افغانستان کیلئے روسی صدر ولادی میر پوٹن کے خصوصی نمائندے ضمیر کابولوف اسلام آباد میں ہیں جہاں وہ پاکستانی حکام کے ساتھ افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں بات چیت کر رہے ہیں۔
ایک سینئر پاکستانی اہلکار نے وائس آف امریکہ کے ایاز گل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ علاقے کے ملکوں میں افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے جائز خدشات پائے جاتے ہیں اور یوں یہ ملک اس سلسلے میں ہونے والی پیش رفت کے حوالے سے ایک دوسرے سے صلاح مشورہ کرتے رہتے ہیں اور روس کے خصوصی نمائندے سے ملاقاتوں کے دوران اسی مسئلے بات تبادلہ خیال ہو گا۔
افغان اُمور کے ماہر میر واعظ افغان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں پاکستان کا کردار اہم ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ امریکہ نے افغانستان سے نکلنے کا فیصلہ کر لیا ہے جس سے طالبان کے ساتھ ساتھ روس بھی خوش ہے کیونکہ روس کا بھی یہی مطالبہ رہا ہے کہ امریکہ افغانستان سے فوری طور پر اپنی فوجیں واپس بلا لے۔
میر واعظ افغان کا کہنا تھا کہ طالبان نے یہ وعدہ بھی کر رکھا ہے کہ وہ داعش کو اپنی دہشت گرد سرگرمیوں کیلئے افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اور روس میں اس بارے میں خصوصی دلچسپی پائی جاتی ہے۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ روسی صدر ولادی میر پوٹن کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان ضمیر کابولوف اسلام آباد میں پاکستانی حکام کے ساتھ امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے حالیہ مذاکرات میں طے پانے والے معاملات پر بھی تبادلہ خیال کریں گے تاکہ ایک سٹیک ہولڈر کی حیثیت سے روس اپنے کردار کا بہتر انداز میں تعین کر سکے۔
میر واعظ افغان کا کہنا تھا کہ روس اور پاکستان سمیت خطے کے تمام ممالک کا کسی نہ کسی حوالے سے طالبان کے ساتھ ایک قریبی تعلق بن چکا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ دوہا میں طالبان سے مذاکرات سے قبل افغانستان کیلئے امریکہ کے خصوصی سفارتی نمائندے زلمے خلیل زاد نے روس اور خطے کے تمام دیگر ممالک کا دورہ کیا تھا۔ یوں ہر ملک افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں ایک سٹیک ہولڈر ہے۔
امریکہ کے معروف تھنک ٹینک ’’کیٹو انسٹی ٹیوٹ‘‘ کی تجزیہ کار سحر خان اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ ساتھ روس بھی ایک اہم سٹیک ہولڈر ہے اور روس اور پاکستان دونوں کی یہ کوشش ہے کہ طالبان افغان حکومت کے ساتھ اسی انداز میں براہ راست بات چیت کرے جیسے اُس نے امریکہ کے ساتھ کی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ طالبان کا مؤقف یہ رہا ہے کہ اُن کے نزدیک افغانستان کی موجودہ حکومت کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اور وہ محض امریکہ کی پپٹ حکومت ہے۔ اسی لئے اُنہوں نے امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر اصرار کیا تھا اور یوں گزشتہ ہفتے دوہا میں طالبان اور امریکہ کے درمیان کئی روز تک مذاکرات جاری رہے۔ تاہم امریکہ کے انخلاء کی صورت میں بھی بالآخر طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ براہ راست بات چیت کرنا ہو گی اور روسی نمائندےکے حالیہ دورہ اسلام آباد کا مقصد بھی یہی ہے کہ روس اور پاکستان ملکر طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ جلد از جلد مذاکرات شروع کرنے پر آمادہ کریں۔