پرندوں کی غائب ہوتی آوازیں:خیبرپختونخوا کے حیاتی تنوع کیلئے خطرہ

ضلع مردان میں پچاس سالہ بشیر خان اپنے گندم کی کھیت کے ایک کونےمیں کھڑا ہے اوربلبل (بلبلہ) ، کوئل (تورانکہ)، پدّی (چتئی ) ، (زیڑکہ ) ( توت خورکہ ) اور فاختاوں (کورکوڑوں) کی آوازوں کی کہانی سنارہا ہے۔

بشیر خان مردان شہر سے 5 کلومیٹر دور یونین کونسل بابینی میںُ پرکھوں سے زمیندارہے اُس نے اپنے علاقے کے اُن سبھی پرندوں کے نام ایک ایک کرکے بیان کیے اور کہا کہ آج سے پچیس سال پہلے یہ آوازیں یہاں موجود تھیں۔ اور جب تک یہ آوازیں موجود تھیں توہرکسان خوشحال تھا، پرندے کاشت کاروں کی فصلوں کو ضرر رساں کیڑے مکوڑوں اور حشرات سے محفوظ رکھتے تھے۔ اب یہاں کے سارے کسان زرعی ادویات استعمال کرتے ہیں جو صحت کے حوالے سے کیلئے فائدہ مند نہیں ہیں ۔

بشیر خان نے سبزیوں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ آج کل بینگن، ٹماٹر، بند گوبھی، پھول گوبھی ، اور بھنڈی پر کاشتکار زہریلی دوائیوں کا استعمال کرتے ہیں ۔ خاص طور پر بینگن اور ٹماٹر کے اندر پلنے والے کیڑے کو مارنے کیلئے زہریلی ادویات ان کی رگوں میں شامل ہوکر کیڑے کو مارتی ہے اور پھر جب ہم ایسی سبزی کو استعمال کرتے ہیں تو وہ ہماری صحت کیلئے لازماً خطرناک ہوں گی۔

بشیر خان نے ان آوازوں کی کہانیاں اپنے آباو اجداد سے سنی ہیں ، اُس نے بتایاکہ یہ سارے پرندے یہاں لوگوں کے ساتھ رہتے تھے، بعض کے گھونسلے تو لوگوں کے گھروں میں بھی ہوتے تھے۔ ا ور یہاں خصوصی طور پر خواتین کے نام بھی پرندوں کے ناموں پر رکھے جاتے تھے، لیکن اب وہ نام موجود ہیں اور نہ وہ آوازیں۔

ضلع مردان میں پرندوں اور دوسرے جانورں کو تحفظ دینے کیلئے ڈویژنل وائلڈلائف آفس سے بشیر خان کے فصلوں کے محافظ پرندوں کے بارے میں معلوم ہوا کہ دفتر کے پاس نہ تو مقامی پرندوں کے بارے میں کوئی ریکارڈ موجود ہے اور نہ کوئی تصویر۔

ڈویژنل وائلڈ لائف آفیسر اُس دن آفس میں موجود نہیں تھے ، آفس اسسٹنٹ محمد طارق نے پروگنیٹ کو بتایا کہ مردان میں آبادی بڑھنے اور ماحولیاتی تبدیلی سے مقامی پرندے تیزی کے ساتھ ختم ہو رہی ہیں۔ وائلڈلائف آفس کے ساتھ مقامی پرندوں کی تحفظ کے حوالے سے کوئی سکیم موجود نہیں ہے ، البتہ ڈویژنل آفس کے ساتھ 53 واچرز(نگران) دوسرے جانوروں اور پرندوں کے شکار پر نظر رکھتے ہیں۔

یاد رہے کہ ڈویژنل وائلڈ لائف آفس مردان سے جنگلی حیات کی شکار کے شوٹنگ لائسینس جاری ہوتے ہیں ، جس سے ادارہ کو ہر سال خطیر رقم ملتی ہے ۔

دفتر کے ریکارڈ کے مطابق صرف سال 2017 میں دفتر سے 462 شوٹنگ لائسینس جاری ہوئے ہیں ۔ جس سے مردان ڈویژنل آفس نے ایک سال میں ساڑھے 17 لاکھ روپے کمائے۔ یاد رہے کہ خیبر پختونخوا میں جنگلی حیات کے تحفظ کیلئے 18 وائلڈ لائف دفاتر موجود ہیں۔ کے پی وائلڈ لائف ڈیپارٹمینٹ کے معلومات کے مطابق صوبے کی آب ہوا پورے پاکستان کی نسبت پرندوں کے لئے زیادہ موزوں ہے۔

پاکستان میں 468 پرندوں کی اقسام میں 454 خیبر پختونخوا میں پائی جاتی ہیں۔ ڈویژنل وائلڈ لائف آفیسر نیاز خان نے بتایاکہ مردان سمیت مقامی پرندوں کے پورے صوبے سے غائب ہو نے کی وجہ ان کے مسکن کا خاتمہ ہے ۔ پھلوں کے باغات اور مقامی درخت جیسے نارنج، (شوا )شیشم،( توت) شہتوت، ( بیرا ) بیئر، ان پرندوں کے مسکن تھے ۔

بشیر خان سمیت ضلع مردان کے قریباً 48 ہزار زمیندار خاندانو ں کی فصلوں کی حفاظت کرنے والے پرندیں کہاں چلے گئے؟

کے پی میں کون کون سے اور کتنے مقامی پرندے غائب ہوئے ؟

اور جو باقی ہیں کیا وہ محفوظ ہیں؟

ان سوالوں کے جواب کوئی نہیں دے سکتا کیونکہ یہ معلومات متعلقہ ادارے وائلڈ لائف ڈیپارٹمینٹ کے پاس بھی موجود نہیں ہے ۔

یاد رہے کہ 2013 سے 2018 تک وائلڈ لائف ڈیپارٹمینٹ کو تقریبا1 ارب 31 لاکھ روپے ملے ہیں لیکن اس سارے فنڈ میں مقامی پرندوں کی تحفظ کیلئے کوئی اسکیم موجود نہیں ہے ۔ اور نہ ہی وائلڈ لائف ڈیپارٹمینٹ کے پاس مقامی پرندوں کا کوئی ریکا رڈ موجود ہے۔

برڈ لائف انٹرنیشنل جو دوسرے اداروں کے ساتھ پرندوں کی تحفظ پر کام کرتی ہے ، کی سال 2018 کی رپورٹ کے مطابق اب تک دنیا سے 200 پرندوں کی اقسام مکمل طور پر ختم ہو چکی ہیں۔

خیبر پختونخوا میں ورلڈ وائلڈ لائف کے کوارڈینیٹر ریسرچ سید کامران حسین نے بتایا کہ دنیا میں قدرتی وسائل کے غیر دانش مندانہ استعمال کی وجہ سے پوری دنیا میں بائیو ڈائیورسٹی کیلئے خطرہ ہے۔ جس کے اثرات کلائمیٹ چینج کی شکل میں پوری دنیا کو متاثر کر رہے ہیں، اقوام متحدہ نے بھی دنیا میں خوراک، زراعت ، حیاتی تنوع اور ماحولیاتی نظام کیلئے سب سے بڑا خطرہ کلائیمیٹ چینج کو قرار دیا ہے۔

کامران حسین نے مزید بتایا کہ بہت سے ایسے پرندے جو پانی کے ساتھ رہتے تھے ، ان کا مسکن بید کا درخت ( خرولہ) تھا جس کا استعمالا سپورٹس انڈسٹری میں زیادہ ہوتا ہے ، اب وہ درخت مردان اورچارسدہ میں غائب ہوچکے ہیں۔

یاد رہے کہ حیاتی تنوع کے تحفظ اور ماحولیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات کے خلاف اقدامات 2030 تک سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز کا حصہ بھی ہیں۔

اس کے علاوہ حیاتی تنوع کے تحفظ کے حوالے سے عالمی معاہدہ ”کنونشن آن بائیو لوجیکل ڈائيورسٹی (سی بی ڈی )” موجود ہے۔ دوسرے بہت سے ملکوں کے ساتھ پاکستان نے بھی یہ معاہدہ 1994 میں تسلیم کیا ہے۔

معاہدے کی رو سے تمام ممبر ممالک بائیو ڈائیورسٹی کی تحفظ کیلئے 10 سال تک اہداف مقرر کریں گے . پاکستان نے بھی اسی سلسلے میں 1999 میں بائیو ڈائیورسٹی ایکشن پلان تیار کیا تھا۔ پلان میں دوسرے اہداف کے ساتھ قدرتی وسائل کے دانش مندانہ استعمال اور حیاتی تنوع کے تحفظ کے حوالے سے لوگوں میں شعور پیدا کرنا شامل تھا۔

اس کے بعد 2011 میں پاکستان نے سی بی ڈی ایچی کنونشن 2020 کے ٹارگیٹس کو پورا کرنے کیلئے اہداف متعین کیے۔

خیبر پختونخوا میں بھی سال 2016 میں انٹر نیشنل این جی او (جی آئی ذی) کی مدد سے (خیبر پختونخوا بائیوڈائیورسٹی اسٹریٹیجی اینڈ ایکشن پلان) تیار کیا گیاجس میں ایچی کنونشن کے ٹارگیٹس کو پورا کرنے کے ساتھ سال 2025 تک بائیوڈاورسٹی کے تحفظ کیلئے اہداف رکھے گئے ہیں۔

خیبر پختونخوا بائیوڈائیورسٹی اسٹریٹیجی اینڈ ایکشن پلا ن میں بھی قدرتی وسائل کے دانش مندانہ استعمال اور حیاتی تنوع کی تحفظ کے حوالے عام لوگوں میں شعوراُ جاگر کرنا شامل ہے ۔

گزشتہ 20 سالوں میں حیاتیاتی نظام برقرار رکھنے کے حوالے سے تمام دعوے ،معاہدے اور اہداف کی پاسداری اپنی جگہ ، لیکن جو آوازیں اس نظام کو برقرار رکھنے کی ضمانت ہیں ، وہ آوازیں ضلع مردان کے یونین کونسل بابینی سے 25 سال ہوئے غائب ہو چکی ہے ۔ اب بشیر خان سمیت صوبے کے ہزاروں کاشت کاراپنی فصلوں کی محافظ آوازیں کھبی نہیں سن پائیں گے۔

[pullquote]آصف مہمند [/pullquote]

پشاور میں فری لانس صحافی ہیں اور پروگنیٹ ڈویلپمنٹ انشیٹو میں پارٹنر اور کونٹینٹ پروڈیوسر ہیں۔ یہ سٹوری پی ڈی آئی کی آڈیو ڈاکومینٹری پر مرکوز ہے جس کا لنک سٹوری کے ساتھ موجود ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے