گلگت بلتستان کے لیے امید کی کرن

حسب معمول صبح صبح آفس پہنچا تو باس کوپہلے سے آ فس میں پا کر ایک دن قبلباس کی جانب سے ملنے والا ایک اسائمنٹ ذہن میں گھومنے لگا، جس کو مکمل کرنے کیلئے 24 گھنٹے کا الٹی میٹم ملا تھا کہ شاید اس اسائمنٹ کو مکمل کرنے کیلئے مزید ایمرجنسی نافذ ہو گئی ہو گی ،ان ہی سوچوں کے ساتھ سیٹ پر براجمان ہوا ہی چاہتا تھا کہ باس نے با آواز بلند اپنے کمرے میں حاضری کا حکم صادر فرمایاتو میرا شک یقین میں بدل گیا لیکن باس کی بات سننے کے بعد میرے سارے اندازے ہوا میں اڑ گئے،باس ایک نیا اسائنمنٹ گوش گزار کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ آفس بوائے کو بلا کر اچھی سی چائے کا بند وبست کیا جائے کچھ خاص مہمان آنے والے ہیں

ہمارے آفس بوائے کی داستان زندگی بھی اپنی جگہ ایک لمبی کہانی ہے اس کو بیان کرنے کیلئے ایک الگ کالم لکھنا پڑے گا صرف اتنا ضرور تعارف کرادوں کہ آپ اسے آ فس بوائے نہیں آفس مین کہہ سکتے ہیں اوپر سے موصوف کی توند بھی اپنی مثال آپ ہے،سونے پہ سہاگہ آفس بھی تیسرے فلور پر واقع ہونے کی وجہ سے آفس مین کو اترنے چڑھنے میں کا فی وقت درکار ہوتا ہے ،خیر سے آفس بوائے کو کام سمجھانے کے بعد دوبارہ اپنی سیٹ سنبھالی ہی تھی کہ باس کو تیزی کے ساتھ آفس سے باہر جاتے دیکھا کچھ ہی دیر میں ڈپٹی سپیکر گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی جناب جعفراللہ صاحب کو ساتھ لائے تو تب معلوم ہوا کہ خاص مہمان کون تھے،رسمی علیک سلیک کے بعد موقع کو غنیمت جان کر ایک عرصے سے ذہن میں سوار کئی سوالات ایک مرتبہ پھر سے اپنا بوجھ ظاہر کرنے لگے ،چائے نوش فرمانے کے ساتھ ساتھ ڈپٹی سپیکر سے بات چیت کا سلسلہ جاری رہا تا ہم موصوف کی مصروفیت کے باعث کئی سوال اپنی جگہ بدستور قائم و دائم ہیں ،البتہ گزشتہ دنوں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے قانون ساز اسمبلی کے وفد کی ملاقات اور اس میں ہونے والے اعلانات بارے میں سرسری بات چیت ضرور ہوئی

اس سلسلے میں میرے پاس جو خبر آئی تھی اس کے مطابق گلگت بلتستان کو قومی اسمبلی اور سینٹ میں 3 ۔3 سیٹوں کی نمائندگی دینے کا اعلان ہوا تھا لیکن ڈپٹی صاحب نے اس خبر کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کچھ اس طرح گویا ہوئے کہ وزیراعظم سے ہونے والی ملاقات میں کئی تجاویز زیر بحث آئیں جس کے مطابق کشمیر کو پنجاب اور گلگت بلتستان کو خیبر پختونخوا کے ساتھ ضم کیا جائے یا کوہستان اور گلگت بلتستان کو ملا کر ایک الگ صوبہ بنایا جائے لیکن حافظ حفیظ الرحمن کی سربراہی میں ملاقاتی وفد نے دونوں تجاویز کو یکسر مسترد کر تے ہوئے صرف گلگت بلتستان کو پانچواں صوبہ بنائے جانے پر زور دیا تاہم پانچواں صوبہ بنانے کیلئے پورا آئین تبدیل کرنا پڑتا تو ساتھ ہی یہ نقصان بھی تھا کہ وفاق سے ملنے والا فنڈ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہوتا کیونکہ آبادی کے اعتبار سے فنڈز ملتے ہیں اس وقت گلگت بلتستان کی کل آبادی 15 لاکھ کے لگ بھگ ہے اس تناسب سے کوئی ڈھائی ارب روپے مل جاتے جس سے صوبہ توکیا ایک چھوٹا قصبہ بھی نہیں چلایا جا سکتا تھا جبکہ صوبے کے اپنے کوئی وسائل بھی نہیں ہیں ایسے میں پانچواں صوبہ بنانا نقصان دہ ثابت ہوتا لہذا کثرت رائے سے صرف ایک ہی تجویز سامنے آئی کہ 18 ویں ترمیم کے بعد دیگر صوبوں کو ملنے والے اختیارات گلگت بلتستان کو بھی دیے جائیں جس سے ترقیاتی منصوبوں کو خطیر فنڈز بھی مل جائیں گے تو ساتھ ہی تمام وفاقی اداروں میں نمائندگی بھی مل جائے گی سوائے قومی اسمبلی اور سینٹ کے

ڈپٹی سپیکر کا کہنا تھا کہ پہلے ہمیں گلگت بلتستان کا شہری کہا اور لکھا جاتا تھا اب ہمیں بھی پا کستانی شہری کہا اور لکھا جائے گا ،اس سے پہلے گلگت بلتستان کا کو ئی بھی شہری سپریم کورٹ میں اپنی رٹ دائر کر سکتا تھا نہ ہی 17 گریڈکا کوئی آفیسر کسی دوسرے صوبے میں تعینات ہو سکتا تھا اب گلگت بلتستان کا کوئی بھی شہری ملک کے کسی بھی حصے میں قائم عدالتوں میں اپنی رٹ دائر کر سکتا ہے،کسی بھی صوبے میں تعیناتی یا تبادلہ کرواسکے گا اس سے پہلے ایڈیشنل سیکرٹری کی کوئی پوسٹ تھی نہ ہی سیکرٹری یا چیف سیکرٹری کی پوسٹ پر کوئی تعینات ہو سکتا تھا اس پراپوزل کے تحت یہ تمام مراعات و اختیارات جی بی کو ملیں گے،مختصر یہ کہ گلگت بلتستان کونسل کو اسمبلی کا درجہ مل جائے گا

اس اعلان کے بعد کچھ لوگ باالعموم جبکہ پیپلز پارٹی والے باالخصوص واویلا کر رہے ہیں کہ حالیہ حکومت عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے ایک نیا لولی پاپ دے رہی ہے،سوال یہ ہے کہ گزشتہ 5 سال تو پیپلز پارٹی کی حکو مت تھی کوئی ایک کام ایسا دیکھایا جائے جو علاقے کیلئے یا عوام کے اعلیٰ تر مفاد میں کیا گیا ہو ہا ں البتہ گندم پر ملنے والی سبسڈی کا خاتمہ اور ٹیکس کا نفاز ضرور کیا گیا تھا وہ بھی حفیظ الرحمن کی کاوشوں سے مسئلہ حل ہو گیا اس پر بھی چور مچائے شور کے مصداق پیپلز پارٹی نے عوامی ایکشن کمیٹی کے نام پر اپنی سیاست چمکانے کی کوشش کی ۔

خدارا ہوش کے ناخن لیں سر زمین بے آئین جو گزشتہ 70 سالوں سے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہی ہے اب اگر حفیظ الرحمن کی کوششوں سے تھوڑے ہی سہی حقوق مل رہے ہیں تو اس کو تنقید برائے تنقید کا نشانہ نہ بنایا جائے یہ وقت سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرنے یا کریڈٹ لینے کا نہیں بلکہ اتحاد اور بھائی چارے کی فضاء قائم کرنے کا ہے یہ وقت سیاسی اختلافات کے مقابلے کا نہیں بلکہ 70 سالوں سے اپنے حقوق کیلئے ترسنے والی قوم کے مستقبل کا سوال ہے ۔پیپلز پارٹی والے بھی ہم ہیں تو ن لیگ والے بھی ہم میں سے ہی ہیں یہاں کسی سیاسی پارٹی کی اہمیت اجاگر کرنا مقصود نہیں حقوق حفیظ الرحمن لائے یا مہدی شاہ یہ وقت ان سب باتوں کا نہیں بلکہ یک زبان ہو کر صرف اور صرف علاقے اور عوام کے مفاد کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کرنے کا ہے

جی بی کونسل سے قانون ساز کونسل پھر قانون ساز اسمبلی اور اب گلگت بلتستان اسمبلی بتدریج ہی سہی منزل کی جانب بڑھ رہے ہیں ہاں یہ ضرور ہے کہ ابھی منزل کافی دور ہے اگر منزل تک پہنچنا ہے تو سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈالنا ہو گا اتحاد اور بھائی چارے کی فضاء قائم کرنا ہو گی بصورت دیگر لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی کے مصداق پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے