حضرت مفتی کفایت اللہ دہلوی …ایک مدبر شخصیت

ہندو مذہبی راہنماسوامی شردھانند نے 1922ء میں مسلمانوں کو ہندو بنانے کے لیے شدھی تحریک کا آغاز کیا اور دیکھتے دیکھتے ہی سیکنڑوں ہی نہیں بلکہ ہزاروں افراد کو ہندو مذہب کا پیرو کار بنادیا۔اس خطرناک معاملہ کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے انہوں نے علماء کرام کے ایک وفد کی تشکیل ان علاقوں میں کردی جہاں شدھی تحریک زوروں پر تھی ۔آپ نے بھی متعدد مقامات کا بذات خود دورہ کیا۔آپ کا اندازِ خطابت اور طرزِ تخاطب، عوامی سطح اوران کی زہنیت کے مطابق ہوتا تھا ۔وہ بلا کے عالم اور بے مثال مفتی ہونے کے باوجود دلوں کو چھو لینی والے سیدھی سادھی گفتگو فرماتے تھے ۔انہیں ایک صاحب نے آکر اطلاع دی کہ حضرت فلاں گاؤں میں صرف ملکانہ قوم سکونت پزیر ہے ۔اس پوری قوم نے شدھی تحریک سے متاثر ہوکر ہندو مذہب قبول کرلیا ہے ۔وہ اسلام جیسے دین حنیف سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔یہ سننا تھا کہ آپ بے چین ہوگے ،فورا مولانا احمد سعید دہلوی کو طلب کیااور فرمایا کہ آپ وہاں جائیے اور باریک بینی سے ساری صورتحال کا جائزہ لیجیے ..مولانا دہلوی حسبِ حکم وہاں پہنچے اور تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ خبر سچی ہے اور آریہ سماج نے یہ کہہ کر انہیں دھوکہ دیا ہے کہ تمہارے آباؤ واجداد سارے ہندو تھے ،مسلمانوں نے تمہیں زبردستی مسلمان بناکر تمہاری چوٹیاں کاٹی ہیں ۔مولانا دہلوی نے یہ سب آکر ان کے گوش و گزار کیا تو آپ وہاں پہنچے ،جلسہ کا اعلان کرایا ۔لوگوں کے جمع ہونے پر آپ نے یوں خطاب فرمایا کہ

"آج اس گاؤں میں آکر اور ایک بہادر قوم کے سپوتوں سے مل کر میں بے انتہا خوش ہوا ہوں ۔ملکانہ قوم دنیا کی چند بہادر قوموں میں ایک ممتاز قوم ہے ۔یہ قوم ہندوالستان کے لیے ریڑھ کی ہڑی ہے ۔تمہارے باپ دادا نے ہمیشہ ہندوالستان کی حفاظت کی ہے دشمنوں سے کبھی ہار نہیں مانی ۔لوگ تمہیں آکر بہکاتے ہیں کہ تمہارے باپ دادا کو مسلمانوں نے مار مار کر زبردستی مسلمان بنایا تھااور انکی گردنیں پکڑ پکڑ چوٹیاں کاٹ ڈالی تھیں ۔کیا واقعی تمہارے باپ دادا ایسے ہی کمزور اور ڈرپوک تھے ..؟؟ مجھے یقین نہیں آتا .. دیکھو بھائی ..!! یہ لوگ جھوٹ بولتے اور دھوکہ دیتے ہیں ۔سچی بات تو یہ ہے کہ تمہارے باپ داداوں سے کوئی آنکھ بھی نہیں ملا سکتا تھا ۔وہ اسلام کو ایک سچا اور اچھا دین سمجھ کر اپنی خوشی سے مسلمان ہوئے تھے ۔کیا تم اپنے سچے دین کو چھوڑ کر اپنے باپ دادوں کی روحوں کو صدمہ نہیں پہنچارہے ہو ….؟؟ ”

آپ کی اس تقریر دلپزیر کا نفسیاتی طور پہ ایسا اثر ہواکہ وہ سارے کےسارے اللہ کا شکر کہ دوبارہ مسلمان ہوگے ۔

تحریک آزادی ہند کے عظیم راہنما ،بر صغیر پاک و ہند کے سب سے بڑے مفتی ،جلیل القدر دینی ،روحانی ،سماجی ،سیاسی اور علمی شخصیت ،فاضل دیوبند ،مدرسہ امینیہ دہلی کے شیخ الحدیث و مہتمم ،حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی کے تلمیذ رشید ،مولانا انور شاہ کشمیری ،مولانا سید حسین احمد مدنی اور مولانا اشرف علی تھانوی کے رفیقِ درس ،مولانا اعزاز علی صاحب ،مفتی مہدی حسن صاحب کے استاد ،متعدد کتب کے مصنف اور عظیم شاعر مفتی کفایت اللہ دہلوی صاحب رحمہ اللہ کا یہ اخلاص و للہیت اور کمال دانشمندی سے لبریز واقعہ ہے ۔

مفتی کفایت اللہ دہلوی صاحب رحمہ اللہ کے آباؤ و اجداد کا اصلی وطن ،جنوبی ساحلی خطہ عرب یمن ہے ۔آپ کے اسلاف موتیوں کے تاجر تھے ۔وہ قدیم زمانہ میں دیگر تاجروں کے ہمراہ بادبانی کشتیوں کے ذریعے ہندوالستان آرہے تھے کہ سمندر میں زبردست طوفان آنے سے کشتی ڈوب گئی ۔اس قافلہ کا سردار ایک جوان سال جمال یمنی ،طوفان سے بچ نکلا ۔وہ ایک تختہ پر بہتا ہوا ساحل تک پہنچ گیا ۔ساحل پر اس سے بھوپال کے ایک شخص نے دیکھا ،اس نے تعاون کیا ،اپنے ساتھ گھر لے آیا ۔اور یہ نو عمر شیخ جمال ایک عرصہ تک وہیں مقیم رہ کر پرورش پاتا رہا ،آخر کو اسی خاندان میں شادی ہوگئی ۔یہی شیخ جمال یمنی صاحب ،حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب کے مورث اعلی تھے ۔

حضرت مفتی صاحب نے شاہ جہان پور کے محلہ زئی میں 1292ھ بمطابق 1875ءکو آنکھ کھولی ۔آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقہ میں حاصل کی ،اردو وفارسی کی شروع والی کتابیں ،حافظ نسیم اللہ صاحب کے مدرسہ میں پڑھیں اور فارسی کی اعلی ادبی کتاب سکندر نامہ اور عربی کی ابتدائی کتابوں کی تعلیم حافظ بدھن خان صاحب سے حاصل کی ،آپ کے والد شیخ عنایت اللہ مرحوم نے آپ کے استاد مولانا عبید الحق صاحب رحمہ اللہ کے مشورہ سےآپ کو مدرسہ شاہی مراد آباد میں داخل کرادیا ۔یہاں آپ دوسال تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1312ھ اپنے دو ساتہیوں مولانا عبد الخالق اور مولانا عبد المجید صاحب کے ہمراہ دار العلوم دیو بند پہنچے اور اس عظیم ادارے میں داخل ہوگے ۔یہ دارالعلوم کا زریں دور تھا ۔اس زمانہ میں حضرت مولانا منیر احمد صاحب کے زیر اہتمام شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی ،مولانا خلیل احمد سہارنپوری ،مولانا منفعت علی ،مولانا عبد العلی ،مولانا حکیم محمدحسن( برادر اصغر شیخ الہند ) مولانا غلام رسول صاحب جیسی یگانہ روزگار ہستیاں تعلیم دے رہی تھیں اور مولانا انور شاہ کشمیری ،مولانا حسین احمد مدنی ،مولانا ضیاء الحق صاحب( صدر مدرس مدرسہ امینیہ) مولانا شفیع دیوبندی (صدر مدرس مدرسہ عبدالرب دہلی) مولانا قاسم دیوبندی (استاد مدرسہ امینیہ )،مولانا امین الدین( بانئ مدرسہ امینیہ) جیسی مایہ ناز شخصیات تعلیم حاصل کررہی تھیں ۔پڑھنے اور پڑھانے کا اس وقت کیسا لطف نصیب ہوتا ہوگا ۔

بڑے کرم کے ہیں فیصلے ……. بڑے نصیبے کی بات ہے

اللہ تعالی نے آپ کو کمال کا حافظہ عطا کیا ہوا تھا ،اور ذکاوت و ذہانت کی بیش بہا دولت سے نواز رکھا تھا ۔اس لیے اسباق میں بہت کم محنت کرنے کے باوجود بھی ہر امتحان میں امتیازی نمبروں سے کامیابی حاصل کرلیتے تھے ۔آپ اساتذہ کرام سے جو سنتے وہ اسی وقت یاد کرلیتے اور باقی وقت اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے لیے عمدہ قسم کی ٹوپیاں بُنتے تھے ۔دارالعلوم میں عرصہ تین سال رہ کر اکتسابِ فیض کیا ۔اس طرح آپ نے 22 سال کی عمر میں دارالعلوم سے سندِ فراغ حاصل کی ۔بعد ازیں آپ ،مولانا امین الدین کے ہمراہ دہلی چلے آئے ۔یہاں چند روز قیام کے بعد آپ اپنے وطن شاہ جہاں پور پہنچے ۔تو آپ کے استادِ محترم مولانا عبید الحق خان صاحب نے اپنے قائم کردہ مدرسہ عین العلم میں استاد تعینات کردیا ۔اور اس کے ساتھ دفتری امور بھی آپ کے سپرد کردیے ۔آپ مدرسہ کا حساب و کتاب بڑی عمدگی کے ساتھ کرتے تھے ۔کچھ وقت بیت جانے پر آپ نے فتوی نویسی کا اہم ترین کام بھی بڑی جانفشانی اور احتیاط کے ساتھ شروع کردیا ۔اسی زمانہ میں آپ نے فتنہ قادیانیت کی سرکوبی کے لیے ماہنامہ "البرہان” بھی جاری کیا ۔اس میں مرزائیوں کی تردید میں زور دار علمی مضامیں شائع کرتے رہے ۔

انہی دنوں آپ کے رفیقِ خاص مولانا امین الدین صاحب نے مدرسہ امینیہ سنہری مسجد چاندنی چوک دہلی میں ایک دینی درسگاہ قائم کی تھی ۔وہاں عظیم محدث مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ صدر مدرس کے طور پہ کام کرتے تھے لیکن حضرت کشمیری صاحب اپنے والد بزرگوار کے حکم پر 1320ھ میں اپنے وطن کشمیر تشریف لے گے ۔تو مولانا امین صاحب نے آپ کو خط لکھا کہ آپ یہاں تشریف لائیے اور اپنی علمی خدمات سرانجام دیں ..تو آپ نے یہ خیال کرتے ہوئے دہلی جیسے مرکزی مقام میں مذہبی اور دینی خدمت کے مواقع زیادہ حاصل ہوگیں تو آپ ،استاد محترم مولانا عبید الحق صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اجازت چاہی ۔تو انہوں نے بڑی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ ترقی پر جارہے ہیں ،اللہ مبار کرے لیکن اگر اللہ تعالی نے مجھ سے آخرت میں پوچھا کہ تم نے مولوی کفایت اللہ کو کیوں چھوڑا تو کیا جواب دوں گاں …؟؟ استاد محترم کے اس فرمان پر آپ نے دہلی جانے کا ارادہ ملتوی کردیا اور وہیں خدمتِ دین میں منہمک ہوگے ۔جب ماہ رمضان 1321ھ میں استاد محترم راہی دار بقا ہوگے تو مولانا امین صاحب ،آپ کو لینے خود شاہ جہاں پور پہنچ گے اوردہلی جانے پر اصرار کیا تو مفتی صاحب شوال 1321ھ میں مدرسہ امینیہ تشریف لے گے ۔یہاں اللہ تعالی نے آپ کو بے پناہ مقبولیت و شہرت سے نوازا ،شہر کے معزز حضرات اور متمول لوگ اپنے سیاسی ،معاشرتی اور مذہبی معاملات میں آپ سے مشورے کرنے لگے ۔آپ کے نہایت مختصر ،صاف ،واضح اور مدلل و مستند فتاوی سے وہاں کی عدلیہ بھی خوب استفادہ کرنے لگی ۔آپ کی نافز کردہ مفید اصلاحات سے مدرسہ کا تعلیمی نظام بھی لائقِ تقلید بن گیا ۔آپ نے طلبہ میں تقریر و تحریر اور مکالمہ و مباحثہ جیسی خوبیوں کو اجاگر کرنے کے لیے 1328ھ میں” انجمن اصلاح الکلام” قائم کی ۔اس کے تحت ہر آٹھویں دن طلبہ تقریر و مناظرے کرتے اور آپ ان کی بذات خود راہنمائی کرتے تھے ۔آپ نے اس پر کوشش کی کہ تمام مدارس و جامعات کا ایک مشترکہ پلیٹ فارم ہونا چاہیے جس کے تحت انتظامی قواعد ،نصابِ تعلیم ،نظامِ امتحان اور ضوابطِ داخلہ یکساں ہوں ۔اور ممکن ہو سکے تو تمام مدارس یا پھر اکثر جامعات کا سالانہ تقسیمِ اسناد کا پروگرام بھی اکٹھا ہی طے پائے ۔آپ کی ان کوششوں کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ بر صغیر پاک و ہند کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے دارالعلوم دیو بند کے اربابِ اہتمام نے آپ کی ان کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ”

ہم دوسرے مدارس کے طلبہ کو اس وقت داخلہ نہیں دے گیں جب تک وہ اپنے سابقہ مدارس کی جانب سے عمدہ کارکردگی اور نیک چلنی کی سند نہ پیش کریں”
اور ان حضرات نے دارالعلوم دیوبند کے سالانہ جلسہ میں مدرسہ امینیہ کے دس فضلاء کو دستارِ فضیلت عطا کی

جن دنوں مغربی طاقتوں نے اسلامی حکومت کا شیرازہ بکھیرنے کے لیے جنگِ بلقان و طرابلس کا آغاز کیا تو مفتی صاحب نے ترکی ظلم رسییدہ مسلمانوں کی بھر پور حمایت و نصرت کا اعلان کیا ۔پھر عملا اس تگ و دو میں مصروف ہوگے ۔آپ نے اپنے تلامذہ اور معتقدین میں دینی اخُوت اور مِلی غیرت کا جزبہ بیدا کیا ۔آپ نے اس لیے اپنے استاد محترم مولانا محمود حسن دیوبندی کی طرح چندہ جمع بھی کیا۔

آپ نے 1915ء اور 1916ء میں باقاعدہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کردیا ۔16ء میں مسلم لیگ اور کانگریس کا مشترکہ اجلاس لکھنؤ میں ہوا۔اس میں کچھ امور پر معاہدہ طے پایا ۔بعد میں یہ معاہدہ میثاقِ لکھنؤ کے نام سے مشہور ہوا ۔اس میں مسلمانوں کے نقطہ نظر کے لحاظ سے بہت سے خامیاں رہ گئی تھیں ۔جو اس وقت کے مسلمان لیڈران کو محسوس نہ ہو پائیں تھیں ۔لیکن آپ کی دوراندیشی نے ان خامیوں کا بر وقت ادراک کرلیاتھا۔اور ان سے مسلمان برادری کو اگاہ کیا ۔آپ کی سیاسی سمجھ بوجھ اس قدر مانی جاتی تھی کہ ایک بار شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب اپنے رفقاء کو مخاطب کرکے فرمانے لگے کہ بےتم سب سیاست دان ہو لیکن مولوی کفایت اللہ کا دماغ ،سیاست ساز ہے ۔

آپ نے حالات کے بدلتے تیور دیکھتے ہوئے محسوس کیا کہ علماء کرام کا ایک متحدہ نیٹ ورک ہونا چاہیے ۔ایک مرکز قائم ہونا چاہیے ۔آپ کی فکرِ دور بیں نے اس خطرہ کو بھانپ لیا کہ اگر کسی جماعت میں علماء انفرادی حیثیت سے شریک ہوئے اور اس جماعت نے کوئی غیر محتاط قدم اٹھایا تو سب سے بڑی آفت علماء کے طبقہ پر ہی آئے گی ۔تو آپ نے اس سلسلہ میں اپنے ہم فکر علماء سے تبادلہ خیالات کرنا شروع کردیا ۔تو آپ کی وہ مخلصانہ کوششیں نتیجہ خیز ثابت ہوئیں کہ 1919ء میں ایک رات مختلف الخیال 25 علماء جمع ہوئے تو ان سب نے متفقہ طور پہ فیصلہ کیا کہ تمام علمائے ہند کی ایک جداگانہ جماعت ہونی چاہیے اور اس کا نام جمعیت علمائے ہند رکھا جائے ۔اور اس کے عارضی صدر بھی مفتی صاحب ہی بنائے جائیں ۔پھر ایسا ہی ہوا آپ 1919ء سے 1940ء تک اکیس سال مسلسل صدارت کے منصب پر فائز رہے ۔

مفتی صاحب رحمہ اللہ نے کئی بار انگریز سامراج کی مخالفت اور تحریک آزادی میں حصہ لینے کی پاداش میں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں ۔پہلی گرفتاری1930ء کو تحریکِ سول نافرمانی میں حصہ لینے کی پاداش میں عمل میں آئی اور دوسری بار 1932ء میں ملتان سنٹرل جیل میں اٹھارہ ماہ کی با مشقت سزا کاٹی ۔جیل میں آپ کے رفیق مولانا حبیب الرحمن صاحب کے بقول آپ قیدیؤں کے نئے اور پرانے کپڑے سیتے اور ان کی اخلاقی تربیت کرتے تھے اور انہیں دینیات کی تعلیم دیتے تھے ۔ایک بار جیل میں حضرت مولانا احمد علی لاہوری صاحب آپ سے ملنے آئے تو دیکھا کہ آپ قیدیؤں کو تعلیم الاسلام پڑھارہے تھے ۔تو حضرت یہ منظر دیکھ مسکراہتے ہوئے فرمانے لگے کہ حضرت …..! وہاں بخاری شریف جیسی بڑی کتابیں……. اور یہاں تعلیم الاسلام جیسی مختصر سی کتاب پڑھاتے ہوئے کیسے لگ رہا ہے ..؟؟؟ آپ نے جوابا فرمایا کہ اگر اللہ کی رضا کے حصول لیے پڑھا پڑھایا جائے تو بخاری اور تعلیم الاسلام دونوں کا ثواب برابرہے ۔

حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ اردو عربی کے قادر الکلام شاعر بھی تھے اور اعلی درجہ کے خوش نویس بھی ۔آپ کے قلمِ گہر بار سے کئی شہرہ آفاق کتابیں بھی معرض وجود میں آئیں ۔آپ نے متعدد ممالک کے تعلیمی اور تبلیغی دورے بھی کیے ۔آپ نہایت ہی باوقار اور سنجیدہ عالمِ دین تھے ۔سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مُتبع اور عامل تھے ۔خودداری اور غیرت مندی آپ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔

علم و عمل کا پیکر ، اخلاص و لِلّہِیَت کا مَنبع اور رشد وہدایت کا یہ آفتاب 13 ربیع الثانی 1372ھ بروز جمعرات غروب ہوگیا ..انا للہ وانا الیہ راجعون ….دسرے دن دہلی میں اس مرد قلندر کی نماز جنازہ میں شرکت کرنے کے لیے خلقِ خدا دیوانہ وار ٹوٹ پڑی ۔تقریبا ایک لاکھ افراد نے نماز جنازہ میں شرکت کا ثواب حاصل کیا ۔آپ کو خواجہ قطب الدین بختیار کا کی رحمہ اللہ کے پہلو میں سپرد خاک کردیا گیا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے