ممتاز شاعرہ اور ادیبہ فہمیدہ ریاض انتقال کرگئیں

لاہور: برِصغیرپاک وہند کی ممتاز شاعرہ، مترجم اور دانشور فہمیدہ ریاض 73 برس کی عمر میں لاہور میں انتقال کرگئیں۔
فہمیدہ ریاض 28 جولائی 1945 کو ہندوستان کے شہر میرٹھ میں پیدا ہوئیں اور ان کے والد ریاض الدین احمد ماہرِ تعلیم تھے۔ پاکستان بننے کے بعد ان کا خاندان سندھ منتقل ہوگیا اور انہوں نے سندھ میں ہی اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور یونیورسٹی تک کی ڈگری لی۔ اس کے بعد 1967 میں لندن چلی گئیں اور بی بی سی سے وابستہ ہوئیں۔

انہوں نے 15 سال کی عمر میں ایک نظم کہی جو احمد ندیم قاسمی کے جریدے ’فنون‘ میں شائع ہوئی۔ سماج سے بغاوت اور ظلم کے خلاف جدوجہد ان کے مزاج کا حصہ رہے جس کی بنا پر صدر جنرل ضیا الحق کے دور میں ان پر ایک درجن سے زائد مقدمات بنائے گئے ۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ پتھر کی زبان بھی 1967 میں منظرِ عام پر آیا۔

فہمیدہ ریاض کی شاعری میں عورتوں کے حقوق اور ان کے مصائب کا تذکرہ ہے یہاں تک کہ انہوں نے عورت سے وابستہ جنسی رحجانات پر بھی لکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک ایسی شاعرہ کے طور پر مشہور ہوئیں جو جدید عہد میں مرد اور زن کی برابری کی شدید خواہاں ہیں۔

فہمیدہ ریاض پر جب ضیا الحق کے دور میں مقدمے قائم ہوئے تو انہوں نے خودساختہ جلاوطنی کے تحت ہندوستان میں رہائش اختیار کی اور 1988 میں ضیا الحق کے انتقال کے بعد پاکستان لوٹ آئیں۔ شاعری کے علاوہ انہوں نے نثر اور دیگر تراجم میں بھی اپنا اہم کردار ادا کیا۔

انہوں نے شیخ ایاز اور مولانا جلال الدین رومی کی مثنوی کے کئی تراجم بھی کئے۔ عمر کے آخری حصے میں انہوں نے نثری تخلیقات پر بھی کام کرنا شروع کردیا تھا۔ فہمیدہ نیشنل بک فاؤنڈیشن کی منیجنگ ڈائریکٹر بھی رہیں۔

آدمی کی زندگی، بہ خانہ آب و گل، کھلے دریچے سے، پتھر کی زبان، سب لعل وگہر، آدمی کی زندگی، بدن دریدہ اور خطِ مرکوز ان کی اہم تصانیف ہیں۔ 23 مارچ 2010 کو صدرِ پاکستان نے فہمیدہ ریاض کی خدمات کے اعتراف میں انہیں ستارہ امتیاز عطا کیا۔ اس کے علاوہ حکومتِ سندھ نے شیخ ایاز ایوارڈ اور ادب میں مزاحمت کے اعتراف کے طور پر انہیں ہیمے ہیلمن ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

[pullquote]فہمیدہ ریاض بھی خاموش ہو گئیں[/pullquote]

شہر والو سنو ۔۔
اس بریدہ زباں شہر میں قصہ گو خوش بیاں آئے ہیں
شہر والو سنو! اس سرائے میں ہم قصہ خواں آئے ہیں
شہرِ معصوم کے ساکنو! کچھ فسانے ہمارے سنو
دُور دیسوں میں ہوتا ہے کیا،ماجرے آج سارے سنو
وہ سیہ چشم،پستہ دہن،سیم تن، نازنیں عورتیں
وہ کشیدہ بدن، سبز خط ، خوش قطع، ماہ رُو نوجواں
اور وہ جادوگری ان کی تقدیر کی
وہ طلسمات، سرکار کی نوکری
اک انوکھا محل
جس گزرا تو ہر شاہزادے کا سر، خوک کا بن گیا
درس گاہوں میں وہ جوق در جوق جاتے ہوئے نوجواں
وہ تبسم فشاں ان کی پیشانیاں، ہائے کھوئی کہاں
آن کی آن میں پِیر اتنے ہوئے
ضعف سے ان کی مژگاں تلک جھڑگئیں
جسم کی روح پر جھریاں پڑ گئیں
اور وہ شہزادیاں
کچی عمروں میں جو سیر کرنے گئیں
باغ کا وہ سماں
عشق کے پھول کھلتے ہوئے دُور تک ریشمی گھاس میں
وہ فسوں ساز خوشبو، بھٹکتی ہوئی ان کے انفاس میں
افسروں اور شاہوں کی آغوش میں
ان کے نچلے بدن کیسے پتھرا گئے
وہ عجب مملکت
جانور جس پہ مدت سے تھے حکمراں
گو رعایا کو اس کا پتہ تک نہ تھا
اور تھا بھی تو بے بس تھے ، لاچار تھے
ان میں جو اہل ِ دانش تھے، مدت ہوئی مر چکے تھے
جو زندہ تھے، بیمار تھے
کچھ عجب اہل ِ فن بھی تو تھے اس جگہ
سامری سِحر کے روگ میں مبتلا
خلعتِ شاہ تھی ان کی واحد دوا
بیشتر قابِ سلطان کے خوشہ چیں
گیت لکھتے رہے، گیت گاتے رہے
عہدِ زرّیں کے ڈنکے بجاتے رہے
کن وزیروں سے ان کی رقابت رہی
اور کام آئی کس کس کے جادو گری
شاہ کا جب کھٹولا اڑایا تو پھر
کیا ہوئی وہ پری
جمع کرتے تھے ہم
ایک رنگیں فسانہ، عجب داستاں
آستینوں میں دفتر نہاں لائے ہیں
شہر والو سنو

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے