فرما تھے اورکافی ہشاش بشاش دکھائی دے رہے تھے۔میرے ذہن میں سوالات توبہت تھے لیکن سب سے پہلے میں نے ان سے تقسیم ہند سے متعلق مشاہدات کے بارے میں جاننا چاہا، اس زمانے میں ان کی عمر 17 برس تھی۔انہوں نے تقسیم اور ہجرت کے آنکھوں دیکھے واقعات سنائے اور پھر بات قیام پاکستان کے بعد کی سیاسی تاریخ کے مختلف گوشوں تک پھیلتی چلی گئی ۔لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹے پر محیط اس گفتگو کا احوال ملاحظہ کیجیے:
جب پاکستان بن رہاتھا تو آپ نوجوان تھے۔آپ کے ذہن میں ان ایام کے بہت سے مناظرضرور نقش ہوں گے ، وہ کیسے حالات تھے؟
میں اس کا آغاز تین جون سے کرتا ہوں،تین جون کو اس ملک کی تمام سیاسی طاقتوں اور برطانوی حکومت نے بیٹھ کر تقسیم ہند کا فیصلہ کیا۔وہاں تین بڑی قوتیں کانگریس،مسلم لیگ اور برطانوی حکومت موجود تھیں۔مسلمانوں کی نمائندگی قائداعظم کر رہے تھے اوران کے ساتھ لیاقت علی خاں تھے۔کانگریس کی نمائندگی پنڈت نہروکر رہے تھے جن کے ساتھ پٹیل تھے۔اگرچہ وہ علیحدہ پارٹی تو نہیں تھی لیکن بلدیو سنگھ سِکھوں کی نمائندگی کر رہے تھے۔سب نے مان لیا کہ برطانیہ کے جانے کے بعد دو ریاستیں قائم ہوں گی، ایک کا نام ہوگا بھارت جبکہ دوسری کا پاکستان ۔ کئی مؤرخین اس طرح کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں :’’ہندو ریاست بھارستان جبکہ مسلم پاکستان ہوگی‘‘ ،یہ تقسیم دو قومی نظریہ کے مطابق ہوئی ۔
ان دنوں میں شکر گڑھ میں واقع اپنے قصبے چک قاضیاں میں تھا۔ اس وقت اعلان ہوا کہ چھ جون کو قائداعظم آل انڈیا ریڈیو پر خطاب فرمائیں گے۔ وہاں ہماری کافی بڑی حویلی تھی۔اس وقت ریڈیو ہمارے ہی گھر ہوتا تھا۔ وہ ریڈیو بیٹری سے چلتا تھا اور اس سے’کَھڑ کَھڑ‘ کی آواز بہت آیا کرتی تھی۔چنانچہ چھ جون کوسارے گاؤں کے لوگ وہاں جمع ہوگئے۔مجھے یاد ہے کہ وہ سب لوگ ریڈیو کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔کبھی وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا بیان آرہا تھا تو کبھی پنڈ ت نہرو کا۔ اس دوران لوگوں میں گپ شپ بھی چل رہی تھی اورحقوں کی گڑگڑاہٹ کے ساتھ ساتھ وقفے وقفے سے قہقہے بھی بلند ہو رہے تھے۔اتنے میں اعلان ہوا کہ محمد علی جناح تقریرکرنے والے ہیں ۔ یہ سننا تھا کہ مجمع پر خاموشی کی ایک چادر سی تن گئی۔حقوں کی گڑگڑاہٹ بند ہوگئی۔سب لوگ ریڈیو کی جانب یوں دیکھ رہے تھے گویا کہ وہ قائداعظم کی جانب دیکھ رہے ہوں۔انگریزی زبان میں قائداعظم کی گفتگو شروع ہوئی۔میں نے اس مجمع پر نگاہ ڈالی تو اندازہ ہواکہ90 فی صد سے زیادہ افراد میں سے کوئی بھی پڑھا لکھا نہیں تھا۔چند لوگ تھے جو تھوڑے بہت پڑھے لکھے تھے ، وہ وہی لوگ تھے جو ہمیں مڈل اسکول تک پڑھایا کرتے تھے۔قائداعظم اہلِ زبان کی طرح انگریزی بولتے تھے۔ وہ تقریر کرتے رہے،سمجھ کسی کو نہیں آتی تھی ، لیکن سب خاموشی سے بیٹھے سن رہے تھے۔آخر میں صرف ایک لفظ کی سمجھ میں آئی،پتا نہیں کیسے قائداعظم کو خیال آگیا تو انہوں نے کہا ’’پاکستان زندہ باد‘‘۔ یہ سننا تھا کہ وہاں موجود سب لوگ ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے لگانے لگے۔یہ پاکستان بنتے وقت کی کیفیت تھی۔ میں اس وقت شاید نویں جماعت میں تھا اور ان کی تقریر مجھے کسی قدر سمجھ میں آرہی تھی۔
تین جون کا واقعہ تو ہو گیا لیکن ہمارے علاقے کے متعلق شکوک وشبہات پیدا ہو گئے کہ یہ پاکستان میں شامل ہوگا یا پھر بھارت کا حصہ بنے گا ۔گورداسپور ضلع کے متعلق اس وقت جھگڑے پیدا کر دیے گئے ۔ گورداس پور میں اکثریت مسلمانوں ہی کی تھی ۔ اس کی تین تحصلیں ماؤنٹ بیٹن کی سازش ، ریڈ کلف کی بے ایمانی اورنہرو کی چالاکی سے بھارت کو دے دی گئیں۔جب تک یہ اعلان نہیں ہو گیا کہ ہماری تحصیل پاکستان میں شامل ہوگی ، خطرات منڈلا رہے تھے۔ جتھے اُن(ہندوؤں) کے بھی نکل رہے تھے اور ہمارے بھی۔سیکیورٹی فورسز کہیں دکھائی نہیں دیتی تھیں۔یوں محسوس ہوتا تھا کہ تاریخ نے ہمیں اکیلا چھوڑ دیا ہے ۔ عوام سوٹیاں اورکلہاڑیاں لے کرراتوں کو پہرے بھی دیتے تھے،نعرے بھی مارتے رہتے تھے ۔ ہر دم اچانک حملے کا خطرہ رہتا تھا لیکن جب یہ خبر آگئی کہ یہ علاقہ پاکستان میں شامل ہے تو اطمینان کی کیفیت پیدا ہوگئی۔
اس کے کچھ عرصے بعد پاکستان بن گیا ۔ میں نے اور میرے کزن محمودالحسن نے فیصلہ کیا کہ لاہور چل کر دیکھتے ہیں کہ وہاں کی کیفیت کیا ہے۔وہاں ایک ٹرین چلا کرتی تھی جو بعد میں بند کر دی گئی۔ہمارے قریب نور کوٹ کااسٹیشن تھا، وہاں سے ہم ٹرین پر سوار ہوئے اور لاہور کی طرف روانہ ہوئے۔نارووال پہنچ کر یہ ٹرین سیالکوٹ کی طرف مڑ جاتی تھی،اور جن لوگوں نے لاہور جانا ہو، وہ گورداس پور سے آنے والی ٹرین کے ذریعے لاہور جاتے تھے۔ چنانچہ ہمیں ناروال اتار دیا گیا ۔ گورداس پور سے آنے و الی ٹرین مسافروں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی ۔ اندر کیا تھا ،کچھ پتا نہیں چل رہا تھا ۔ بڑی مشکل سے ہم نے پائیدان پر پاؤں ٹِکا کر، ڈبے کو پکڑ کر سفرشروع کیا ۔اس وقت اندر سے بڑی عجیب و غریب قسم کی بُوبھی آرہی تھی ۔وہ پسینوں اور خون کی بُوتھی۔ آہ وبُکا کی آوازیں بھی آرہی تھیں۔ بہرحال اسی طرح لٹکے لٹکے ہم شاہدرہ پہنچ گئے۔ہمارے نوجوان مہاجر ساتھی ٹرین کی چھتوں پر تھے ۔انہوں نے ڈبوں میں بزرگوں اور زخمیوں کے لیے جگہ چھوڑ دی ہوئی تھی ۔شاہدرہ اسٹیشن پر پاکستان کا جھنڈا لٹکا ہوا تھا۔جیسے ہی نوجوانوں نے پاکستان کا جھنڈا دیکھا تو وہ کھڑے ہوگئے اور پاکستان کے نعرے لگانے لگے۔اسٹیشن پر پیدل افرادکے لیے بنے ہوئے پُلوں کی اونچائی ذرا کم تھی ۔نوجوانوں کے قد لمبے تھے اور اوپرفاصلہ کم تھا۔چنانچہ ٹرین کے آگے کے ڈبوں پر کھڑے کئی نوجوان اس پُل سے ٹکر ا کر گِر پڑے اور جو بھی گِرتا، شہید ہوجاتا۔ہمارا ڈبہ جب رکتے رکتے پلیٹ فارم پر پہنچا تو ہم نے دیکھا کہ گرنے والے کچھ نوجوان وہاں نوکدار سلاخوں میں لٹکے ہوئے تھے۔کوئی نہیں جانتا تھا کہ کیا ہوا۔بہر حال ہم لاہور پہنچ گئے لیکن ہم نے یہ عجیب وغریب سفر دیکھا۔
ہم اٹھارہ اگست کے کچھ عرصہ بعد لاہورکے لیے اس سفر پر روانہ ہوئے تھے۔ وہاں ہم نے ایک اور عجیب وغریب منظر دیکھا ۔ لوگ نہ جانے کیا کیا چھوڑ کر آئے تھے پیچھے ، بہت سوں کی اولادیں رہ گئیں تھی، کسی کے گھر ، کسی کے خاندان ، لیکن وہ سب ٹرین سے اتر کر سرزمین پاکستان پر سجدے کر رہے تھے۔ آج اگر ہم تصور کریں تو کوئی بھی خوشی کا سماں ہم ذہن میں نہیں لاسکتے۔ لٹ پٹ کے ، عصمتیں گنوا کر ، خون آلود حالت میں ، پسینوں میں ڈوبے ہوئے ،کسی کو قے آرہی ہے، لیکن سب لوگ سجدوں میں پڑے ہوئے ہیں۔جو بھی اترتا پہلے سجدہ کرتا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ۔ اس فضاء اور ماحول کو ذہن میں رکھ کر میں کہتا ہوں کہ پاکستان خون کے دریا کو پار کر کے بنا ہے ۔
آپ نے بتایا کہ قائداعظم انگریزی میں تقریرکرتے تھے،لیکن اس کے باوجود سب لوگ ہمہ تن گوش ہوکر سنتے تھے ۔اس کَشش کی وجہ کیا تھی؟
یہ مسیحا والی بات ہوتی ہے۔جب مسیحا بولے تو اس کا بولنا ہی انہیں تمام پیغام دے دیتا ہے۔بڑی خوبصورت بات کشمیر کے جج جسٹس (ر) محمد یوسف صراف صاحب نے لکھی کہ انہوں نے مجمعے میں سے ایک شخص سے پوچھا کہ کہاں سے آئے ہیں ۔اس نے دور دراز کے کسی گاؤں کا ذکر کیا ۔ جسٹس صراف صاحب نے پوچھا اس سفر میں کتنا عرصہ لگا ؟ اس نے کہا دودن لگے ۔پوچھا آگے کتنا وقت لگے گا؟ انہوں نے جواب دیا یہی کوئی دو تین دن۔ انہوں نے پوچھا کہ انگریزی تقریرآپ کو سمجھ میں آئی؟ جواب ملا کہ نہیں آئی۔ پوچھا پھر آپ نے نعرے کیوں لگائے ؟ اس شخص نے دلچسپ جواب دیا کہ ہم تو یہ دیکھنے آئے تھے کہ ہمارا قائد انگریزوں سے ان کی زبان میں کس طرح بولتا ہے۔
قائداعظم سے متعلق ایک چھوٹا سا واقعہ میرا بھی ہے۔میں اس وقت گورنمنٹ کالج لاہور سے ایف ایس سی کر رہا تھا اور اس کے بعد میراارادہ انجینئرنگ کالج جانے کا تھا ۔چنانچہ نمبر اچھے آئے اور انجینئرنگ کالج میں داخلہ بھی مل گیا۔ان دنوں قائداعظم اسلامیہ کالج میں تشریف لائے تھے۔ہم گورنمنٹ کالج کے کچھ طلبہ نے فیصلہ کیا کہ ہم قائداعظم کی تقریر سننے جائیں گے۔اس وقت یہ کالج کافی غیر سیاسی تھا لیکن ہم اپنی دُھن کے پکے تھے۔ہم چلے گئے اور جیسا کہ طالب علم کرتے ہیں ،ہم گُھس بیٹھ کر اگلی صفوں میں پہنچ گئے۔ہم نے وہاں قائداعظم کوباتیں کرتے سنا ۔بات سمجھ میں بھی آرہی تھی کیونکہ کالج میں ہونے کی وجہ سے ہم انگریزی کی خاصی سوجھ بوجھ رکھتے تھے۔اسی دن میں نے فیصلہ کیا کہ اب میں انجینئر نہیں بنوں گا ، بلکہ وکالت کروں گا۔ میں یہ کہوں گا کہ آپ (قائداعظم کی انگریزی تقریریں ہمہ تن گوش ہو کر سننے والے)ان دیہاتیوں کو کیا کہیں گے جو بالکل صاف سلیٹ تھے،ان پر تو زیادہ اثر ہوا ہوگا۔یہ آزادی کے بعد کا واقعہ ہے ۔
عام خیال یہی ہے کہ مسلم لیگ نے پاکستان بنایا لیکن مسلمانوں کو جمع کرنے والی اس جماعت کے اندر بعد میں تقسیم در تقسیم کا عمل ایسا چلا کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔وجہ کیا ہے ؟
اس کا میں نے کافی تجزیہ کیا ہے لیکن یہاں مختصراً عرض کردیتاہوں۔جب پاکستان بنا تو میرے نزدیک آل انڈیا مسلم لیگ (اور بعد میں پاکستان مسلم لیگ) ابھی ایک جماعت نہیں بنی تھی ۔وہ ایک پلیٹ فارم تھا ۔ جماعت کی جو تنظیم اور مستقل ڈسپلن ہوتا ہے ،مسلم لیگ میں ابھی پیدا نہیں ہوا تھا۔قائداعظم کی ایک کشش تھی اور ایک رعب تھا ،جو نوابوں اور دوسرے لوگوں کو ہِلنے نہیں دیتا تھا ۔وہ جانتے تھے کہ پھرہماری کوئی جگہ نہ رہے گی لیکن جیسے ہی قائداعظم اس دنیا سے رخصت ہوئے تو اُن کے پَر پُرزے نکلنا شروع ہوگئے۔ایسے افراد کو ’کھوٹے سکے‘ کہا گیا۔بعض لوگوں نے کہا کہ تاریخ میں ایسے الفاظ نہیں ملتے۔اگر تاریخ میں ایسے الفاظ نہیں بھی ملتے،تو میرے نقطۂ نظر سے قائداعظم کے ذہن میں یہ الفاظ ضرور ہوئے ہوں گے۔مثال کے طور پر سکندر حیات ہی کو دیکھ لیجیے۔پاکستان بن چکا تھا لیکن وہ پنجاب کی قانون ساز اسمبلی میں فرماتے ہیں کہ ہمیں پاکستان نہیں چاہیے،ہمیں پانچ دریاؤں کی سرزمین پنجاب چاہیے۔شیر بنگال مولوی فضل الحق جس نے 1940ء کی قرارداد پیش کی اور اس کی تحریک میں شامل ہوئے،جب پاکستان بن گیا تو ان کو وہاں کی حکومت مل رہی تھی،اس وقت قائداعظم سے ان کے کچھ اختلافات ہوگئے تھے۔انہوں نے استعفا دیا اور ایک اور سیاسی پارٹی (جو پاکستان کے حق میں نہیں تھی)کے ساتھ مل کر وزارت اعلٰی کی جگہ لے لی۔سندھ کے جتنے بڑے بڑے لیڈر تھے،وہ اپنے اختیار میں کسی قسم کی کمی نہیں چاہتے تھے۔بلوچستان کے سرداروں کا بھی یہی حال تھا ۔رہا صوبہ سرحد تو وہاں تو اس وقت بھی عملاً کانگریس کی حکومت تھی۔قائداعظم ان چیزوں سے نمٹتے تو رہے لیکن اس دوران ان کی زندگی بھی اخیر وقت تک پہنچ گئی تھی،وہ بہت محنت کر بیٹھے تھے جس کی وجہ سے ان کے پھیپھڑے ختم ہوگئے تھے۔ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ یہ ایک مردہ جسم ہے جو چلتا پھرتا ہے۔ اس لیے مسلم لیگ کے ٹوٹنے کی ایک صورت تو یہ تھی ۔
دوسری بات یہ کہ مسلمان بڑا اناپرست واقع ہواہے۔ 1906ء کے بعد جب مسلم لیگ کے اندرقوت آنے لگی تو چھوٹی چھوٹی بات پر اختلاف کی وجہ سے اس میں گروپس بننا شروع ہوگئے تھے۔ سائمن کمیشن کا بائیکاٹ کرنا ہے یا نہیں،قائداعظم حامی تھے جبکہ سر شفیع مخالف۔ اس وقت سر شفیع نے الگ مسلم لیگ گروپ بنا لیا۔ اسی طرح ظفراللہ نے ایک سالانہ جلسے کی صدارت کرنا تھی،اس پر بھی شدید اختلاف ہوگیا۔ پھر ایک اورصاحب ہدایت اللہ نے اپنا الگ گروپ بنا لیا تھا۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ابھی پاکستان بنا نہیں تھا کہ مسلم لیگ میں ٹوٹ پھوٹ کی جینز(Genes) آ گئیں تھیں۔ٹوٹ پھوٹ گویا اس کے خمیر میں تھی ۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی ہمارے ملک کے زیادہ تر لیڈر جاگیردار تھے۔جاگیردار کبھی اپنے اختیارات کم نہیں کرنا چاہتا۔
میری ممتاز دولتانہ صاحب سے ملاقات ہوئی۔اس وقت تک دو تین مسلم لیگیں بن چکی تھیں ۔میں نے اُن سے پوچھا کہ میاں صاحب ! آپ تو بڑے عرصے سے مسلم لیگ سے وابستہ رہے ہیں ، بتائیے کہ مسلم لیگ میں ٹوٹ پھوٹ کیوں ہوتی ہے؟انہوں نے کہا کہ ’’یہ تو ہوتی ہے اور ہوتی رہے گی مگر بہتر یہ ہے کہ مسلم لیگ کے نام پر ایک قانون بنا دیا جائے کہ کوئی پارٹی اس نام سے نہیں آئے گی ۔نام میں ابھی بھی بڑی کشش ہے ۔ لوگ اس پارٹی کو توڑنے کے بعد اس کشش کا فائدہ اٹھاتے ہیں بلکہ کئی مہم جُو(adventurers) بھی آ کر اس سے فائدہ اٹھائیں گے‘‘ پھر بعد میں ایک وقت ایسا آیا کہ اتنی زیادہ مسلم لیگیں بن گئیں کہ اے بی سی ڈی بھی ختم ہو گئی (قہقہہ لگاتے ہوئے)
پاکستان میں جمہوریت ناتواں ہی رہتی ہے اور شروع سے یہی کیا جاتا رہا ہے کہ ’ملک نازک دور سے گزر رہا ہے‘ ، بنیادی مسئلہ کہاں ہے؟
اس کے زیادہ گہرے تجزیے کی ضرورت نہیں ہے۔سیاسی پارٹی کے بلڈنگ بلاکس کیا ہوتے ہیں، اس پر غور کرنا چاہیے۔جب ان پارٹیوں کی بنیادیں ہی کمزور ہوں گی تو جمہوریت کیسے پروان چڑھے گی۔ اس وقت کون سی سیاسی جماعت ہے جو (صحیح معنوں میں)سیاسی جماعت بن سکی ، قائداعظم کے زمانے میں (مسلم لیگ)ایک پلیٹ فارم تو بن گیا،لیکن میرے تجزیے کے مطابق ابھی جماعت وہ بھی نہیں بنی تھی۔یہ میرا تجزیہ ہے ،مجھے معلوم ہے مسلم لیگی مجھ پر اعتراض کریں گے لیکن میں دلائل اور منطق کی بنیاد پر تجزیہ کر رہا ہوں ، یہ میری ضد نہیں ہے۔اس کے بعد جتنی بھی جماعتیں بنیں،ان کامحور شخصیات تھیں۔ایک شخص کے نام پر سیاسی جماعتیں چلتی رہیں۔سیاسی پارٹی وہ ہوتی ہے جو عوام تک پہنچتی ہے۔عوام سے طاقت لے کر جمہوریت تقویت پاتی ہے۔یہاں ایک شخص آتا ہے کہ میں نے حکومت کرنی ہے اور اپنی پارٹی بنا لیتا ہے ۔جب تک پارٹیوں کا نظام درست نہیں ہوگااور پارٹیوں میں وراثت کا خاتمہ نہیں ہوگا،اس وقت تک آپ کی جمہوریت درست نہیں ہو سکتی۔
پاکستان کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ یا غیرسیاسی قوتوں کی مداخلت کی بہت شکایت کی جاتی ہے اوراس کے واضح شواہد بھی ہیں،کیا یہ جمہوریت کو کمزور کرنے کا سبب نہیں؟
میں بالکل بھی ان(غیر جمہوری مداخلت کاروں)کی تعریف کرنے کے لییتیار نہیں۔ ہاں! ان کی مجبوری کا ذکرکر سکتا ہوں ۔جب جمہوریت کمزورہوتی ہے تو اسٹیبشلمنٹ مضبوط ہوجاتی ہے۔اگر ان دونوں میں سے کوئی مضبوط نہ ہو تو ریاست ختم ہوجاتی ہے۔سول حکومت اگر اپنے اختیارات فوج کو دینا شروع کر دے،مطالبہ کرے کہ گھوسٹ اسکول فوج تلاش کرے، بجلی کے میٹرز کے غلط استعمال کی جانچ بھی فوج کرے، سیلاب آجائے تو متاثرین کی مدداور بحالی کا کام بھی فوج کرے،زلزلہ آئے تو بھی فوجی میدان میں اتریں، رائے شماری یامردم شماری بھی فوجی کریں،سمگلنگ کی روک تھام ،کراچی میں امن وامان پیدا کرنے کی کوشش کرنی ہے یا مجرموں کو پکڑنا ہے ،یہ سب فوجی کریں۔کون سا کام ہے جو حکومت کا ہے،اوروہ انہوں نے فوجیوں کو نہیں دیا ؟جب فوج ریاست میں وہ کام کرنے لگے ،جو دراصل عوام کی حکومت کا ہے تو سب سے پہلا اثر اس کے ذہن پر یہ ہوتا ہے کہ ’ہم ان(سویلین) کے مقابلے میں زیادہ Superior ہیں ۔ ہم تو ان کو اپنی لڑائی کے لیے نہیں بلاتے،ہم ان سے سینہ سپر ہو کرگولیاں کھانے کا مطالبہ نہیں کرتے۔ یہ ہمیں اپنے کام کے لیے بلاتے ہیں ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم زیادہ برتر ہیں ۔حکومت کا گُڈ گورننس نہ کر نا اور اپنے کاموں کو ٹھیکے پر دینا سب سے بڑی غلطی ہے۔ اس لیے میں اسٹیبلشمنٹ کی تعریف تو نہیں کرسکتا لیکن ان کی مجبوری کو جواز دے سکتا ہوں۔
آپ فوجی آمر جنرل ایوب خان کی کابینہ میں بطوروزیرقانون کام کر چکے ہیں۔ایوب خان کے دور میں مجموعی طور پر پاکستان کہاں کھڑا تھا؟
ایوب خان نے ڈکٹیٹر کی حیثیت سے کام شروع لیکن بالآخر انہیں اندازہ ہوگیا کہ صرف فوج کا سہارا کافی نہیں ہے۔اس طرح فوج خراب ہوجائے گی۔پھرانہوں نے سویلین کی جانب آنا شروع کیا۔ انہوں نے سب سے پہلے اقتصادیات کو اہمیت دی اور اس شعبے میں بہت کام کیا۔ اس دور میں انڈسٹری بڑھی،تربیلا ڈیم بنا، وارسک ڈیم بنا،دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل کیا(میرے خیال میں اب اس کا بُرا حال کر دیا گیاہے)،فو ج کو بہت منظم کیا۔آپ آج بھی فوجیوں سے پوچھیں کہ Father of Pak Army کون ہے؟تو زیادہ جواب یہی ملے گا کہ وہ جنرل ایوب خان ہے۔آج کل کے ماڈرن دور میں فوج وہ ہوتی ہے جس کے پاس جدیدہتھیار ہوں۔اسلحہ ، جہاز، ٹینک ، اینٹی ٹینک توپیں وغیرہ موجود ہوں ، ایوب خان کے دور میں فوج فوج تکینکی طور پر ایک ماڈل فوج بن گئی تھی، اس میں ہمت و جرأت آ گئی تھی ۔اس زمانے میں پاکستان کی بین الاقوامی دنیا میں بڑی عزت تھی۔پاکستان کے گرین پاسپورٹ پر ویزہ کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔اقتصادیات میں بڑی ترقی ہوئی لیکن کمی یہ ہوئی کہ سیاست میں بڑھوتری نہیں کی گئی۔ اگر اکنامک بیس(Base) بڑا ہو لیکن نیچے سیاسی بیس چھوٹا ہوتوتوازن بگڑ جاتا ہے ۔ دونوں بیس برابر ہونے چاہییں۔
آپ مشرقی پاکستان کے سانحے کے عینی شاہد ہیں،مشرقی پاکستان کے لوگ اس انتہائی اقدام کی جانب کیوں گئے؟ بنیادی محرکات کیا تھے ؟
ہم نے مشرقی پاکستان کے ساتھ آئینی اور سماجی طور پر اچھا سلوک نہیں کیا۔میں 1956ء سے شروع کرتا ہوں ، 1956ء کے آئین میں سینیٹ نہیں تھی،صرف ایک اسمبلی تھی۔مشرقی پاکستان کی آبادی زیادہ تھی ،ان کو ان کی آبادی کے مطابق اسمبلی میں نمائندگی نہیں دی گئی۔ وَن یونٹ بنا کر parity قائم کرنے کی کوشش کی گئی ۔ میں اس دور میں وزیر قانون کے طور پر پارلیمنٹ میں رہا ۔میری مشرقی پاکستان والوں سے ملاقاتیں ہوتیں تھی،وہ مجھے کہا کرتے تھے کہ ’’آپ تو ہمیں آئینی طور پر پورا انسان نہیں سمجھتے،ہم تو آپ کے برابر ہی نہیں ہیں۔‘‘ اس کے علاوہ یہ بھی درست ہے کہ ہمارے یہاں سے گئے ہوئے لوگ صحت اور شکل وصورت میں اچھے تھے ،ان کا معیار زندگی بھی بہتر تھا ۔ یہ لوگ مشرقی پاکستان والوں کے ساتھ کافی حد تک امتیاز برتتے تھے۔ مشرقی پاکستان کے لوگ سیاسی بصیرت اور سیاسی شعور میں ہم سے آگے تھے لیکن ان پر حکومت ہم کرتے تھے، جو ان کے مقابلے میں سیاسی بصیرت میں کم تھے ۔ان کے علاوہ بھی کچھ اور وجوہات بھی تھیں۔پاکستان بننے کے بعد پاکستان کے حصے میں آنے والے سول سروس کے افراد کی تعداد بہت تھوڑی تھی ،سول سروس میں ترقی کے لیے ایک تدریجی مرحلہ درپیش ہوتا ہے ۔اب لوگوں کو ترقی دینے میں دیر لگ رہی تھی۔اس تاخیر کی کچھ حقیقی وجوہات بھی تھیں اور کچھ محض خواہشات۔ یہ بات انہیں بری لگتی تھی اور انہیں اس سے تکلیف ہوتی تھی۔تاہم کسی حد تک کوشش کی بھی گئی، مثال کے طور پرجب میں وزیر قانون بنا تو مجھے کچھ ہدایات پہنچیں ،ان میں یہ تھا کہ آپ کوشش کریں کہ آپ کی وزرات میں زیادہ سے زیادہ جگہ مشرقی پاکستان کے لوگوں کو ملے ۔ میری وزارت میں اللہ کے فضل سے مشرقی پاکستان سے زیادہ لوگ کام کرتے تھے ، میرا لاء سیکریٹری ،ڈرافٹ مین،جائنٹ سیکریٹری سب مشرقی پاکستان سے تھے اور اسی طرح نیچے بھی۔لیکن شاید باقیوں نے یہ کوششیں نہیں کی ہوں گی ۔کچھ کردار بیرونی عناصر کا بھی تھا،بدقسمتی سے ان بیرونی عناصر کے ساتھ مشرقی پاکستان سے کچھ لوگ شامل ہو گئے۔اگرتلہ سازش کی میں نے فائل پڑھی ہے،سب تفصیل دیکھی ہے ۔ کس کس نے کا کیا کردار تھا ،کسے کہاں سے پیسے ملتے تھے وغیرہ وغیرہ ۔ ان کو کنٹرول کرنے کے لیے صرف قانون کی لاٹھی استعمال کی گئی اور گفتگو نہ کی جاسکی اور پھر ایوب خان بیمار ہوگئے۔ اس کے بعد معاملہ بگڑتا ہی چلا گیا اورکوئی اسے سنبھال نہیں سکا۔
سقوطِ ڈھاکہ کے بعد اس کے اسباب کی جانچ کے لیے حمود الرحمان کمیشن بنا تھا۔اس کی تفاصیل ابھی تک سامنے نہیں آسکیں۔اسے آشکار کرنے میں ہچکچاہٹ کیوں ہے؟
جب ملک دولخت ہوا تھا تو فوراً کمیشن بننا چاہیے تھا۔اس واقعے میں فوج کو بھی شکست ہوئی ،سیاست بھی مار کھا گئی اور عوام بھی شرمندہ ہوئے۔کمیشن میں ان سب معاملات کو پیش نظر رکھنا چاہیے تھا۔ فو ج نے کیا کیا، سیاست دان سے کہاں غلطی ہوئی ،عوام کا اس دوران کردار کیا تھا لیکن ذوالفقار بھٹو نے حمود الرحمان کمیشن بہت محدود بنایا ۔انہوں نے کمیشن صرف فوجیوں کی غلطیوں کی جانچ کے لیے بنایا،سیاست دانوں کو چھوڑ دیا۔شک پڑتا ہے کہ کیوں چھوڑا؟اس شک کو انہوں نے بہت آگے بڑھایا۔گویا وہ کمیشن ادھورا اور لنگڑا تھا ۔جہاں تک ان کے کمیشن بنانے کی بات ہے کہ تحقیقات ہونی چاہییں ،یہاں تک میں متفق ہوں،کمیشن بن گیا ،واہ واہ ہوگئی لیکن اس کمیشن کا کسی نے تجزیہ نہیں کیا،کسی نے کمیشن کا ٹی او آر نہیں دیکھا، سیاست دانوں نے بھی نظر انداز کیا،کچھ ملک ٹوٹنے کا صدمہ بھی تھا ، لیکن زندہ قوموں میں کچھ لوگ پریشانیوں کے باوجود حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کرتے ہیں ،ہمارے سیاست دان نہیں کر سکے ۔انہوں نے بھٹو صاحب سے نہیں کہا کہ وہ اس انکوائری میں سیاست دانوں اور حکومت کو بھی شامل کریں۔
آپ نے اپنی کتاب’’ڈکٹیٹر کون‘‘ میں بھٹو صاحب کا ذکر بطور ڈکٹیٹرکیا ہے،اس قدر سخت موقف کی بنیاد کیا ہے؟
میں نے ایوب خان سمیت اور بہت سوں کا ذکر کیاہے۔دیکھیں ڈکٹیٹر صرف فوجی نہیں ہوتا، ڈکٹیٹر کا مطلب ہے آمر۔ جو اپنی قوت کے بل پر بہت کچھ کرے ۔جب کوئی جمہوریت کا دعویٰ کرنے والا قائددُلائی کیمپ یعنی پاکستان کا گوانتاناموبے بنائے۔ نَتھ فورس بنائے جو عورتوں کو کنٹرول کرے، ایف ایس ایف بنائے جو اپنے مخالفوں کو برداشت نہ کر سکے،میں نے اپنی اس کتاب میں پہلے ڈکٹیٹر کی تعریف کی ہے اور پھر یہ سب ذکر کیا ہے۔جب میں نے دیکھا کہ بھٹو صاحب نے بھی ان میں سے بہت ساری باتیں کیں ہیں تو پھر میں انہیں بھی ڈکٹیٹر ہی کی صف میں شامل کرتاہوں۔
کچھ لوگ دلیل دیتے ہیں کہ جولائی 1977ء قومی اتحاد اور حکومت کے اختلافات اس حد تک پہنچ چکے تھے کہ فوج کی مداخلت کا جواز پیدا ہو گیا تھا، آپ اس فوجی مداخلت کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟
میں اس وقت مسلم لیگ اور پی این اے کا ممبر تھا۔اس وقت یہ شک پڑاانتخابات میں بہت زیادہ دھاندلی ہوئی ہے۔ بڑے بڑے لیڈروں کو بھی اس میں ہرا دیا گیا ہے ۔اس وقت سردار عبدالقیوم خان نکلے تھے کہ کسی نہ کسی طریقے سے مذاکرات کی راہ ہموار کی جائے۔بھٹو صاحب نے بھی ایک حل بتایا کہ وہ بڑے بڑے لیڈرز کے الیکشن کو قانون کے ذریعے منسوخ کرا دیں گے۔اس پر اتفاق نہیں ہوا کہ لوگ سمجھیں گے کہ لیڈروں نے اپنا کام نکال لیا۔ پھر بات چلی کہ آئینی ترمیم کی جائے۔اس آئینی ترمیم میں مجھے بھی شمولیت اختیار کرنی پڑی۔اسی عرصے میں اصغر خان صاحب نے فوج کے نام ایک خط لکھ دیا کہ وہ اقتدار سنبھال لے۔غرض کافی مسائل پیدا ہوگئے تھے۔اس سب کے باوجود بہت حد تک فیصلے ہوچکے تھے کہ اچانک بھٹو صاحب بیرون ملک دورے پر چلے گئے۔واپسی کا وقت بھی نہیں بتایا گیا تھا۔کہا یہ گیا کہ وہ طویل عرصے کے لیے گئے ہیں ۔کچھ لوگوں نے کہا کہ جب تقریباً فیصلہ ہو گیا ہے تو وہ دورے پر چلے گئے ہیں اور پھر اصغر خان کی فوج سے مداخلت کی درخواست ،اس طرح تلخی دوآتشہ ہو گئی تھی ۔بے اعتمادی بڑھ گئی تھی۔جب بے اعتمادی ایک خاص حد سے بڑھ جائے تو ہر شخص پر شک ہونے لگتا ہے، ہر اقدام مشکوک ٹھہرتا ہے۔اس وقت کچھ لوگ تو مایوس ہو چکے تھے لیکن نواب زادہ نصر اللہ کان صاحب کا خیال تھا کہ بے اعتمادی ختم ہو جائے گی ۔ وہ بڑے سمجھ دار آدمی تھے ۔ضیاء الحق کے ساتھیوں نے کہا کہ ان (قومی اتحاد اور حکومت)کے درمیان اس قدر بے اعتمادی پیدا ہوچکی ہے کہ اب بات سدھرتی دکھائی نہیں دے رہی۔استعفے بھی دے دیے گئے ہیں اور فوج بڑی بددِل ہیں۔پھر انہوں نے اس موقع پر ایڈونچر کیا(یا تشریف لے آئے کہہ لیجیے ) جیسا کہ بعد میں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں بہت ساری وجوہات اورواقعات کا ذکر کیا ہے کہ اس وجہ سے ان کے آنے کا جواز تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو کے ٹرائل اور مقدمے کے بارے میں ابھی تک سوال اٹھ رہے ہیں ۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ بھٹو کی پھانسی عدالتی قتل تھا؟
بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ درست نہیں تھا ۔لاہورہائی کورٹ جس نے فیصلہ کیا، اس کے بینچ کے سربراہ مولوی مشتاق کا بھٹو کے خلاف تعصب بہت واضح تھا۔ انہیں اس بینچ میں شامل ہونے سے انکار کر دینا چاہیے تھا ۔مقدمات کے دوران بھی پتا چلتا رہا کہ وہ بھٹو صاحب سے سختی سے سوالات پوچھتے تھے ۔ان کی بے عزتی کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اس کے بعد جب معاملہ سپریم کورٹ میں گیا ، وہاں ایسا کوئی تعصب تو نہیں دکھائی دیتا ،لیکن ایک اور بات پھر سامنے آئی ہے کہ بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ دینے والے سارے جج پنجاب کے تھے اور جو بریت کے حق میں تھے، وہ غیر پنجابی تھے ۔ اس تعصب کا ذکر بھی کیا جاتا ہے ۔(اس کو چھوڑتے ہوئے )میں کہوں گا کہ اس وقت ہائی کورٹ کی جانب سے سنائی گئی پھانسی کی سزا کو درست قرار دیا گیا ، یہ قانون کی ایسی تشریح تھی،جو قابل قبول نہیں تھی ۔شروع سے ہی کہا جاتا تھا کہ جو approval ہے اس کی شہادت پر یقین نہیں کیاجاتا جب تک کہ دواور مضبوط تائیدی شہادتیں موجود نہ ہوں۔یہاں سپریم کورٹ کے فُل بینچ کا فیصلہ ہوا کہ approval کی شہادت کو بھی مانا جاسکتا ہے اور اتنی معیاری سطح کی تائیداور توثیق کی ضرورت نہیں ۔یہ بہت غلط تشریح تھی۔اس تشریح کو ہمارے ملک میں کسی نے نہیں مانا اور اس کی بنیادپر ہونے والے فیصلے کو آج تک بطور مثال پیش نہیں کیا جاتا۔ باہر کے جوڈیشل ریویو کرنے والوں نے بھی اس کو نہیں مانا۔ چونکہ اس تشریح کے نتیجے میں ایک بہت بڑے آدمی اور بڑی کرشماتی شخصیت کو پھانسی چڑھنا پڑا ،اس لیے یہی کہا گیا کہ یہ جوڈیشل مرڈر ہے ۔
ضیاء الحق کے بارے میں بہت پہلے آپ نے پیش گوئی کس بنیاد پر کردی تھی کہ وہ مستقبل کے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ہوں گے؟
اٹک سازش کیس کے دوران میری ضیاء الحق سے ملاقات رہی ہے،جب ان فوجیوں کا کورٹ مارشل ہو رہا تھا جو بھٹو کے خلاف بغاوت کرنا چاہتے تھے۔اس زمانے میں بھٹو صاحب کے بارے میں حالات بدلتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔ ویسے ایک دن بیٹھے بیٹھے مجھ پر پاکستان کی تاریخ سے متعلق کچھ ویوز(Waves) کا اثر ہوا،تو میں نے یہ بات اپنی بیگم سے کہی، وہ ہم لوگوں کا ٹرائل دیکھنے کے لیے آئی ہوئی تھیں ۔ میں نے کہا: مستقبل کا چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر دیکھنا ہے؟کہنے لگیں کون ہے؟ میں نے کہا وہ دیکھیں سامنے بیٹھا ہوا ہے ۔کہنے لگیں ’’چھوڑو جی! وہ کیا کر سکتے ہیں ۔ ان کی تو شکل بھی دکھائی نہیں دیتی ۔‘‘ مجھے اس وقت ویسے خیال آیا کہ جو بھٹو کے مخالفین کوسزا دے گا وہ بہت جلدی ترقی کر جائے گا۔ ہو سکتا ہے اس کا اور کوئی پس منظر بھی ہو ۔ چند بار اٹک سے راولپنڈی کے درمیان ضیاء الحق کے ساتھ کار میں سفر کا موقع بھی ملا ۔وہ کہتے رہتے تھے کہ’’ ملک میں بڑی خرابی ہے ، یہ خرابیاں آسانی سے دور نہیں ہو سکیں گی۔حکومت کو سخت فیصلے کرنے ہوں گے ‘‘ اس انداز میں وہ حکومت کا نام لیا کرتے تھے۔ان سب باتوں کی وجہ سے ان کے بارے میں میرا مجموعی تأثر یہ بنا،میرے پاس اس پیش گوئی کی کوئی شہادت نہیں تھی ۔میں نے اپنی کتاب ’’اٹک سازش کیس‘‘ میں اس مقدمے کی تفصیل لکھی ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں آپ مسلم لیگ قاف کے پلیٹ فارم سے سینیٹ کے رکن رہے۔ان کے دورحکومت کا تجزیہ کیسے کرتے ہیں؟
پہلے تین سال درست۔ یعنی اس وقت تک جب تک کہ انہیں الیکشن کروانے کا حکم نہیں ہوا تھا ۔ وہ تین سال اچھے گزرے انہوں نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن بنایا، اور بھی بہت ساری اچھی چیزیں کیں ۔ اس کے بعد سیاست میں آ گئے تو بگڑنا شروع کر دیا۔ الیکشن تو کرا دیے لیکن اس پر اپنا آئین مسلط کر دیا ۔اپنی مرضی کی ترامیم کیں۔اس پر یقینی طور پر سیاست دانوں میں مخالفت پیدا ہوئی۔ پارلیمنٹ ڈس فنکشنل ہو گئی ۔مجھے مسلم لیگ قاف کی طرف سے شامل کیا گیا کہ آپ اور باقی ساتھی مل کر اس پر مذاکرات کر لیں۔مذاکرات کے بعد بالاخر وہ مقام آ گیا کہ ہم ایک فیصلے پر پہنچنے کے قابل ہو گئے۔فیصلہ بھی ہو گیا اور بہت سے قوانین میں ترمیم بھی ہو گئی ،جہاں تک مشرف کی وردی کا معاملہ تھا توان سے کہا گیا کہ حتمی فیصلہ یہ ہے کہ آپ خود کو عوام کے سامنے پیش کریں اوراعلان کریں کہ میں وردی فلاں تاریخ کو اتاردوں گاتو پھر ہم پارلیمنٹ کو فنکشنل کر دیں گے ۔ انہوں نے پہلے ہم مذاکرات کاروں کے ساتھ وعدہ کیا ،ہم نے مختلف سیاسی پارٹیوں کو بتایا، کہ انہوں نے 31دسمبر کو وردی اتار دینے کا فیصلہ کیا ہے۔پھروہ وقت بھی آیا کہ کچھ لوگ راؤ سکندر اقبال کے ساتھ مشرف سے ملنے گئے اوران سے کہا کہ آپ وردی نہ اتاریں۔ہماری پارٹی(مسلم لیگ قاف) نے زور وشور سے کہا کہ بالکل ہی نہ اتاریں۔میرے کان کھڑے ہوگئے۔ میں نے پہلے تو سینیٹ میں کہا کہ وردی اتارنا ان کا فرض بنتا ہے، اگر وردی اتار دیں گے تو یہ آئندہ قائد بن کر بھی آسکتے ہیں۔ نہیں اتاریں گے تو نقصان میں رہیں گے ۔ سینیٹ میں بڑی واہ واہ ہوگئی لیکن مشرف کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ جب میں نے دیکھا کہ یہ بھی کافی نہیں ہے تو میں نے اخباروں کو انٹرویو دیے اوراپنی پارٹی میں کہا کہ آپ غلط فیصلہ کر رہے ہیں ، آپ ان کے وردری اتار دینے کا فیصلہ کریں ۔آپ سیاسی جماعت ہیں ۔اس پر ایک صاحب نے کہا کہ ہم سیاسی جماعت تو ہوں گے لیکن ہم مشرف ہی کے ماتحت تو بنے ہیں ۔انہیں کیسے چھوڑ دیں ،جو ان کا جی چاہتا ہے،ہم اس میں ان کا ساتھ دیں گے۔اسی لئے میں کہتا ہوں کہ پارٹیاں مضبوط کبھی نہیں ہوئیں۔ جب ضمیر کی آواز ہو کہ ووٹ نہیں دینا لیکن ووٹ دینا پڑے تو پھر وہ سیاسی جماعت نہیں رہتی ، مشرف نے یہ بات نہیں مانی ،نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں ملک بے عزت ہو کر چھوڑنا پڑا۔
آپ کو جون 2000ء میں حمید قدوائی کی وساطت سے مشرف کے عزائم (صدر رفیق تارڑ سے استعفا لینے وغیرہ) کا علم ہو گیا تھا، آپ نے کئی دن تک یہ بات مخفی کیوں رکھی؟
حمید قدوائی میرے اچھے خاندانی دوست ہیں ۔وہ مشرف کے بہت قریب تھے۔مجھے 12 جون کو پتا چل گیا لیکن اس بات کا ہماری جماعت میں کسی کو علم نہیں تھا۔اب میں اس بات کا عوام میں اعلان بھلاکیسے کرتا۔ مجھے تو سورس بتانا پڑتا ، جبکہ میں اپنے دوست کو اس میں شامل نہیں کرنا چاہتا تھا۔میں نے جب ان سے یہ بات سنی تو حمید قدوائی سے پوچھا کہ مشرف رفیق تارڑ کو کیوں ہٹائیں گے ؟ رفیق تارڑ صاحب آرام سے اپنا کام کر رہے ہیں تو انہوں نے دلیل اچھی دی تھی ۔قدوائی صاحب کہنے لگے کہ کیا آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے سارک کانفرنس میں جانا ہے ، اس کے لیے ہٹائیں گے ۔ میں نے وہ بات ایک کان سے سنی اور دوسرے سے نکال دی لیکن بات بعد میں سچ نکلی ۔ میں نے اس واقعے کا ذکر اپنی سینیٹر شپ کے دور کی یادداشتوں پر مبنی کتاب میں کیا ہے کہ ایک شخص کو تو علم تھا لیکن ساری سیاسی جماعتیں اس کے برعکس سوچ رہیں تھیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ابھی (سیاسی)شعور پیدا نہیں ہوا۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف کی پاناماکیس میں نااہلی کے بعد عوامی و قانونی حلقوں میں نئی بحث چلی ہے ، بہت سے لوگ اس کیس کو مولوی تمیز الدین کیس سے مشابہہ سمجھتے ہیں ۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ کمزور دکھائی دیتا ہے ، نیب ریفرنسز البتہ بالکل درست ہیں ۔ بعد میں تو سپریم کورٹ نے نظر ثانی کی اپیل بھی مسترد کر دی ہے۔اب تو اس کا فیصلہ مانناہی پڑے گا۔ایسا لگتا ہے کہ یہ فیصلہ دلیل سے آگے چلا گیاہے ۔
اب ذرا عدلیہ کے متعلق بات ہو جائے۔ فرمائیے کہ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کا کیا مطلب ہے اور آپ اس کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟
پی سی اوکو میں نے گلوٹین(Guillotine) کہا ہے ۔یعنی فرانس میں جو آلہ پھانسی دینے اور سرکو تن سے جدا کرنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔یہ پی سی او نہ جانے کس نے ایجاد کی ۔(ذرا توقف کے بعد ) مجھے ان کاپتا توہے، وہ اب مرحوم ہو چکے ہیں ،شریف الدین پیرزادہ) جس جس جج کی گردن پر پی سی او پڑا وہ عدلیہ سے وہ علیحدہ ہوگیا،کیوں کہ ان ججوں سے کہا گیا تھا کہ اگر آپ حلف نہیں اٹھائیں گے تو گلوٹین تیار ہے ۔ بہت سے عوامل تھے وہ کیا کرتے۔ یہ تو کافی عرصے بعد جرأت پیدا ہوئی۔ مشرف صاحب نے بھی جو پی سی او لگایا،اکثر ججوں نے اس کے تحت حلف نہیں اٹھایا، لیکن ہے یہ (حلف اٹھانا) بہت غلط بات ۔ ججوں کو ہٹانے کا صرف ایک ہی آئینی طریقہ ہے کہ اگر انہوں نے کوئی مِس کنڈکٹ کیا ہو تو جوڈیشل کمیشن اس کا فیصلہ کرے۔اس سے ہٹ کر کسی بھی نام خواہ وہ پی سی او ہو یا کوئی اور مقدس نام،ججز کو ہٹایا نہیں جاسکتا اور ہٹانا بھی نہیں چاہیے۔
مشرف دور میں عدلیہ بحالی کی تحریک کے دنوں میں کافی جوش وخروش دیکھا گیا تھا ، بعد میں اس تحریک پر سوال اٹھنے لگے ، آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے ؟
سول سوسائٹی کا ایک طبقہ پہلی دفعہ پیدا ہوا تھا۔ہماری سول سوسائٹی بڑی مردہ رہی ہے ،کسی بات پر ان کے اندر کوئی انقلابی کیفیت نہیں دیکھی گئی۔میں عدلیہ بحالی کی اس تحریک کو بڑے خوش آئند انداز میں دیکھتا ہوں کہ کم از کم سوسائٹی کے ایک حصے نے اپنی قوت آزمائی اور اس کے بہتر نتائج نکلے ۔لیکن وہ چونکہ ایک بہت ہی چھوٹا سا طبقہ ہے اس لیے وہ پوری سوسائٹی کی نمائندگی نہیں کرتا۔ سوشل میٖڈیا کے ذریعے اب کچھ تھوڑا بہت دکھائی دیتا ہے کہ عوام میں اب آگاہی اور اپنی قوت کو آزمانے کی خواہش پیدا ہو رہی ہے ۔اگر کسی ملک کی مضبوط ، فعال اور عقابی نظر رکھنے والی سول سوسائٹی نہ ہوتو اس ملک کے حالات آسانی سے درست نہیں ہوتے ۔
سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بارے میں لوگوں کی آراء مختلف ہیں۔ ان کے دور میں جوڈیشل ایکٹوازم بہت تھا۔آپ کی نظر میں کیا بطور چیف جسٹس وہ کامیاب رہے؟
انہوں نے شہرت تو بہت کمائی۔ان کو دو طریقوں سے اگر دیکھیں تو نتائج آپ کو مختلف ملیں گے۔بحیثیت جوڈیشل آفیسروہ اچھے جج تھے یا برے تو دکھائی دیتا ہے کہ وہ آئین کی بڑی غلط تشریح کرتے تھے۔دوسرے نقطۂ نظر سے دیکھیں تو ان کی تقرری آئین نے تو نہیں کی،وہ آئین کی تابعداری کیونکر کریں۔ وہ تو وکلاء صاحبان کی تحریک کے نتیجے میں واپس آئے تھے۔جو لوگ لے کر آتے ہیں ان کی بھی توبعد میں تسلی کرنی پڑتی ہے کہ دیکھیے! آپ مجھے لے کر آئے تو میں نے آپ کے لیے کیا کچھ کام کر دیے، وہاں انہوں نے بڑا اچھا کام کیا،جب آپ کسی کے سہارے سے آئیں گے تو ان کی سوچ کے مطابق آپ بہت ساری کارروائی کریں گے ۔ آپ کو بہرحال کرنی پڑتی ہے ۔ وہ بہت بڑا لیڈر ہوتا ہے جو اس موقع پرریورس (Reverse)کر سکتا ہے ۔ ان کے دور کا جوڈیشل ایکٹوازم بھی اسی لیے تھا کہ تسلی ہو سکے کہ آپ مجھے لے کر آئے ہیں، دیکھو میں نے آپ کے کتنے کام کر دیے ہیں ۔ میری نظر میں جوڈیشل ایکٹوازم اتنا زیادہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ اب تو اس کو روکنا چاہیے۔
آپ طویل عرصہ تک پیشۂ وکالت سے وابستہ رہے۔ اپنے شعبے کے کچھ ایسے لوگ تو ضرورہوں گے جنہیں آپ پسند کرتے ہیں؟
جو قحط الرجال باقی شعبوں میں پایا جاتا ہے وہ عدلیہ میں بھی ہے ۔اے کے بروہی فقیہہ (Jurist) تھے۔ان کی سوچ عام وکیلوں کی سوچ سے بہت بڑھ کر تھی۔منظور قادر صاحب فوجی مقدمات میں ایک ماہر تھے ۔ایم سلیم صاحب کے مقدمے تو کمال ہوتے تھے ۔وہ صرف ایک کتاب پینل کورٹ کی لے کر جاتے تھے لیکن کوئی مقدمہ ایسا نہیں ہوتا تھا، جس میں دلیل لے کر نہ آئیں۔شریف الدین پیرزادہ صاحب کے پاس مواد بہت زیادہ ہوتا تھا ،Articulation ان کی البتہ کمزور تھی ۔خواجہ حارث کے والد خواجہ سلطان بھی اچھے وکیل رہے ہیں۔تصدق حسین مسلم لیگ کے لیڈراورفوجداری کے بہت اچھے وکیل تھے۔چوہدری نذیر فوجداری کے اچھے وکیل تھے۔ان سب کی اپنی اپنی سپیشلائزیشن تھی۔
آپ نے اس طویل پیشہ وارانہ سفر میں بہت سے اہم مقدمات لڑے ہیں ۔ بطور خاص کن مقدموں کا ذکر کرنا چاہیں گے؟
ایک تو ڈاکٹر قدیر کا مقدمہ جو کہ بیرون ملک جا کر نئے قانون کے ذریعے لڑنا پڑا اور وہاں سے یہ سرٹیفکیٹ لے کر آیا کہ ’اگر ظفر صاحب نہ ہوتے تو ہم یہ مقدمہ نہ جیت سکتے۔‘ اس کے علاوہ بہت سے اہم مقدمات ہیں مصطفیٰ کھر کا کیس، پیر پگارا صاحب کی درخواستیں داخل کیں۔ نواب زادہ نصر اللہ خان کی طرف سے کیں ۔کشمیری حریت پسند رہنما امان اللہ خان کا مقدمہ بیلجئم جاکر جیتا،وہ بڑا کمال کا فیصلہ لکھا گیا ہے،ان کے بارے میں یہ فیصلہ ہونے والا تھا کہ انہیں کچھ عرصہ گرفتار رکھنے کے بعد ہندوستان کے حوالے کر دیا جائے گا۔اس وقت ایک بات میرے ذہن میںآئی اور میں نے پوچھا کہ بتائیے پاکستان ، بیلجیئم اورہندوستان کا معائدہ کہاں ہوا ہے؟میں نے دوسرا سوال اٹھایا کہ کیا کشمیر بھارت کا حصہ ہے؟معائدہ تو آپ کا بھارت کے ساتھ ہے۔بیلجئیم کا کشمیر (جو کہ متنازع علاقہ ہے اس) پر تو معائدہ نہیں ہو سکتا ۔اس سے بات صاف ہو گئی اور انہیں بری کر دیا گیا۔ ایس ایم ظفر اپنی قانون سے متعلق خدمات کے ضمن میں قا نون ضمانت (Bail)کی تشریح کروانے کا بھی ذکر کرتے ہیں ۔ان کے بقول اس تشریح کے مطابق آپ(ضمانت لینے والا) اب ایک مکمل آزاد آدمی ہیں اور اب (ضمانت حاصل کر لینے کے بعد)آپ کو ای سی ایل پر روکا نہیں جا سکتا ۔
***
87 سالہ ایس ایم ظفر کلاسیکی موسیقی کا خاص ذوق رکھتے ہیں۔معروف کلاسیکی گلوکارہ ملکہ پکھراج کے وہ داماد ہیں۔غزلیات زیادہ سنتے ہیں۔آوازوں کی پسندیدگی کے ضمن میں شمشاد بیگم ،بیگم اختر،استادمہدی حسن ،استادسلامت ، شوکت علی کانام لیتے ہیں۔ صوفیانہ کلام میں عابدہ پروین کا ذکر کرتے ہیں۔فلمیں بھی صرف کلاسیکل ہی دیکھتے ہیں ۔ہندوستان کی تقسیم سے قبل جب راج کپور اور دلیپ کمار کا شہرہ تھا، بہت سی فلمیں دیکھیں ۔فلم ’جگنو‘ ان کی حافظے میں آج بھی تازہ ہے۔کہتے ہیں کہ اگر تاریخ کا پہیہ الٹا گھوم جائے اور پھر کوئی کام کرنے کا موقع ملے تو میں پاکستان میں تعلیم کا عام کردوں گا۔نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ پڑھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
آج کل انگریزی زبان میں ’’پاکستان کی آئینی ، قانونی اور سماجی تاریخ کی شرحِ نو ‘‘ سے متعلق ایک کتاب پر کام کر رہے ہیں۔میں نے مشہور وکیل حامد خان کی ’ہسٹری آف جوڈیشری پاکستان ‘ کا ذکر کیا تو کہنے لگے ’’حامد خان نے اچھی کتاب لکھی ہے،لیکن اس میں فیصلوں پر زیادہ توجہ دی گئی ہے،تشریحات کم ہیں، اولاد میں تین بیٹے طارق ظفر، علی ظفر ، عاصم ظفر اور ایک بیٹی روشانے ظفرہیں۔ ایس ایم ظفر پاکستان کے مستقبل کے بارے میں کافی پر اعتماد ہیں ،کہتے ہیں :’’پاکستان آج پہلے کے مقابلے میں زیادہ پر اعتماد ہے ۔پاکستانیوں کویقین سا ہورہا ہے کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو رہے ہیں۔اب لوگ چاہتے ہیں کہ بین الاقوامی دنیا میں اپنا کردار ادا کریں،اس کی وجہ یہ ہے کہ اب آگاہی بہت بڑھ گئی ہے ۔اگر آگاہی آ جائے تو مسائل کا حل بھی ہونا شروع ہو جاتا ہے۔‘‘
بشکریہ : سنڈے میگزین روزنامہ 92 نیوز