سیاست اورسیاستدانوں سے نفرت؟

آپ کو یاد ہوگا کہ چند روز پہلے میں نے بڑے دکھی دل کےساتھ ن لیگ کے مفتاح اسماعیل کے حوالے سے شائع ہونے والی ایک خبر پر لکھتے ہوئے عرض کیا تھا کہ میرا دل نہیں مانتا لیکن تردید کا انتظار کرنے کے بعد کچھ لکھنے پر مجبور ہوں۔ مزید یہ کہ مفتاح کے بارےمیں میری رائے بہت مثبت ہے وغیرہ وغیرہ۔ کالم کی اشاعت کے بعد بھی میرے دل پر ایک بوجھ سا تھا جو بیرسٹر بابر ستار کی ایک فون کال نے اتار دیا۔ بابر ستار ہیوی ویٹ کالم نگار ہی نہیں ’’رپورٹ کارڈ‘‘میںمیرے ساتھی بھی ہیں۔ انہو ںنے جوحقائق بتائے، دل سے منوں بوجھ اتر گیا کہ مفتاح اسماعیل ویسے ہی ہیں جیسا میں نے سوچا تھا۔ تھینک یو بابر ستار! تھینک یو مفتاح اسماعیل ورنہ ET TU BRUTE? ہوتا۔اپنے ’’تھینک یو‘‘‘ سے برنارڈ شا یاد آئے جو کسی پارک میں واک کررہے تھے۔ خوبصورت دوشیزہ سے پر نظر پڑی، رُکے، تھوڑا مسکرائے اور کہا ’’تھینک یو‘‘ دوسرے چکر پر پھر وہی دوشیزہ دکھائی دی، پھر بولے ’’تھینک یو‘‘ تیسرے رائونڈ پر بھی یہی ہوا۔ ادھر وہ حسینہ پریشان کہ ’’بابا‘‘ جانا پہچانا سا ہے لیکن ہے کون جو بار بار مجھے ’’تھینک یو‘‘ بول رہا ہے۔ اگلے چکر تک لڑکی کو یاد آ گیا کہ اوئے یہ تو عظیم قلمکار برنارڈ شا ہے۔ چوتھے رائونڈ پر بھی جب شا نے شکریہ ادا کیا تو حسین لڑکی نے پوچھا ’’مسٹر شا! آپ بار بار کس بات پر مجھے ’’تھینک یو‘‘ بول رہے ہیں؟‘‘ "For being so beautiful” میرابھی دل کہتا تھاکہ مفتاح جیسا متوازن مہذب اس گندے کام میں ملوث نہیں ہوسکتا حالانکہ میرے بارےمیں عام تاثر یہ ہے کہ مجھے سیاست اور سیاستدانوں سے شدید نفرت ہے۔ہرگز نہیں ….. یہ بالکل بے بنیاد ہے۔ غیر منطقی ہے۔ مجھے کسی بھی جائز قانونی کام، پیشہ یا پیشہ ور سے نفرت نہیں۔ رزق حلال کھانے کمانے والا خاکروب بھی میرے لئے قابل صد احترام ہے اور منافق مبلغ اتنا ہی قابل نفرت بھی تو سیاست اورسیاستدانوں سے نفرت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو پھر مسئلہ کیا ہے؟’’مجھے اس نے توقع سے زیادہ مار ڈالا ہے‘‘….. یہ ہے اصل مسئلہ میرا۔درزی، دھوبی، موچی، نائی، انجینئر، ڈاکٹر، وکیل، گلوکار، موسیقار، کوئی فوجی، سول سرونٹ، مصور وغیرہ وغیرہ زیادہ سے زیادہ آپ کا، معاشرہ کا کیا بگاڑ لے گا؟ انجینئر دو نمبر ہوگا۔ عمارت گرجائے گی اور سینکڑوں لوگ مرجائیں گے۔ ڈاکٹر دونمبر ہوگا تو اس کے کیریئر میںزیادہ سے زیادہ کتنے لوگ ہلاک ہوں گے۔ گلوکار بے سرا ہوگا تو آپ اسے سنیں گے نہیں۔ مصور بونگا ہوگا تو اپنی موت مرجائے گا۔ جرنیل برا ہوگا تو جنگ ہار جائے گا، وکیل ماٹھا ہوگا مؤکل کو مروا دے گا علیٰ ہذالقیاس لیکن اگر سیاستدان دو نمبر، نااہل، عطائی، بے ایمان ہوگا تو آنے والی کئی نسلیں بھی کھا جائے گا۔ پیغمبروں کے بعد قوموں کےبنائو بگاڑ میں یہ صرف اورصرف سیاستدان ہے جس کا کردار فیصلہ کن ہوتا ہے۔ اس کے کئے نہ کئے کے اثرات نسل در نسل جاری رہتے ہیں اوروہ سوفیصد آپ کے ووٹ کی پیداوار ہوتا ہے۔سیاست کے ’’پیشے‘‘کا دوسرا پہلو بہت ہی انوکھا ہے۔ کوئی ہنرمند، کوئی پیشہ ور اپنے ’’ہنر‘‘اور ’’پیشہ‘‘ کے لئے عوام کامحتاج نہیں ہوتا سوائے سیاستدان کے جس کا اکلوتا ’’کلیم ٹو گلوری‘‘ صرف اور صرف عوام کی پشت پناہی ہوتا ہے سو اس کی ذمہ داری بھی بے پناہ، بے کراں، بے انداز، بے شمار اور ناقابل بیان ہوتا ہے۔ لاکھوں کروڑوں معصوم لوگ خود اپنا آپ، اپنی لاڈلی اولادیں رضاکارانہ طور پر اس کے حوالے کردیتے ہیں۔ یہ اپنے بچوں تک کا مقدر انہیں سونپ دیتے ہیں۔ یہ اپنی مائوں باپوں کے بڑھاپے، اپنے بیٹوں بیٹیوں کا مقدر ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں اور جب یہ دغابازی کرتا ہے، جمہوری ڈبل شاہ ثابت ہوتا ہے تو پھر وہی بات کہ…..’’مجھے اس نے توقع سے زیادہ مار ڈالا ہے‘‘جتنی بڑی توقع، اتنی ہی بڑی مایوسی اور اصولاً اتنا ہی بڑا غصہ اور بھیانک انتقام ان کا مقدر ہونا چاہئے۔ برسہا برس پہلے اسی ’’چوراہا‘‘ میں میرا تکیہ کلام بلکہ تکیہ کالم رہا کہ حکمرانو! کچھ اور نہیں تو عوام کے ساتھ بھوک ہی برابر بانٹ لو۔جو میں کر رہا ہوں اسے مقامی زبان میں ’’رنڈی رونا‘‘کہتے ہیں لیکن کچھ ہونا ہے یا نہیں؟ میرا کام ہے میں دیانتدار مالی کی طرح بھر بھر ’’مشکاں‘‘ ڈالتا رہوں، گوڈی کرتا رہوں، یہ ’’مالک‘‘ کی ذمہ داری ہے کہ پودے اگائے نہ اگائے، پھل پھول لگائے یا نہیں۔آخری بات کہ جس قسم کی سیاست اور سیاستدانوں سے مجھے نفرت ہے، وہ دراصل نہ سیاست ہے نہ سیاستدان ورنہ 70سال بعد بھی کیا ہمارا تمہارا پاکستان آج اس حال میں ہوتا؟ یہ نااہل چمپو چاٹ فوج کو بلیم کرتے ہیں تو غور کریں اگر یہ حضرت عمر ؓبن عبدالعزیز کیا، بابائے قوم کا عشر عشیر بھی ہوتے تو یہ نوبت کبھی نہ آتی لیکن یہ تو 70سال بعد بھی صرف ’’زرداری‘‘ ہیں یا ’’نوازشریف‘‘….. ’’سرے محل‘‘ ہیں یا ’’پاناما‘‘میں ہی برا ہوں جو ایسے موضوع چھیڑ بیٹھتا ہوں،اخباری کالم جن کا بوجھ ہی نہیں اٹھا سکتے لیکن یہ سوچ کر جھک مارنے سے باز نہیں آتا کہ عقل مندوںکے لئے اشارے ہی کافی ہوتے ہیں۔ اپنے ہی دو بھولے بسرے شعر؎خون پی لے گی مرا، اک دن بلوغت کی بلامجھ کو مری ہوش مندی کی سزا دی جائے گیکاٹ دی جائیں گی شاخیں ہر تناور پیڑ کیفصلِ تازہ اچھے بیجوں کی جلا دی جائے گیآئندہ کبھی ایسے سیاستدانوں کا ذکر کروں گا جن سے محبت احترام کے رشتے رہے کہ وہ سچ مچ سیاستدان تھے، بہروپئے نہیں لیکن یہاں تو سب گڈ مڈ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے