Reality Check

بل مائیر ایک مشہور امریکی کامیڈین ہے، پندرہ برس سے وہ HBOپر سیاسی طنز و مزاح کا پروگرام کر رہا ہے، اس کا یہ پروگرام Real Time with Bill Maherامریکہ سمیت پوری دنیا میں بے حد مقبول ہے۔ کچھ عرصہ قبل بِل نے اپنے پروگرام میں ڈانلڈ ٹرمپ (اُس وقت وہ صدر منتخب نہیں ہوا تھا) کے بارے میں کہا کہ ٹرمپ کے سنہری بال اور ایک مخصوص نسل کے بن مانس (Orangutan) کی داڑھی کا رنگ، کائنات میں دو ایسی چیزیں ہیں جن کی رنگت ایک جیسی ہے، اِس کا مطلب یہ ہے کہ ٹرمپ بن مانس کی اولاد ہے اور اگر ٹرمپ یہ ثابت کردے کہ وہ بن مانس کی اولاد نہیں بلکہ انسان کا بچہ ہے تو بل مائر اسے پانچ ملین ڈالر انعام دے گا۔

جناب ٹرمپ مدظلہ نے فوراً یہ پیشکش قبول کرلی اور اپنے وکیل کے دستخطوں کے ساتھ ایک خط بِل کو بھجوایا جس کے ساتھ ٹرمپ کی جنم پرچی منسلک تھی اور وکیل کا یہ بیان کہ ’’ثبوت حاضر ہے کہ ٹرمپ اپنے والدین کی اولاد ہے کسی بن مانس کی نہیں لہٰذا آپ فوراً پانچ ملین ڈالر ادا کریں‘‘۔ بل مائیر نے اپنے شو میں اِس کا جو جواب دیا وہ ایک الگ کہانی ہے، یہ قصہ ختم ہو گیا اور 20جنوری 2017کو ڈانلڈ ٹرمپ نے امریکی صدر کا حلف اٹھا لیا، گویا ایک ایسا شخص امریکہ کا صدر منتخب ہو گیا جو رات گئے نشر ہونے والے مزاحیہ پروگراموں کے میزبانوں کو اُن کے طنزیہ جملوں کے جواب میں یہ لکھ کر بھیجنےمیں بھی تامل نہیں کرتا تھا کہ وہ بن مانس کی نہیں انسان کی اولاد ہے۔

صدر ٹرمپ نے صدارتی مہم میں اپنے ووٹروں سے بے شمار وعدے کئے جن میں سے کچھ پر تواب تک کام ہی شروع نہیں ہو سکا مگر کچھ وعدے پورے بھی کئے، مثلاً ٹیکسوں کی شرح میں کٹوتی، چھ مسلمان ممالک کے شہریوں پر امریکہ میں داخلے پر پابندی /سختی، اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنا، ماحولیاتی آلودگی کو ہوّا قرار دے کر پیرس معاہدے سے دستبردار ہونا، اوبامہ کے ہیلتھ کئیر پروگرام کو (کسی حد تک) ختم کرنا…. یہ کچھ ایسے کام ہیں جو ٹرمپ نے کر دکھائے جبکہ کچھ کام ایسے ہیں جن پر کوئی پیشرفت نہیں ہوئی جیسے میکسیکو کے خرچے پر امریکی سرحد پر دیوار تعمیر کرنا، تمام غیرقانونی تارکین وطن کو ملک بدر کرنا، پہلے نیٹو کو ’’فرسودہ‘‘ قرار دینا اور پھر کہنا کہ نہیں اس کی ضرورت موجود ہے، ہیلری کلنٹن کے خلاف مقدمے قائم کرنا، امریکہ کے انفرااسٹرکچر کی تعمیر کرنا وغیرہ۔

اس کے علاوہ صدر ٹرمپ اب تک درجنوں عہدے داروں کو سبکدوش کر چکے ہیں، پہلے ہی ہفتے موصوف نے اپنے اٹارنی جنرل کو نکال باہر کیا، بعد ازاں ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کو یوں فارغ کیا کہ اس بیچارے کو ٹی وی سے خبر ملی، اس کے علاوہ ہوم لینڈ سیکورٹی کا مشیر، قومی سلامتی کا مشیر، ابلاغ کی ڈائریکٹر، وہائٹ ہاؤس کا چیف آف اسٹاف، تقریر لکھنے والی اور پریس سیکرٹری سب مستعفی ہو چکے ہیں اور سب سے بڑھ کر سیکرٹری آف اسٹیٹ ریکس ٹیلرسن کو بھی صدر ٹرمپ برخواست کر چکے ہیں، یوں ایک طویل فہرست ہے اُن لوگو ں کی جنہیں ٹرمپ نے فارغ کیا یا انہوں نے خود ہی مستعفی ہونے میں عافیت سمجھی۔ ٹرمپ امریکی میڈیا کو بھی آڑے ہاتھو ں لیتا ہے اور بے تکان تمام بڑے اخبارات اور ٹی وی چینلز کو ’’جعلی‘‘ قرار دے کر اُن کی خبرو ں کو مذاق میں اڑاتا ہے جو اُس کے خلاف لگائی جاتی ہیں۔

سو یوں کہئے کہ جناب ٹرمپ ہر وہ کام کرتے ہیں جس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ کسی سیاست دان کو نہیں کرنے چاہئیں مگر ٹرمپ کو فی الحال کسی بات سے کوئی فرق نہیں پڑا، اپنی تمام تر بین الاقوامی حماقتوں، بدتمیزیوں اور ہم منصبوں کے ساتھ غیر اخلاقی رویہ رکھنے کے باوجود ٹرمپ کی مقبولیت اپنے ووٹروں میں کم و بیش اُسی طرح قائم ہے جیسے 20جنوری 2017کو تھی، موصوف کی approval ratingsخاصی اطمینان بخش ہیں اور اکثر وہ اِن ratingsکا حوالہ دے کر اپنے مخالفین کا تمسخر بھی اڑاتے رہتے ہیں۔

امریکہ سے پاکستان آتے ہیں اور تین سوالات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پہلا، کیا پاکستان میں ٹرمپ طرز حکمرانی کامیاب ہو سکتا ہے؟ دوسرا، کیا یہ ممکن ہے کہ عوام سے کئے گئے وعدے بھی پورے نہ کئے جائیں اور مقبولیت بھی قائم رہے؟ اور تیسرا، کیا ہمارا لیڈر reality checkسے ماورا ہو سکتا ہے؟ سوال نمبر ایک کا جواب ناں میں ہے، امریکہ اور ہمارا کوئی موازنہ ہی نہیں، امریکی صدر کے پاس مکمل اختیار ہے، وہ بیسیوں عہدے داروں کا تقرر کرتا ہے، درجنوں کو فارغ کرتا ہے، دفاع، خارجہ اور نیشنل سیکورٹی سے لے کر داخلہ پالیسی تک وہ تمام اداروں سے مشورہ ضرور کرتا ہے مگر حکم اسی کا چلتا ہے، وہ کمانڈر انچیف ہے اور تمام ادارے اس کے تابع ہیں، اپنے ہاں یہ باتیں آئین نامی کتاب میں کہیں لکھی ضرور ہیں مگر اِن پر عمل کرنے کی ہمت کسی میں نہیں، سو ٹرمپ جس انداز میں حکومت کر رہا ہے اُس انداز میں امریکہ میں تو حکومت چل سکتی ہے پاکستان میں نہیں۔ سوال نمبر دو کا جواب بھی ناں میں ہے۔

ٹرمپ کی مقبولیت کی وجہ یہ ہے کہ صدر بننے سے پہلے اُس نے جو وعدے کئے تھے، اپنے پہلے ڈیڑھ سال کے دوران اُن وعدوں کی تکمیل کی طرف پیشرفت ضرور ہوئی ہے اور ویسے بھی امریکہ میں لوگوں کو صحت، تعلیم، پینے کا صاف پانی اور انتہائی غربت جیسے بنیادی مسائل کا سامنا نہیں، سو اگر ٹرمپ نے کہا تھا کہ ہمیں نیٹو کی ضرورت نہیں اور اُس کے بعد وہ اپنے بیان سے مکر گیا تو بھی اُ س کے ووٹروں کو فرق نہیں پڑتا، اگر ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکہ کے انفراسٹرکچر کی تعمیر نو کرے گا اور اب تک ایسا کچھ نہیں ہوا تو اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ امریکہ کا انفرااسٹرکچر پہلے ہی بہتر ین ہے، اگر ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ بڑی کمپنیوں کا الحاق نہیں ہونے دے گا اور پھر یہ الحاق ہو گیا تو یہ بات بھی اس کے ووٹر کے لئے خاص اہمیت نہیں رکھتی کیونکہ ملک میں اسپتال ٹھیک کام کر رہے ہیں، بنیادی تعلیم مفت ہے، ٹرانسپورٹ کا نظام بہترین ہے اور قانون کی عملداری ہے۔

اپنے ہاں یہ سب نہیں، ہمارے بنیادی مسائل ہی حل نہیں ہوئے، سو لوگوں سے اگر یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ پولیس کا نظام ٹھیک کیا جائے گا، تعلیمی نظام میں اصلاحات لا کر ہر بچے کو مفت تعلیم دی جائے گی، نوکریاں دی جائیں گی، کینیڈا جیسے اسپتال ہوں گے جہاں غریبوں کا مفت علاج ہو گا، کوئی غریب بھوکا نہیں سوئے گا، ہر کسی کے پاس اپنی چھت ہوگی اور کوئی قانون سے بالاتر نہیں ہوگا تو پاکستانی عوام کی یہ تمام امیدیں جائز ہیں، اور ان کے پورا نہ ہونے کی صورت میں یہ ممکن نہیں کہ لیڈر کی مقبولیت پہلے دن کی طرح قائم و دائم رہے۔ تیسرا اور آخری سوال reality check سے متعلق ہے اور سب سے اہم ہے۔ عوام کو یہ بتایا گیا ہے کہ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے، ہماری تنزلی کی وجہ فلاں فلاں شخص کی نا اہلی ہے اور پاکستان اس لئے ترقی نہیں کر سکا کیونکہ یہاں ایماندار قیادت نہیں تھی……

اب اس بیانئے پر reality check لگانے کا وقت آ گیا ہے، دو ہی ممکنہ باتیں ہو سکتی ہیں، ایک ،یہ بیانیہ درست ہو اور نئی قیادت ان تمام مسائل کو حل کرکے ملک کی سمت درست کردے، یہ پاکستان کی بہت خوش قسمتی ہوگی، لیکن اگر یہ بیانیہ غلط ثابت ہوا تو پھر کیا ہوگا؟ اس وقت تو عوام کی خواہش کے مطابق قیادت میسر ہے، پوری قوت بھی ہے، ہر طرف شادیانے بج رہے ہیں کہ پورا ملک جاگ اٹھا ہے، لیکن اگر اس عظیم انقلاب کے بعد بھی ہمارا حال نہ بدلا اور اگر اس فتح کے نتیجے میں بھی تبدیلی نہ آئی تو پھر یہ جان لیں کہ یہ بیانیہ ہی غلط تھا۔ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن تھا اور نہ ہی ایماندار قیادت۔ مسئلہ کچھ اور تھا۔ جب تک ہم اس مسئلے کی جڑ تک نہیں پہنچیں گے، پاکستان تبدیل نہیں ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے