اڑیں گے پرزے: سنگِ دشنام بھی!

پچھلے ہفتے ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک گھبرو جوان پنجوں پہ تنا، اپنے کسی دوست کے ساتھ کھڑا، گالیاں بک رہا ہے اور اپنے سامنے کھڑی عورت سے معافیاں منگوا رہا ہے۔ عورت چونکہ پیدا ہی خطاوار ہوئی ہے اور خاص کر اس وقت جب ایک اتھرا ہوا جوان مسلح اپنے دوست کے ساتھ کھڑا ہو تو عورت کا ہاتھ جوڑنا ہی درست تھا۔

ہاتھ جوڑے کھڑی اس عورت نے اس مایہ ناز نوجوان کے پیروں میں بیٹھ کر معافی مانگی، لیکن اسے یہ بات بھی نہ بھائی اور پستول کا دستہ لڑکی کے پیٹ میں اس زور سے مارا کہ وہ درد سے دہری ہو گئی۔ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پہ چلی اور اس لڑکے کی شناخت بھی کر لی گئی۔ اس کا فیس بک اکاؤنٹ بھی لوگوں کی نظر میں آیا اور یہ بھی نظر آیا کہ لڑکا خاصا مذہبی ہے۔

پولیس نے مبینہ طور پہ چھاپہ مارا، لڑکا مبینہ طور پہ، چین چلا گیا جہاں سے اس نے اپنا فیس بک اکاؤنٹ ڈی اکٹیویٹ کر دیا۔ یقیناً بہت پہنچا ہوا ہے جو چین سے بیٹھ کے اپنا اکاؤنٹ ختم کر دیا کیونکہ چین میں تو فیس بک استعمال ہی نہیں کی جا سکتی۔

اس کیس کا کیا ہو گا؟ وہی ہو گا جو ایسے بہت سے معاملات کا ہوتا آیا ہے۔ رونے والے روئیں گے۔ کچھ لوگ مزے لیں گے، لڑکا مفرور رہے گا اور لڑکی ہر گزرتے دن کے ساتھ بدنام ہو تی جائے گی۔ جب معاملہ ٹھنڈا پڑ جائے گا تو لڑکا واپس آجائے گا اور انھی گلیوں اور بازاروں میں اینڈتا پھرے گا جن سے وہ لڑکی گھونگھٹ کاڑھ کے بھی گزرنے کے قابل نہیں رہی۔ لڑکی ہی کیا، اس کا سارا خاندان۔

بہت ہو گا تو دونوں خاندانوں کے درمیان راضی نامہ ہو جائے گا۔ بات ختم ہو جائے گی۔ لیکن کیا بات ختم ہو گئی ہے؟ پہلے بات صرف یہاں تک تھی کہ گھر سے باہر رہنے والی عورت غیر محفوظ تھی۔ اب خیر سے چار دیواری کا تقدس بھی ختم۔

ویسے کیا چار دیواری کا تقدس کبھی تھا؟ گھروں کے اندر جلا دی جانے والیوں کو بچانے کو کیا یہ بے جان دیواریں کبھی آگے بڑھیں ؟ دیواریں آج بھی خاموش ہیں، لیکن آج ان دیواروں کے کان اور آنکھیں اگ آئی ہیں اور یہ گھر کی باتیں باہر بتانے لگی ہیں۔ کیا دیواروں کی ان چغلیوں سے یہ ماں کے لاڈلے سنور جائیں گے؟

ابھی چند روز پہلے ایک اور ویڈیو نظر سے گزری، جس میں ایک صاحب مستقل اپنی جان کھجائے چلے جا رہے ہیں۔ یہ جانتے بوجھتے بھی کہ ان کی ساتھ کی نشست پہ ایک خاتون بیٹھی ہیں۔ کہتے ہیں کہ آپ کی آزادی وہاں ختم ہو جاتی ہے جہاں میری ناک شروع ہوتی ہے لیکن کچھ معاملوں میں آپ کی آزادی کی حد بہت پہلے آ جاتی ہے۔

بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ ممکن ہے بےچارے کو کوئی جلدی مرض ہو۔ بہت ممکن ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ مرض پاکستان ہی میں اتنا عام کیوں ہے؟ ہمارے ایک سابق وزیرِ اعظم اور ان سے بھی سابق وزیرِ قانون بھی سرِ عام اس مرض میں مبتلا پائے گئے۔ دوسرا سوال یہ کہ یہ لوگ اس مرض کا کوئی اچھا سا علاج کیوں نہیں کروا لیتے؟

ایک اوربری عادت جو کہ یقیناً بیماری ہی ہو گی، سرِ عام موتنے کا مرض ہے۔ حالانکہ دیواروں پہ جگہ جگہ لکھا بھی ہوتا ہے کہ وہ دیکھو کتے کا بچہ پیشاب کر رہا ہے۔ لیکن کوئی بھی اپنے باپ کو گالی پڑوانے سے باز نہیں آتا۔ ایسے میں فخریہ ادھر ادھر بھی دیکھا جاتا ہے، جیسا کہ دنیا سے کوئی انوکھا کام سر انجام دے رہے ہوں اور اس دوران اگر قسمت سے کسی خاتون کی نظر پڑ جائے تو وہ خاتون ہی شرم سے زمین میں گڑ جاتی ہے کہ کس قوم میں پیدا ہو گئی۔

سرِ عام تھوکنا، پھیل کر بیٹھنا، اونچی آواز میں قہقہہ لگانا، فحش گوئی کرنا اور گالیاں بکنا، ہتھیاروں کی سرِ عام نمائش، جگہ جگہ موتنا، جسم کے مخصوص حصوں کو کھلے عام کھجانا، قطعاً اچھی عادات نہیں ہیں۔ ایسا کرنے والے دیکھنے میں بے حد برے لگتے ہیں اور عورتوں پہ ہاتھ اٹھانے والے اور ان کو گالیاں دینے والے نہائت کمزور مرد ہوتے ہیں۔

اگر آپ کی امی نے آپ کو یہ باتیں کسی وجہ سے نہیں بتائی تھیں، یا بتائی تھیں اور آپ اپنے غبی پن کی وجہ سے بھول گئے تو دوبارہ یاد کر لیجیے۔

کہتے ہیں سیکھنے کی عمر کبھی نہیں گزرتی۔ آج بھی سیکھ لیں گے تو کچھ نہیں بگڑے گا سوائے اس کے کہ کل آپ کسی وائرل ویڈیو کا لعنتی کردار بننے سے بچ جائیں گے، شکریہ!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے