والدین سے کہااسے دے کر لڑکا لے لو: نرگس ترکئی

افغانستان میں جب نرگس ترکئی کی پیدائش ہوئی تو وہ اپنے والدین کی پانچویں بیٹی تھیں اور ان کے والدین کو کہا گیا کہ وہ گاؤں میں کسی بچے کے ساتھ اس کو تبدیل کر لیں۔

اب وہ 21 برس کی ہیں اور انھوں نے اب اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا ہے کہ وہ ثابت کریں گی کہ ان کے والدین کا انھیں اپنے پاس رکھنے کا فیصلہ درست تھا۔

نرگس اب اپنے ملک میں خواتین کی تعلیم اور ان کو بااختیار بنانے کے لیے کام کرتی ہیں، اور وہ سنہ 2018 میں بی بی سی کی منتخب شدہ 100 خواتین میں شامل ہیں۔

سنہ 1997 میں، میں نے اس دنیا میں اپنے والدین کی پانچویں اولاد، پانچویں لڑکی کے طور پر آنکھ کھولی۔

میرے والد کی بہن، اور دیگر رشتے داروں نے فوراً ہی میری والدہ پر دباؤ ڈالا کہ وہ میرے والد کی دوسری شادی کے لیے مان جائیں۔ افغانستان میں دوسری یا تیسری شادی کرنا غیرمعمولی نہیں، اور ایسا بعض اوقات اس لیے بھی کیا جاتا ہے کہ نئی بیوی سے لڑکے کی پیدائش کا نیا موقع ہوتا ہے۔

جب انھوں نے انکار کیا تو انھوں نے میرے والد کو مشورہ دیا کہ وہ میرے بدلے کسی سے لڑکا لے لیں۔ یہاں تک کہ انھیں گاؤں میں ایک ایسا خاندان بھی مل گیا جو اپنا لڑکا دینے اور مجھے لے جانے کا خواہش مند تھا۔

بچوں کی تبدیلی کا کام ہمارے معاشرے کا حصہ نہیں، اور میں نے کبھی نہیں سنا کہ ایسا اس سے پہلے کبھی ہوا ہو، لیکن افغان معاشرے میں لڑکوں کی زیادہ قدر کی جاتی ہے کیونکہ وہ روایتی خاندانوں میں کمائی کا ذریعہ ہوتے ہیں۔

لوگ جان بوجھ کر میری والدہ کو تنگ کرنے کے لیے میری والدہ کو باتیں سناتے اور ان کا لڑکا نہ ہونے پر انھیں کمتر ہونے کا احساس دلاتے۔

ان کی جانب سے مجھے الگ نہ کرنے سے انکار کے باوجود کچھ بڑے بوڑھے میرے والد کو کچھ کہتے رہتے۔ لیکن میرے والد کی ذہنیت بالکل مختلف تھی۔ انھوں نے انھیں بتایا کہ وہ مجھ سے پیار کرتے ہیں، اور ایک دن وہ انھیں ثابت کریں گے کہ بیٹی بھی وہی سب کچھ حاصل کر سکتی جو ایک بیٹا حاصل کرسکتا ہے۔

میرے والد کے لیے یہ آسان وقت نہیں تھا۔ ان کا تعلق فوج سے رہا تھا اور وہ سوویت یونین کی حمایت یافتہ حکومت میں کام کر چکے تھے، اور میرا آبائی ضلع اس وقت مذہبی یا شدت پسند رجحان رکھنے والے افراد کے کنٹرول میں تھا۔

چنانچہ گاؤں میں مخصوص افراد ان سے نفرت کرتے اور ہمارے ساتھ اٹھتے بیٹھنے نہیں تھے۔

لیکن میرے والدین نے جو کہا تھا انھیں اس پر یقین تھا، اور وہ اپنی زبان پر ہمیشہ قائم رہے۔ اگرچہ میرے والدین پر دباؤ‌ تھا کہ وہ مجھے تبدیل کر لیں کیونکہ میں لڑکی تھی، اس شخص کا میرے کردار پر سب سے زیادہ مثبت اثر ہوا۔

[pullquote]گھر چھوڑنا[/pullquote]

حالات اس وقت انتہائی خراب ہوگئے جب طالبان نے ہمارے ضلعے پر قبضہ کر لیا۔ سنہ 1998 میں میرے والد پاکستان جانا پڑا اور کچھ ہی عرصہ بعد ہم بھی وہاں چلے گئے۔

زندگی آسان نہیں تھی لیکن انھوں نے ایک جوتوں کی فیکٹری میں مینجر کے طور پر کام حاصل کر لیا۔ پاکستان میں قیام کے دوران میرے والدین کے لیے سب سے بہتر یہ ہوا کہ پانچویں لڑکی کے بعد ان کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا۔

سنہ 2001 میں جب طالبان حکومت کا تختہ الٹ گیا تو ہم کابل واپس آ گئے۔ ہمارے پاس اپنا گھر نہیں تھا اور ہمیں اپنے قریبی عزیزو اقارب کے گھر رہنا پڑا۔ معاشرے میں تنگ نظری کے باوجود میں اور میری بہنیں سکول جاتی رہیں۔

میں نے کابل یونیورسٹی سے پبلک پالیسی اور ایڈمنسٹریشن کی تعلیم حاصل کی اور دو سال اس تعلیمی سال سب سے زیادہ نمبر حاصل کیے۔ اس دوران میرے والد مجھے سپورٹ کرتے رہے۔

دو سال پہلے میں کابل میں اپنی بہن کے ہمراہ کرکٹ میچ دیکھنے گئی۔ سٹیڈیم میں زیادہ خواتین نہیں تھیں اور ہماری تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر پھیل گئیں۔

لوگوں نے ہمیں تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا اور منفی تبصرے کیے گئے کہ ہم بے شرم ہیں کہ ہم مردوں کے درمیان سٹیڈیم میں تھیں۔ دیگر نے کہا کہ ہم زنا پھیلانے کی کوشش کر رہی ہیں اور امریکیوں نے ہمیں پیسہ دیا ہے۔

میرے والد نے فیس بک پر کچھ تبصرے دیکھے، انھوں نے مجھے دیکھا اور کہا کہ ‘میری جان، تم نے صحیح کام کیا ہے۔ میں خوش ہوں کہ تم ان میں سے کچھ بیوقوفوں کو خفا کیا ہے۔ زندگی مختصر ہے۔ جتنا ہو سکے اس کا لطف لو۔’

میرے والد اس سال کے شروع میں کینسر سے چل بسے۔ ان کے جانے سے میں نے وہ شخص کھو دیا جو میرے لیے مسلسل حوصلہ افزائی کا باعث تھا، اور میں جانتی ہوں کہ وہ ہمیشہ میرے ساتھ رہیں گے۔

تین سال قبل میں نے غزنی میں اپنے آبائی گاؤں میں لڑکیوں کا ایک سکول کھولنے کی کوشش کی تھی۔ میں نے اس بارے میں اپنے والد سے بات کی اور ان کا کہنا تھا کہ ثقافتی پابندیوں کی وجہ سے یہ تقریباً ناممکن ہے جبکہ سکیورٹی کے نامناسب حالات کی وجہ سے لڑکوں کو بھی مشکل ہے۔

میرے والد نے سوچا کہ مذہبی مدرسے کا نام رکھنے سے شاید کچھ امکانات پیدا ہو جائیں۔

لیکن میں اپنے آبائی گاؤں تک سفر نہ کر سکی کیونکہ یہ بہت خطرناک تھا۔ میں اور میری ایک بہن آج بھی یہ اس مقصد کو حاصل کرنے کی امید رکھتے ہیں۔

اس دوران میں نے کئی برسوں تک غیرسرکاری تنظیموں میں رضاکارانہ طور پر خواتین کی تعلیم، صحت اور خوداختیاری کے حوالے سے کام کیا۔

میں نے ایک لڑکی کے سکول اور یونیورسٹی جانے اور ملازمت حاصل کرنے کے حق کے بارے میں خطابات کیے۔

میں نے ہمیشہ یونیورسٹی آف آکسفرڈ میں پڑھنے کا خواب دیکھا ہے۔ جب میں بین الاقوامی یونیورسٹیوں کی درجہ بندی دیکھتی ہوں تو ہمیشہ آکسفرڈ کو پہلے یا دوسرے نمبر پر پاتی ہوں، اور جب میں اس کا موازنہ کابل یونیورسٹی سے کرتی ہوں تو کچھ برا محسوس ہوتا ہے، اگرچہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں وہاں جانے پر ناشکری کا اظہار کر رہی ہوں۔

میں فارغ اوقات میں پڑھنا پسند کرتی ہوں۔ اوسطا ایک ہفتے میں دو یا تین کتابیں۔ اور پائلو کوئلہو میرے پسندیدہ مصنف ہیں۔

[pullquote]’کوئی سمجھوتہ نہیں‘[/pullquote]

شادی کے معاملے میں میں کوئی اپنے جیسا منتخب کرنا چاہتی ہوں اور میرے خاندان نے مجھے اپنی پسند کی شادی کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے۔

اگر مجھے کوئی ایسا مل جائے جس میں میرے والد کی طرح کی خصوصیات ہوں تو یہ کتنا اچھا ہو گا۔ میں اپنی بقیہ ساری زندگی کسی ایسے شخص کے ساتھ گزارنا چاہوں گی جس کا ایسا ہی مزاج ہو۔ جو مجھے سہارا دے سکے اور میرے شانہ بشانہ کھڑا ہو۔

خاندان بھی اہم ہے۔ بعض اوقات اپ کسی بہترین شخص سے شادی کرتے ہیں لیکن اس کے خاندان کو اپنا نہیں سکتے۔

میں زندگی میں جو کچھ کرتی ہوں انھیں اس میں میری مدد کرنا ہو گی۔ اگر وہ اختلاف کرتے ہیں تو مجھے ان کے ذہن تبدیل کرنا ہوں گی۔ مجھے جو زندگی میں حاصل کرنا ہے مجھے اس پر یقین ہے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے