فحاشی بے حیائی کو کون روکے گا

چند روز قبل ایک سرکاری افسر کا فون آیا۔ کہنے لگے حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ فیملی کے ساتھ بیٹھ کر ڈرامے تو کیا خبریں تک نہیں دیکھی جا سکتی۔ کوئی پتا نہیں کس وقت اسکرین پر کیا چلا دیں۔ اشتہارات ہیں تو فحش ، ڈرامے ہیں تو اُن میں ہمارے دینی اور معاشرتی اقدار کو تار تار کیا جا رہا ہے، بے حیائی کو پھیلایا جائے، فیشن شو جن میں لباس سے زیادہ عریانیت پر زور ہوتا ہے اُس کے بغیر تو کوئی خبر مکمل نہیں ہوتی۔ سرکاری افسر مجھے کہنے لگے کہ اس بارے میں مجھے کچھ کرنا چاہیے۔ اُن کی اس بات نے جیسے میری دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔ میں نے انہیں کہا کہ مجھے تو اس معاملہ میں انتہائی مایوسی کا سامنا ہے۔ اتنی کوشش کی، کئی کالم لکھے، روشن خیال اینکرز اور کالم نگاروں کے طعنوں کا سامنا کیا متعلقہ اداروں ، سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں اور پارلیمنٹیرین سے بھی کئی بار بات کی۔ عمومی طور پر سب اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہاں میڈیا معاشرے میں تیزی سے فحاشی و عریانیت پھیلانے اور ہماری مذہبی و معاشرتی اقدار کی تباہی میں بہت آگے نکل چکا ہے۔ لیکن افسوس کہ اس برائی کو روکنے کیلئے کوئی کچھ کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ اس برائی کے خلاف بیان جاری کر دیئے جاتے ہیں، پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں قراردادیں بھی پاس کر دی جاتی ہیں، وزیر اعظم کی طرف سے پیمرا کو ہدایات بھی دے دی جاتی ہیں لیکن کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بے شرمی اور بے ہودگی کو ہر گزرتے دن کے ساتھ آہستہ آہستہ بڑھاوا دیا جا رہا ہے بالکل اسی انداز میں جیسے کسی کے جسم میں زہر کو غیر محسوس انداز میں اس طرح شامل کیا جائے کہ موت کے قریب پہنچنے پر ہی پتا چلے کہ یہاں تو زندگی ہی کے خاتمہ کا سامنا ہے اور اب اتنی دیر ہو چکی کہ جان بچانے کی کوئی تدبیر میسر نہیں ۔ ویسے تو ہم میں بحیثیت قوم انفرادی اور اجتماعی طور پر بہت سی خرابیاں پائی جاتی ہیں جن کی درستگی کیساتھ معاشرہ کی کردار سازی پر ریاست کے ساتھ ساتھ ہر فرد کو بہت کام کرنا پڑے گا۔ لیکن مغربی دنیا کے برعکس شرم و حیا ہمارے معاشرے کا وہ سرمایہ تھا جس پر ہمیں ہمیشہ فخر رہا اور جس نے ہمیں دوسروں سے نمایاں رکھا۔ معاشرے کی دوسری خرابیوں کو دور کرنے اور افراد کی کردار سازی میں اپنا کردار ادا کرنے کی بجائے ہمارے میڈیا نے ہمارے اس معاشرتی فخر اور اسلامی شعائر شرم و حیا کو ہی نشانہ پر رکھ لیا ہے۔ شرم و حیا کو ختم کرنے کے لیے فحاشی و عریانیت کا زہر اس قوم کے جسم میں پھیلایا جا رہا ہے ۔ جیسا کہ میں نے اوپر کہا کہ کوئی میڈیا کو اس ظلم سے روکنے کیلئے تیار نہیں۔ سب ڈرتے ہیں جیسے مافیا اور ڈان سے ڈرا جاتا ہے۔ ان حالات میں حکومت، پارلیمنٹ کو اس قوم اور ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کی دنیا و آخرت کی بقا کیلئے میڈیا کو آئین و قانون کے دائرہ میں رہ کر کام کرنے کا پابند بنانا ہو گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے