’نقیب اللہ محسود کا قتل’، راؤ انوار تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش

کراچی: ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نقیب اللہ محسود کے مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت پر بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش ہوگئے۔

خیال رہے کہ نقیب محسود کی ہلاکت کے بعد آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے 3 رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی تھی، جس کا سربراہ ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثناء اللہ عباسی کو بنایا گیا تھا جبکہ ڈی آئی جی جنوبی اور ڈی آئی جی شرقی بھی ٹیم کے ارکان میں شامل ہیں۔

کمیٹی کے سامنے پیشی کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو میں ایس ایس پی راؤ انوار کا کہنا تھا کہ پولیس میں اچھے کام کرنے والے افسران کو بدنام کرنے کی سازش کی جارہی اور کچھ دہشتگردوں کے آلہ کار سوشل میڈیا پر بے بنیاد مہم چلا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نقیب اللہ محسود دہشت گرد تھا اور میں اپنی بات پر قائم ہوں، پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے رہنما حلیم عادل شیخ کے خلاف مقدمات قائم کیے تھے اس پر وہ سیاسی جماعت میرے خلاف پروپیگنڈا کر رہی ہے۔

ایس ایس پی راؤ انوار کا کہنا تھا کہ ہلاک نقیب اللہ سچل پولیس کو مطلوط تھا جبکہ سچل تھانے میں اس کے خلاف دہشت گردی کی دفعہ کے تحت مقدمہ 281/2014 درج ہے۔

انہوں نے کہا کہ نقیب اللہ کا رینجرز کے ساتھ مقابلے میں ہلاک ہونے والے ملزم عابد مچھڑ سمیت دیگر دہشت گردوں کے ہمراہ پولیس سے مقابلہ ہوچکا ہے۔

راؤ انوار کا کہنا تھا کہ سچل تھانے میں 2014 کی رجسٹرڈ ایف آئی آر میں عابد مچھڑ، سیف الدین، ارشاد مسعود، مولوی یار محمد، نقیب اللہ مسعود اور دیگر 4 نامعلوم ملزمان نامزد تھے۔

انہوں نے کہا کہ فائرنگ کے تبادلے مین چار دہشتگرد ہلاک ہوگئے تھے اور یہ واقعہ سچل کے علاقے اصغر بنگلور میں ہوا تھا۔ ایس ایس پی کا کہنا تھا کہ جیل میں قید نقیب اللہ کا ساتھی قاری احسان نے دیگر ملزمان کے نام بھی پولیس کو بتائے تھے۔

راؤ انوار کا کہنا تھا کہ نقیب محسود کے خلاف پولیس مقابلہ، دھماکا خیز مواد اوردہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا اور اس حوالے سے تمام تفصیلات کمیٹی کو فراہم کردی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ نقیب اللہ محسود اغواء برائے تاوان میں بھی ملوث تھا، اس کیس میں گواہ بھی ہیں جو شناخت کریں گے۔

[pullquote]تحقیقات پر کوئی دباؤ برداشت نہیں کریں گے، ڈئی آئی جی شرقی[/pullquote]

دوسری جانب ڈی آئی جی شرقی سلطان خواجہ نے کہا تھا کہ نقیب اللہ محسود کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کے معاملے پر کی جانے والی تحقیقات پر کسی قسم کا دباؤ برداشت نہیں کیا جائے گا اور زیرو ٹالرنس کی بنیاد پر تحقیقات ہوں گی۔

ڈی آئی جی ایسٹ سلطان خواجہ کے مطابق تحقیقاتی کمیٹی 3 روز میں مکمل تحقیقات کے بعد رپورٹ آئی جی سندھ کو پیش کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ تحقیقات مکمل ہونے تک کوئی رائے نہیں دے سکتے تاہم یہ کھلی تحقیقات ہے اگر کوئی عینی شاہد بیان ریکارڈ کرانا چاہے تو کرا سکتا ہے۔

[pullquote]راؤ انوار کو پھانسی دینے کا مطالبہ[/pullquote]

ادھر نقیب اللہ محسود کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کے معاملے پر قومی اسمبلی میں بھی بات کی گئی۔

وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے ( فاٹا) سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی جمالدین نے کہا کہ ایس ایس پی راؤ انوار نقیب محسود کا قاتل ہے لہٰذا اسے پھانسی دی جائے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس کا یہ دعویٰ کے نقیب اللہ غیر شادی شدہ تھا بے بنیاد ہے کیونکہ نقیب کے دو بچے ہیں اور وہ بالکل بے گناہ تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ نقیب میرے گاؤں کا تھا اور وہ کراچی میں کاروبار کرتھا تھا جبکہ اسے ماورائے عدالت قتل کیا گیا، جس کی عدالتی تحقیقات کی جانی چاہیں۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں ایک اور رکن اسمبلی شاہ گل آفریدی نے بھی اس معاملے پر کہا نقیب اللہ محسود کے پاس وطن کارڈ تھا، جو فوج کی کلیرئنس کے بعد جاری کیا جاتا ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ قبائلیوں کےس ساتھ کراچی میں ہونے والے واقعات کی تفصیل دی جائے۔

[pullquote]نقیب اللہ کا قتل[/pullquote]

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو گزشتہ ہفتے ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے اس وقت الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔

اس واقعے کے بعد نقیب اللہ کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازع بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مقتول حقیقت میں ایک دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔

نقیب اللہ کے قریبی عزیز نے بتایا تھا کہ رواں ماہ کے آغاز میں نقیب اللہ کو سہراب گوٹھ پر واقع کپڑوں کی دکان سے سادہ لباس افراد مبینہ طور پر اٹھا کر لے گئے تھے جبکہ 13 جنوری کو پتہ چلا تھا کہ اسے مقابلے میں قتل کردیا گیا۔

انہوں نے بتایا تھا کہ مقتول اس سے قبل بلوچستان میں حب چوکی پر ایک پیٹرول پمپ پر کام کرتا تھا اور اس کے کسی عسکریت پسند گروپ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

[pullquote]قتل پر ردعمل اور نوٹس[/pullquote]

نقیب اللہ محسود کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت پر پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور وزیر داخلہ سندھ سہیل انوار سیال نے نوٹس لیا تھا اور واقعے کی تحقیقات کی ہدایت کی تھی۔

اس کے علاوہ نقیب کی ہلاکت کے بعد بڑی تعداد میں لوگوں نے فیس بک پر اپنی وال پر تعزیتی پیغام پوسٹ کیے اور نقیب اللہ کی تصاویر کو بھی شیئر کیا۔

عوام کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر پولیس کے جعلی مقابلوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور پولیس میں چھپی کالی بھیڑوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے