جنرل کیانی کے جانشینوں کے لئے سبق

محترم حسن نثار سو فی صد درست فرماتے ہیں کہ اس قوم کا مسئلہ اقتصادیات نہیں، اخلاقیات ہے ۔ جانے والوں پر تبرا اور آنے والوں کو سجدہ، سیاسی قائدین تک کا وطیرہ بن جائے تو اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوسکتا ہے ۔یقین نہ آئے تو پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل کیانی کے خلاف عمران خان صاحب کے الزامات کو ملاحظہ کیجئے۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب جنرل اشفاق پرویز کیانی فوج کے سربراہ کے طور پر پاکستان کے سب سے طاقتور فرد تھے۔

ایک خفیہ ایجنسی کے سربراہ کے ذریعے پی ٹی آئی کی مدد کی خبریں چارسو عام تھیں ۔ میں عمران خان صاحب کے ساتھ ایک سفر کے دوران گپ شپ کررہا تھا۔ مخدوم جاوید ہاشمی اس کے گواہ ہیں ۔ عمران خان جنرل اشفاق پرویز کیانی اور ان کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا کی تعریفیں کر رہے تھے ۔ تب میں ان دونوں کی بعض پالیسیوں کا شدید ناقد تھا اور میں خان صاحب کو ان سے ہوشیار رہنے کا مشورہ دے رہا تھا لیکن عمران خان ان دونوں کی محبت میں ایسے گرفتار تھے کہ ان کے خلاف کوئی بات سننے کو تیار نہیں تھے ۔ جنرل پاشا ریٹائرڈ ہوگئے تو ان کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیرالاسلام نے لے لی لیکن چونکہ ابھی اشفاق کیانی ریٹائرڈ نہیں ہوئے تھے اس لئے خان صاحب انتخابات کے وقت تک جنرل کیانی سے کم وبیش اتنے متاثر تھے جتنے ہمارے استاداورعمران خان کے شیدائی ہارون الرشید صاحب متاثرتھے ۔

لیکن پھر ایک دن آیا کہ جنرل اشفاق کیانی ریٹائرڈ ہوگئے اور ظاہر ہے خان صاحب ریٹائرڈ ہوجانے والے خواہ جج ہوں یا جرنیل، کے ساتھ کبھی نہیں رہتے۔ چنانچہ انہوں نے نجی محفلوں میں یہ الزام لگانا شروع کردیا کہ جنرل کیانی کے کہنے پر فوج نے گزشتہ انتخابات میں انہیں ہروایا ہے ۔ہم جانتے ہیں کہ عموماً اس طرح کے الزامات آئی ایس آئی اور اس کے سربراہ پر لگائے جاتے ہیں اورزمینی حقیقت بھی یہ ہے کہ پاکستان میں فوج اگر سیاست پر اثرانداز ہونا چاہتی ہے تو آئی ایس آئی ہی کے ذریعے ہوتی ہے لیکن تب چونکہ جنرل ظہیرالاسلام ریٹائرڈ نہیں ہوئے تھے اور انتخابات کے دوران وہ ہی آئی ایس آئی کے سربراہ تھے ، اس لئے ان پر یا ان کے ادارے پر تو الزام نہیں لگایا جاسکتا تھا چنانچہ یہ کہانی تراشی گئی کہ ایم آئی کے ایک بریگیڈئر رانجھاکے ذریعے جنرل کیانی نے نوازشریف کے حق میں دھاندلی کروائی حالانکہ اس سے زیادہ لغو بات کوئی اور ہونہیں سکتی ۔

اندر سے باخبر لوگ جانتے ہیں کہ جنرل راحیل شریف کی جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ساتھ نہیں بنتی تھی ۔ بھائی پر الزامات کی وجہ سے جنرل راحیل شریف کا دور جنرل کیانی کے لئے ایک مشکل وقت تھا ۔ چنانچہ موقع غنیمت جان کر خان صاحب نے کھلے عام جنرل کیانی کے زیرکمان فوج پر دھاندلی کا الزام لگانا شروع کردیا۔ ایک سال قبل انہوں نے اپنے ترجمان نعیم الحق کے ذریعے ٹویٹ دلوا کر یہ الزام میڈیا میں لگاد یا لیکن پھر جب ردعمل سامنے آیا تو اس ٹویٹ کو بھی ڈیلیٹ کر لیا اور جنرل کیانی سے ذاتی طور پر رابطہ کرکے معذرت بھی کرلی گئی لیکن اب ایک بار پھر عمران خان نے جیو نیوز پر حامد میر کے ساتھ اپنے انٹرویو میں اس الزام کو دہرایا ۔لیکن سوال یہ ہے کہ اگر عمران خان صاحب کو واقعی یقین ہے کہ جنرل کیانی کے کہنے پر ایم آئی کے بریگیڈیئرنے دھاندلی کروا کر نواز شریف کو جتوادیا تو پھر دھاندلی کی تحقیقات کیلئے بنائے گئے عدالتی کمیشن کے روبرو انہوںنے اس پہلو کو کیوں نہیں اٹھایا ۔

حقیقت تو یہ ہے کہ کمیشن کے روبرو ان کی طرف سے کبھی آرمی یا ایم آئی کی مداخلت کا معاملہ سامنے نہیں لایا گیا ۔ پھر جب کمیشن نے نہ صرف ان کے دیگر الزامات کو مسترد کردیا بلکہ فوج یا ایم آئی کی طرف سے دھاندلی کی نہ تو مدعی نے بات کی اور نہ کمیشن کی رپورٹ میں اس کا ذکر موجود ہے تو اب دوبارہ اس الزام کے اعادے کا کیا اخلاقی جواز ہے اور کیاایسا کرنے والے شخص کو زیب دیتا ہے کہ وہ اخلاقیات کا درس دیتا پھرے ۔

سوال یہ ہے کہ جنرل کیانی کو میاں نوازشریف سے اور میاں نوازشریف کو جنرل کیانی سے کیا ہمدردی تھی ۔ جنرل کیانی ، جنرل پرویز مشرف کے دور میں ڈی جی آئی ایس آئی رہے تھے ۔ ان سے میاں نوازشریف کی کوئی میچ فکسنگ ممکن ہی نہیں تھی ۔ پھر سوال یہ ہے کہ اس عنایت کا جنرل کیانی کو کیا صلہ ملا ۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ گزشتہ انتخابات کے دوران جنرل کیانی کے بیٹے نے تحریک انصاف کو ووٹ دیا تھا جبکہ اسی طرح میں یہ بھی جانتا ہوں کہ وزیراعظم بننے کے بعد میاں نوازشریف جنرل کیانی کی ریٹائرمنٹ کا اس شدت سے انتظار کررہے تھے جس شدت کے ساتھ ایک روزہ دار شام کے وقت مغرب کی اذان کا کرتا ہے ۔

کیا پاکستانی فوج تحریک انصاف ہے کہ ایک صوبے میں اس کے لوگ کچھ اور دوسرے صوبے میں کچھ کرتے رہیں ۔ جنر ل کیانی فوج کے سربراہ تھے ۔ انہوں نے اگر پنجاب میں نوازشریف کے حق میں دھاندلی کروائی توپھر خیبرپختونخوا میں کیوں نہیں کروائی کیونکہ فاٹا اور خیبر پختونخوا میں تو فوج کا کنٹرول یا پھر انتخابات میں کردار پنجاب کی نسبت کئی گنا زیادہ تھا۔ سوات ان دنوں مکمل طور پر فوج کے کنٹرول میں تھا ۔ پھر وہاں کیوں مسلم لیگ (ن) کے امیرمقام جیسے مضبوط امیدوار ہار گئے اور پی ٹی آئی کے ایسے لوگ جیت گئے کہ جنہوں نے پہلے کبھی یونین کونسل کا الیکشن بھی نہیں جیتا تھا۔

پاکستان کی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے اسٹرکچر سے ادنیٰ درجے کی واقفیت رکھنے والا شخص بھی یہ جانتا ہے کہ کسی کو جتوانے یا ہروانے کا کام ایم آئی کے ایک بریگیڈئیر کے ذریعے ممکن ہی نہیں ۔ ایم آئی کے پاس اپنی فورس نہیںہوتی بلکہ وہ ریگولر فوج کو ہی استعمال کرتی ہے۔ یعنی ایم آئی کے بریگیڈئیر کو متعلقہ کورکمانڈر یا پھر متعلقہ جی او سی سے بات کرنی ہوگی ۔اب انتخابات کے دوران لاہور کے کورکماندر لیفٹیننٹ جنرل نوید زمان جبکہ منگلا کے لیفٹیننٹ جنرل طارق خان تھے ۔ نوید زمان صاحب کے خیالات سے میں زیادہ واقف نہیں لیکن جنرل طارق خان کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ وہ نہ صرف میاں نوازشریف کے شدید مخالف ہیں بلکہ وہ جنرل کیانی کے بھی زیادہ قریب نہیں تھے ۔ اس معاملے میں وہ اپنا موقف بھی بڑی صراحت کے ساتھ سامنے لاچکے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) جنرل طارق خان کے زیرکمانڈ علاقوں میں بھی جیتی تھی۔ اب کیا کوئی توقع کرسکتا ہے کہ جنرل طارق خان نے نوازشریف کے حق میں دھاندلی کی ہوگی یا پھر کیا جنرل طارق خان جیسے دبنگ کمانڈر کے ہوتے ہوئے ایم آئی کا ایک بریگیڈئیر ان کے زیرکمانڈ فوج کو نوازشریف کے حق میں استعمال کرسکتا تھا؟
بطور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے کردار کے بعض پہلوئوں اور ان کی بعض پالیسیوں کا میں شدید ناقد رہا۔

آج زیادہ احترام بھی اس لئے کرتا ہوں کہ ڈٹ کر ان کے دور میں ان کی پالیسیوں کے خلاف لکھتا اور بولتا رہا لیکن اس کے باوجود انہوں نے میرا گلا دبایا اور نہ زبان بند کرائی۔ وہ بہرحال بڑے ظرف والے آدمی تھے، اس لئے طاقت کے دنوں میں ظرف کا مظاہرہ کیا۔ 2مئی کے بعد جی ایچ کیو کی بریفنگ میں ان کو اتنی کھری کھری سنائیں کہ ان کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل پاشا صاحب کے ساتھ تلخی تک ہوگئی لیکن کسی ایجنسی سے پھینٹی لگوانے کی بجائے وہ اس سے بھی بڑھ کر عزت دیتے رہے۔ لیکن ایک بات سے ان کے دشمن بھی اتفاق کریں گے کہ جنرل کیانی نے سیاسی معاملات سے اپنے آپ اور فوج کو ہر ممکن حد تک دور رکھنے کی کوشش کی ۔مثلاً انہوں نے جنرل پرویز مشرف کے اصرار کے باوجود چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف بیان نہیں دیا۔

اسی طرح وہ 2008 کے انتخابات کے موقع پر آرمی چیف تھے اور جنرل پرویز مشرف نے پوری تیاری کی تھی کہ قاف لیگ جیتےلیکن یہ جنرل کیانی ہی تھے جنہوں نے فوج کو انتخابی عمل میں ملوث نہیں ہونے دیا اور نتیجتاً پیپلز پارٹی جیت جبکہ قاف لیگ ہار گئی ۔اس وجہ سے جنرل پرویز مشرف ان سے شدید ناراض بھی ہوئے۔ ہاں یہ غلطی انہوںنے ضرورکی کہ نوازشریف کو اقتدار سے روکنے کے لئے جب ایک خفیہ ادارے کے سربراہ پی ٹی آئی کے غبارے میں ہوا بھر رہے تھے تو جنرل کیانی نے ان کو اجازت دی یا پھر کم ازکم ان کو نہیں روکا۔ سوال یہ ہے کہ اگر جنرل کیانی نے میاں نوازشریف کے حق میں دھاندلی کروانی تھی تو پھر اپنی ماتحت ایجنسی کی طرف سے پی ٹی آئی کی سپورٹ سے آنکھیں کیوں بند کئے رکھیں؟۔

میں نے اس وقت بھی ان سے شکایت کی تھی اور آج بھی شواہد اور دلائل اپنے پاس رکھتا ہوں کہ جنرل کیانی کے دور میں ایک ایجنسی کی طرف سے عمران خان کو لیڈر اور پی ٹی آئی کو مقبول جماعت بنانے کے لئے بھرپور کوششیںہوئیں لیکن اس معاملے میں میرا اگر کوئی شک تھا بھی تو وہ اب دور ہوگیا۔ کیونکہ میاں نوازشریف کی طرح عمران خان کا ٹریک ریکارڈ بھی یہی ہے کہ وہ ہمیشہ اس شخص کے گریبان میں ہاتھ ڈالتا ہے جس نے ان پر کوئی احسان کیا ہو۔ چنانچہ مجھے یقین ہوگیا ہے کہ جنرل کیانی نے عمران خان پر ضرور مہربانی کی ہے ورنہ وہ آج ان پر حملہ آور نہ ہوتے۔ یہ ایک سبق ہے جنرل کیانی کے جانشینوں کے لئے۔ وہ چاہیں تو جنرل کیانی کے خلاف عمران خان کے من گھڑت الزامات سے سبق لے سکتے ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے