13جولائی فلاپ شو، کیوں اورکیسے؟

جاتی امراکے ہوم میڈ نظریاتی، گوالمنڈی کے چی گویرا، ریلوے روڈ کے رابن ہڈ کی واپسی پر بہت کچھ دیکھنے، سوچنے، سمجھنے کوملے گا۔ موازنہ ہوگا ماضی میں بینظیر بھٹو کی لاہور آمد سے، جب آبادی شاید آج سے آدھی تھی اور پرانے ایئرپورٹ سے داتا دربارتک واقعی انسانی سروںکا سمندر تھا۔ یہ وہ بینظیرتھی جس کے لئے حبیب جالب نے لکھا تھا ’’ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے‘‘ جعل سازی کی جرأت ملاحظہ ہو کہ اس مصرعے کی بھی جیب کاٹ لی اور اپنے آپ سے منسوب کرلیا گیا تو یہ یقیناً بے خبری میں ہوا ہوگا جس پر مریم کو اپنے سپیچ رائٹرکو مرغا بناکر حبیب جالب کاسارا کلام اس کی کمر پر لاد دینا چاہئے تاکہ دوبارہ ایسی جعلسازی و شرمندگی کا باعث نہ بن سکے۔اس استقبال سے کم از کم مجھے تو اپنے ’’اجتماعی کردار‘‘کا بھی اندازہ ہو جائے گا کہ ہم کس ٹائپ کے لوگ ہیں۔

اپنی ہی عدالتوں کے سزا یافتہ مجرموںکو کس طرح دیکھا جائے گا؟ کہ ’’کبوتر با کبوتر باز با باز‘‘ والی کہانی ہے کہ انسان اپنی پسندناپسند سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ یہ استقبال ہمارا حال ہی نہیں مستقبل بھی بیان کردےگا بشرطیکہ ہم ذہانت کے ساتھ جمع تفریق کرسکیں کیونکہ ن لیگ لاہور کے ہر امیدوارکے لئے یہ سیاسی زندگی موت کا مسئلہ ہے۔ ذاتی سرائیوول کی جنگ ہے کہ اگر رنگ نہ جما اورکام پھیکا رہ گیا تو سمجھو ن لیگ کا گڑھ اس کے لئے گڑھا بن چکاجبکہ دوسری طرف یہ زمینی حقائق بھی موجود ہیں کہ کیپٹن (ر) صفد ر تو اے کلاس میں فریج کے ساتھ ٹیک لگائے ٹی وی دیکھ رہا ہے اور پیچھے اسے پناہ دینے والوں کو لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔

مجرم کو تحفظ اور ’’پروٹوکول‘‘ کے جرم میں 4 امیدواروں سمیت سینکڑوں کے خلاف مقدمات درج ہوچکے ہیں اور اگر یہ نااہل ہوگئے، امیدواری ہی ہاتھ سے جاتی رہی تو ’’نظریاتی‘‘ کا کیا فائدہ؟بہت دلچسپ اورپیچیدہ صورتحال ہے جس کے لئے زیادہ انتظار نہیںکرنا پڑے گا لیکن یہ طے کہ 1986 کی بینظیر آمد جتنے لوگ نہ ہوئے تو اسے ایک فلاپ شو سمجھا جائے گا جس سے بچنے کے لئے نواز شریف نے ایک تازہ ترین انٹرویو میں یہ شوشا بھی چھوڑا ہے کہ اسے لندن رکنے کے پیغامات کے ساتھ ’’اپیل‘‘ کے معاملات طے کرنے کا بھی کہا جارہا ہے۔ یہ بلف اس لئے کھیلا جارہا ہے تاکہ ووٹر، سپورٹر اور امیدواروں کو امید سے رکھا جاسکے یعنی…..’’پیوستہ رہ شجر سے امید ِبہار رکھ‘‘لیکن امید ِ بہار تو ہرے بھرے سرسبز درختوں سے رکھی جاتی ہے۔

سوکھ چکے ایسے درختوں سے کوئی خاک امیدِ بہار رکھے جسے ’’مالیوں‘‘ نے ہی متروک قرار دے دیا ہو۔مسئلہ میرا یہ ہرگز نہیں کہ معاملہ ’’پوائنٹ آف نوریٹرن‘‘ تک پہنچ چکا، میں تو صرف اس بات کا مطالعہ، مشاہدہ اورتجربہ کرنا چاہتا ہوں کہ اخلاقی اعتبارسے ہم لوگ کہاں کھڑے ہیں؟

یہ اپروچ کہ کوئی کرپٹ ہے تو کیا ہوا بذات ِ خود بدکرداری کااعتراف ہے اور کتنے فیصد لوگ دل کی گہرائی میں یہ محسوس کرتے ہوں گے کہ میاں صاحب مجرم نہیں معصوم ہیں۔ ایسے ہر شخص کو اپنی اولادکی قسم کھا کر گواہی دینی چاہئے اور وہ بھی اپنے ضمیر کی عدالت میں ورنہ وہ مادر ِوطن کا مجرم ہوگا۔قارئین!کالم شروع کرنے سے پہلے میں نے ایک دوست کے ذمہ لگایا کہ ذرا چیک کروکہ 1986میں بینظیر کی آمد پر لاہور کی آبادی کتنی تھی اور آج کتنی ہے۔ کالم لکھتے ہوئے میں اوپر یہ بکواس لکھ چکاہوں کہ 1986میں لاہور کی آبادی آج سے آدھی ہوگی۔

ابھی ایک منٹ پہلے عزیزی فاروق کے اس انکشاف نے مجھے حیران پریشان کردیا کہ 86ء میں لاہور کی آبادی صرف 35لاکھ جبکہ آج لاہور کی آبادی ایک کروڑ گیارہ لاکھ ہے یعنی تقریباً تین گنا زیادہ۔

جس کا مطلب یہ ہے کہ اگراس وقت پرانے ایئرپورٹ سےلے کر داتا دربار تک خلق خدا کا ہجوم تھا تو آج ماڈل ٹائون سے نئے ایئرپورٹ تک انسانوںکا سمندر ہونا چاہئے….. اور اگر یہ کچھ زیادہ لگتا ہے تو چلو خصوصی ڈسکائونٹ بلکہ نظریاتی ڈسکائونٹ کے تحت اسے آدھا کرلیتے ہیں لیکن اگر یہ اتنا بھی نہ کرپائے تولاکھ شور مچاتے رہیں….. یہ ایک فلاپ ترین شو ہوگا جس کے بعد سارے بیانئے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے…..خود تو یہ بہرحال دھر ہی لئے جائیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے