پاکستان میں غداری کی بحث کانیارُخ

پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لفٹینیٹ جنرل اسد درانی اور بھارتی خفیہ ادارے ریسرچ اینڈ اینالسز ونگ (را)کے سابق سربراہ امر جیت سنگھ دُلت کے مکالموں پر مبنی کتاب ’’دی سپائی کرانیکلز :را آئی ایس آئی اینڈ دی الیوژن آف پیس‘‘ رواں ہفتے میڈیا میں سب سے بڑا موضوع بنی رہی۔تین سو بیس صفحات پر مشتمل ’’سپائی کرانیکلز‘‘ نامی یہ کتاب مشہور اشاعتی ادارے ہارپر کولنزنے شائع کی ہے۔کتاب معروف بھارتی صحافی اور مصنف ادتیا سنہا نے ترتیب دی ہے۔ادتیا سنہا دونوں سابق سپائی ماسٹرز کے درمیان ہوئی ان ملاقاتوں میں موجود رہے اور مکالموں کی دوران سوالات پوچھ کر بحث کو آگے بڑھاتے رہے۔یہ ملاقاتیں مئی 2016سے نومبر2017 کے دوران استنبول ، بینکاک اور کھٹمنڈو میں ہوتی رہیں

۔اس کتاب میں لفٹینیٹ جنرل(ر)اسد درانی اور اے ایس دلت نے ماضی کے بہت سے حقائق بڑے دلچسپ مکالمے کی صورت میں بیان کیے ہیں ۔ اس کتاب میں کشمیر کی مسلح تحریک ، کشمیری سیاسی و مزاحمتی قیادت کے ساتھ دونوں متحارب ملکوں کی ایجنسیوں کے روابط ، مشہور جنگ کارگل (1999)کے محرکات اور نتائج ، پاکستان کے سابق آمرصدر پرویز مشرف اوراس وقت کے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے دور میں تنازع کشمیر کے حل کے سلسلے میں کی گئی پیش رفت ، کشمیری آزادی پسند لیڈر امان اللہ خان کا انوکھے انداز میں تذکرہ ، بلوچستان میں عسکریت پسندی سے جڑے امور، القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی اور ان تک امریکی ایجنسی کی رسائی،دونوں ممالک کے بعض سیاست دانوں پر کُٹیلے تبصرے،’’ڈیپ اسٹیٹ ‘‘کا کردار اور پاکستان میں قید بھارتی جاسوس کلبھوشن جادیو کے مستقبل سمیت کئی اہم موضوعات پر کی گئی گفتگو اور سوالوں کے جوابات نے ایک کثیرالجہت بحث کو جنم دے دیا ہے۔

دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس کتاب کی سافٹ کاپی(پی ڈی ایف فارمیٹ میں) بہت تیزی کے ساتھ واٹس ایپ کے ذریعے وائرل ہوئی۔اس سے قبل اس طرح کی تیزی پاکستان میں دوشہریوں کو قتل کرنے والے امریکی ”سفارت کار” ریمنڈ ڈیوس کی کتاب ’’دی کانٹریکٹر‘‘کے اشاعت کے بعد دیکھنے میں آئی تھی ۔

پاکستان کے پرائیویٹ میڈیا چینلز میں اس کتاب کا ذکر تو چل ہی رہا تھا لیکن اپنے تئیں’’مُحب وطن‘‘ ٹی وی تجزیہ کار اور اینکرز پاک فوج کے سابق افسر جنرل اسد درانی پر کھلی تنقید کرنے سے ہچکچا رہے تھے۔ان کی توپوں کا رُخ بدستور سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب تھا اور وہ انہیں ایک اخباری انٹرویو میں ممبئی حملوں کے بارے کہے گئے ایک جملے کی وجہ سے غدار قرار دے رہے تھے۔

اسٹیبلشمنٹ کے موقف کی حمایت کی شہرت رکھنے والے لکھاریوں اور اینکروں کی ہچکچاہٹ 25 مئی 2018 کو اس وقت کچھ کم ہوئی،جب فوج کے اطلاعاتی ادارے (ISPR) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ایک اطلاع دیتے ہوئے لکھا کہ ’’سابق لفٹینیٹ جنرل اسد درانی کو 28مئی 2018کو جنرل ہیڈ کواٹرز(GHQ) طلب کیا گیا ہے تاکہ اس کتاب میں ان سے منسوب خیالات کے بارے میں پوچھ تاچھ کی جاسکے‘‘، ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ ’’کتاب میں ان سے منسوب خیالات کو فوج کے اُس ضابطہ کار کے مغائر تصور کیا گیا ہے، جس کا اطلاق حاضر سروس اور ریٹائر سبھی ملازمین پر ہوتا ہے۔‘‘ اس ٹویٹ کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے حامی تجزیہ کاروں نے ٹی وی اسکرینوں پر رونق لگائی اوراسد درانی پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوا لیکن یہ تنقید بہت زیادہ تیکھی نہیں تھی جیسا کہ سیاست دانوں پر ہواکرتی ہے ۔

نواز شریف جو کہ عدالتی فیصلوں کے بعد اب اپنی سیاسی بقاء کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں، یہ کتاب ان کے لیے گُھٹن زدہ ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی ہے ۔ ٹی وی اسکرینوں اور کیمروں نے اب انہیں کسی قدر چُھوٹ دی ہے اور اب نواز شریف دفاعی پوزیشن سے ایک بار پھر واپس جارحانہ پوزیشن میں آرہے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ ہفتے یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ جس طرح ان کے ممبئی حملوں سے متعلق بیان پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا، اس کتاب کی اشاعت پر بھی ایسا ہی اجلاس بلایا جائے۔ اس کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے لیے صورت حال کچھ ایسی بن گئی کہ انہیں لیفٹینیٹ جنرل(ر)اسد درانی کو طلب کرنا پڑا۔

اسد درانی 28مئی 2018 کو فوج کے ہیڈ کوارٹر میں پیش ہوئے اور اس کی اطلاع ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی ٹویٹ کے ذریعے دیتے ہوئے لکھا: ’’جنرل(ر)درانی کو ان کی کتاب ’’سپائی کرانیکلز‘‘ کے بارے میں وضاحت کے لیے جی ایچ کیو طلب کیا گیااور اس معاملے کی تحقیقات کے لئے ایک باقاعدہ کورٹ آف انکوائری تشکیل دے دیا گیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جنرل اسد درانی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل)میں ڈالنے کے لیے بھی متعلقہ ذمہ داروں سے کہہ دیا گیا ہے۔اور پھر اگلے ہی دن 29مئی 2018کو اسددرانی کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا۔

’’سپائی کرانیکلز‘‘ کے بارے میں اس وقت پاکستان کے رائے ساز حلقوں میں واضح تقسیم پائی جاتی ہے۔ ٹی وی چینلز کے دفاعی تجزیہ کاروں(جن میں سے اکثر فوج کے سابق افسران ہیں)اور ان کے ہم نوا صحافیوں کا خیال ہے کہ اسد درانی نے اس کتاب میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے ، وہ پاکستانی ریاست اور فوج کے ’آفیشل موقف‘ کے خلاف ہیں ۔ مثلاً کتاب میں کارگل آپریشن کے متعلق کہا گیا ہے کہ اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو اس کی بہت کم تفاصیل سے آگاہ کیا گیا تھا۔اسد درانی نے حریت کانفرنس کی تشکیل میں آئی ایس آئی کے کردار کا دعویٰ بھی کیا۔ یہ بھی کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کشمیری مزاحمت کاروں کی اس کھیپ کو ناپسند کرتی رہی ہے جو تھرڈ آپشن یعنی جموں کشمیر کی مکمل خود مختاری کی بات کرتے ہیں۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اسامہ بن لادن تک امریکی رسائی پاکستان کے اداروں کے علم میں تھی اور اس بارے میں ایک ڈیل کی طرف اشارہ بھی کیا گیا۔یہ سب باتیں پاکستان کی حکومت اور ریاستی اداروں کے موقف کے برعکس ہیں۔ جنرل درانی پرشدید تنقید کی بڑی وجہ یہی ہے۔

دوسری جانب لبرل تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کتاب میں کچھ خاص انکشافات نہیں ہیں،ماضی میں بھی کئی لوگوں نے اس سے ملتی جلتی باتیں کی ہیں۔سابق ڈکٹیٹر جنرل مشرف ایسے بہت سے انکشافات اپنی کتاب ’’اِن دی لائن آف فائر‘‘ اور پھر مختلف پاکستانی و بھارتی ٹی وی چینلز کو دیے گئے اپنے انٹرویوز میں کر چکے ہیں۔ اسی طرح ان کے دست راست سمجھے جانے والے جنرل(ر) شاہد عزیز کی کتاب ’’ یہ خاموشی کہاں تک‘‘ میں بھی پاکستان کی داخلی سیاست اور دیرینہ سول ملٹری کشمکش کے بارے میں بہت کچھ ایسا کہا گیا ہے جو فوج کوپسند نہیں لیکن ان دونوں کے خلاف ان کتابوں کی اشاعت کے بعد ایسی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔لیکن اسد درانی کی کتاب جن حالات میں آئی ہے ، ان کے پیش نظر اہم سمجھا گیاکہ کوئی ’کارروائی‘ کی جائے کیونکہ کچھ عرصہ سے پاکستانی ’’ڈیپ اسٹیٹ‘‘ پرمسلسل تنقید ہو رہی ہے کہ وہ پاکستان کے تین بار وزیراعظم رہنے والے نوازشریف کو دیوار سے لگانے کے لیے ہر حربہ استعمال میں لا رہی ہے،یہاں تک کہ انہیں غدار اور سیکیورٹی رسک تک قرار دیا گیا ہے، ایسے میں اسد درانی کی ’’علانیہ طلبی‘‘ اداروں کے لیے ’’ساکھ ‘‘ کا بحال کرنے کے اقدام کے طور پر کی گئی ہے۔

اس اقدام کاایک مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عسکری اداروں کو اپنے جن سابق افسران کی وجہ سے مسلسل سُبکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، اس کا کسی قدر ازالہ کیا جاسکے لیکن یہ ازالہ بظاہر اس وقت تک ممکن نہیں جب تک سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کو عدالت کے کٹہرے میں نہیں لایا جاتا۔ مشرف کے خلاف اس وقت سپریم کورٹ آف پاکستان میں آئین کے(آئین شکنی کی وجہ سے) آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری کا مقدمہ چل رہاہے اور انہیں عدالت کی جانب سے مفرور قرار دیا چکا ہے اور وہ اپنے ایک انٹرویو میں یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ انہیں بیماری کے بہانے ملک سے باہر بھیجنے کے لیے اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مدد حاصل تھی۔ ظاہر ہے یہ اس اعتراف نے فوج کی کردار پر سوالات کو جنم دیا تھا جس کا ازالہ فوج ضرور کرنا چاہے گی۔

دوسری جانب پاکستان میں مسلم لیگ نواز کی حکومت 31 مئی 2018 یعنی جمعرات کے دن اپنی مدت مکمل کر کے تحلیل ہو چکی ہے۔ رواں ہفتے نگران وزیراعظم کے لیے تجویز کیے گئے ناموں کے بارے میں مشاورت کے بعد بالآخر اچھی شہرت کے حامل سابق چیف جسٹس ناصر الملک کے نام پر اتفاق بھی ہوگیا ہے اور یہ سطور شائع ہونے تک وہ اپنے عہدے کا حلف اٹھا چکے ہوں گے ۔پاکستان کی70 سالہ تاریخ میں یہ دوسرا موقع ہے کہ جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت مکمل کر رہی ہے لیکن یہ تلخ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ ان دونوں ادوار میں ایک ہی وزیراعظم پانچ سال تک اس عہدے پر نہیں رہ سکا تھا۔سابق دور میں پیپلز پارٹی کے منتخب وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے جرم میں عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا جبکہ اس حکومت میں مسلم لیگ (ن) کے نواز شریف کوایک عرب ملک کا اقامہ رکھنے کی پاداش میں نااہل قراردیے دیا گیا ۔ ان دونوں ادوار میں غیر جمہوری قوتوں نے براہ راست حکومت میں مداخلت کی بجائے بالواسطہ دباؤ کی پالیسی جاری رکھی اور سیاسی پراکسیوں اور احتساب کے اداروں کو اپنے مقاصد کے لیے بھرپور استعمال کیا۔

اب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے نئے عام انتخابات کے لیے 25 جولائی 2018 کی تاریخ کا اعلان کر دیا ہے۔ سیاسی جوڑ توڑ عروج پر ہے۔ الیکٹیبلز اپنی پارٹیوں سے ہجرت کر رہے ہیں اور اکثر کا ٹھکانہ عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف ہے ۔ اس پارٹی کے بارے میں یہ تأثر عام ہے کہ اسے اسٹیبلمشنٹ کی مدد حاصل ہے۔ اسی بنا پر اکثرلوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان کی نئی حکومت میں کسی بھی سیاسی پارٹی کی بھاری اکثریت کی بنیاد پر نہیں بلکہ کچھ پارٹیوں کے سیاسی اتحاد کے ذریعے بن سکے گی، جن میں تحریک انصاف کا وزن البتہ زیادہ ہوگا۔ اس مخلوط اورکمزور حکومت میں غیر جمہوری قوتیں براہ راست مداخلت کے بغیر اپنی من مانی جاری رکھ سکیں گی۔ الیکشن نے قابل غداری کے الزامات سمیت پاور پالیٹکس کی تمام حربے بروئے کار لائے جارہے ہیں۔

بشکریہ: ہفت روزہ نوائے جہلم سری نگر ، جموں کشمیر

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے