چین ترقی کے باوجود عالمی بالادستی کا متلاشی نہیں: شی جن پنگ

چین میں معاشی اصلاحات کے 40 برس پورے ہونے پر اپنی تقریر میں صدر شی جن پنگ نے کہا ہے کہ ان کا ملک دوسری اقوام کے بل بوتے پر ترقی نہیں کرے گا۔

تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا عالمی سپر پاور کو کسی کو یہ نہیں بتانا چاہیے کہ وہ کیا کرے۔

چین میں ہونے والی ترقی کے نتیجے میں وہ اس وقت دنیا کی دوسری بڑی عالمی معیشت بن چکا ہے لیکن صدر شی جن پنگ نے اپنی تقریر میں امریکہ کے ساتھ جاری تجاری جھگڑے پر بات نہیں کی۔

چین کے آنجہانی رہنما دنگ شاؤپنگ کی جانب سے ’اصلاحات اور آگے بڑھنے‘ کی مہم چار دہائیاں قبل شروع کی گئی تھی۔

اس کے نتیجے میں ہونے والی ترقی سے چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن کر ابھری۔

چینی صدر شی جن پنگ نے کہا ہے کہ ترقی کے باوجود ان کا ملک عالمی بالادستی کا متلاشی نہیں۔

انھوں نے انسانیت کے مستقبل کے لیے چین کی جانب سے کی جانے والی کوششوں پر بھی روشنی ڈالی۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ سیاسی اختلاف رائے والوں کے خلاف چین کا کریک ڈاؤن جاری ہے اور یہ لسانی اور سماجی عدم استحکام کے خلاف سخت موقف رکھنے والوں سے بھی سختی سے نمٹ رہا ہے۔

جنوبی بحیرہ چین میں فوجی نقل و حرکت کی وجہ سے چین کے ایشیائی ہمسایوں میں خدشات بڑھے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اس سے چین خطے میں اجارہ داری قائم کرنا چاہتا ہے۔

تنقید کرنے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ چین پورے ایشیا اور افریقہ میں جن ممالک کو بنیادی ڈھانچے کی ضرورت ہے وہ انھیں اربوں ڈالر قرض دے رہا ہے تاکہ وہ سٹریٹیجک سطح پر اثرورسوخ حاصل کر سکے۔

حالیہ برسوں میں ملک نے خسارے سے نمٹنے اور سست رفتار معاشی ترقی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوششیں کیں۔

اپنی تقریر کے زیادہ حصے میں چین کے صدر نے گذشتہ دہائیوں میں ملکی ترقی کے لیے حاصل ہونے والے اہداف کی مثالیں پیش کیں۔

ان کا کہنا تھا کہ چین کی ترقی کے پیش نظر کوئی ملک اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ چین کے عوام کو یہ حکم دے کہ انہیں کیا کرنا اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔

ساتھ ہی انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ بیجنگ نے دنیا کے لیے بہت بڑی اور مثبت کوششیں اور کام کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چین عالمی امن کا داعی ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں اس کا اہم کردار ہے۔

چین میں معاشی اصلاحات کا آغاز سنہ 1978 میں اس وقت کے رہنما دنگ شاؤپنگ نے کیا تھا جس کی توثیق 18 دسمبر یعنی آج ہی کی تاریخ کو کی گئی تھی۔

ان اصلاحات پر چلتے ہوئے ملک کیمونزم سے ہٹ گیا تھا اور تبدیلی کے اس سفر میں زرعی اصلاحات پر توجہ دی گئی، نجی شعبے کو آزادی دی گئی، انڈسٹری، جدیدیت اور عالمی تجارت کے راستے کھولے گئے۔

صدر شی جن پنگ نے ان اصلاحات کو سابقہ غلطیوں کو سدھارنے کا ذریعہ قرار دیا۔

[pullquote]کوئی سیاسی تبدیلی نہیں [/pullquote]

معاشی اصلاحات کے باوجود چین گذشتہ دہائیوں میں کمیونسٹ قانون کے سخت ون پارٹی سسٹم میں کوئی تبدیلی نہیں لائی۔

منگل کو صدر نے بیجنگ کے گریٹ ہال آف دا پیپل میں اپنی تقریر کی یہ تیان من سکوائر میں واقع ہے جہاں سنہ 1989 میں سیاسی اصلاحات کو سفاکی سے کچل ڈالا تھا۔

اپنی تقریر میں چینی صدر نے اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ وہ اپنی پارٹی لیڈر شپ کی مضبوطی پر یقین رکھتے ہیں۔

انھوں نے بیجنگ کی جانب سے کرپشن کے خلاف کیے جانے والے کریک ڈاؤن کی تعریف بھی کی۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ شی جن پنگ نے سیاسی مخالفین کے خلاف سخت ترین کریک ڈاؤن کیا ہے جو کہ اسے سے پہلے اتنا سخت کبھی نہیں تھا۔

حکام پر الزامات ہیں کہ وہ مختلف مذہبی گروہوں پر بہت زیادہ تسلط قائم کرتے ہیں۔ اس میں مسلمان اویغور اقلیت کو وحشیانہ اندارز میں دبایا جاتا ہے۔

ماؤ زیدونگ کے بعد شی جن پنگ کو چین کا سب سے زیادہ پراثر لیڈر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

سنہ 2017 میں ان کے اقتدار کو ایک بار پھر تقویت ملی تھی اور انھوں نے ملک کے قانون میں تبدیلیاں بھی کی تھیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے