ویمن ڈے: عورت کی شناخت مرد سے نہیں ہوتی، عورت کا وجود اس کا اپنا ہے

پاکستان میں عورتوں کے حقوق کے لیے آگاہی مہم چلانا اور ان کے بارے میں بات کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن مختلف ادوار میں ان کی شکل تبدیل اور ان کی پہنچ میں اونچ نیچ آتی رہی ہے۔ لیکن گذشتہ چند برسوں میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی آمد کے بعد سے عورتوں کے حقوق کے لیے اٹھنے والی آوازیں اب زیادہ موثر طور پر بڑی تعداد میں لوگوں تک پہنچ رہی ہیں جس کی مدد سے عام خواتین میں بھی اس مقصد کے لیے شعور جاگا ہے اور وہ اس کے لیے باہر نکل کر اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے کے لیے سرگرم ہو گئی ہیں۔

گذشتہ سال کی طرح اس سال بھی پاکستان کے چند بڑے شہروں میں خواتین کے مختلف گروپس نے عورتوں کے حقوق کے حصول اور آگاہی پھیلانے کے سلسلے میں جمعے کے روز مارچ کا انعقاد کیا ہے۔ کراچی میں یہ مارچ تاریخی عمارت فرئیر ہال سے شروع ہوگا جبکہ لاہور اور اسلام آباد میں ان دونوں شہروں کے پریس کلبز پر مارچ کے شرکا جمع ہوں گے۔

عابد حسین نے اسی حوالے سے ان شہروں میں رہائش پذیر تین خواتین سے گفتگو کی اور ان سے سوال کیا کہ ان کی ذاتی زندگی میں ایسے کیا واقعات رونما ہوئے تھے جن کی وجہ سے ان میں عورتوں کے حقوق کی مہم میں شرکت کرنے کی خواہش پیدا ہوئی اور ان کے نزدیک عورت مارچ کی کیا اہمیت ہے اور وہ کیا معنی رکھتا ہے۔

[pullquote]مریم سلیم فاروقی (اسلام آباد)[/pullquote]

میرا نام مریم سلیم فاروقی ہے اور میرا تعلق اسلام آباد سے ہے، اور میں آٹھ مارچ کو اسلام آباد میں ہونے والے عورت مارچ میں حصہ لوں گی۔

اس مارچ میں حصہ لینا میرے لیے ذاتی طور پر بہت اہمیت رکھتا ہے۔

میں جب گھر میں بڑی ہو رہی تھی تو وہاں زیادہ تر ذمہ داری خواتین نے لی ہوئی تھی اور انھوں نے سب کچھ کیا۔ 14 سال قبل میرے والد کا انتقال ہوا تو لوگوں نے میری والدہ سے ہم سب بہنوں کے سامنے کہا کہ اگر بیٹا ہوتا تو زندگی کتنی آسان ہوتی اور ساتھ میں میری ماں کو کہا کہ اب تو آپ اپنے بھائی کے گھر رہیں گی کیونکہ آپ اکیلے تو رہ نہیں سکتیں۔

لیکن نہ میری والدہ نے کسی سے مدد مانگی اور نہ وہ اپنے بھائی یا کسی اور کے پاس گئیں۔ انھوں نے گذشتہ 14 سالوں میں خود ہمیں پالا پوسا اور ہمیں ایک مقام تک پہنچایا اور یہ میرے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔

جب عورت بیوہ ہو جاتی ہے تو اس کی زندگی نہیں رکتی۔ عورت کی شناخت مرد سے نہیں ہوتی، عورت کا وجود اس کا اپنا ہے اور یہ بات ہمارے معاشرے میں لوگوں میں سمجھ نہیں آتی اور یہی وجہ ہے کہ میں عورت مارچ میں حصہ لینا چاہتی ہوں تاکہ عورتوں کے حقوق کے لیے آواز بلند ہو اور انھیں وہ حقوق ملیں جو ان کا حق ہے۔

میں خود کو بہت خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ کیونکہ میں نے اپنے ارد گرد ایسی بہت سے خواتین دیکھی ہیں، جیسے میری اپنے والدہ، میری خالہ، میری دونوں پھوپھی، اور میری بہنیں، جنھوں نے زندگی میں بہت سی مشکلات کو دیکھا لیکن ان کا بڑھ چڑھ کر مقابلہ کیا۔

کئی مواقع پر مردوں نے ان کا ساتھ دیا، کئی جگہ نہیں دیا اور کئی مسائل تو مردوں کی وجہ سے ہی پیدا ہوئے، لیکن ان خواتین نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ ہم خود سے نہیں کر سکتے۔ ان سب نے اپنی زندگی خود بنائی، بچے پالے اور اسی طرز عمل سے مجھے یہ راستہ دکھایا کہ عورت خود سب کچھ کرنے کے قابل ہے۔

میں چاہتی ہوں کہ ہم سب عورتوں کو یہ معلوم ہو کہ ہم سب کچھ خود کر سکتے ہیں اور ہمیں کسی مرد کی موجودگی کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں خود آزاد ہونا چاہیے۔ معاشی طور پر، سماجی طور پر، ہمیں زندگی اپنے لیے جینی چاہیے، کسی اور کے لیے نہیں۔

اگر ہم خود اپنی آواز نہیں اٹھائیں گے تو کوئی ہماری بات نہیں سنے گا۔ عورت کے ساتھ جو زیادتیاں ہوتی ہیں، جو حقوق نہیں ملتے، اس کا درد ایک عورت ہی سمجھ سکتی ہے اور اس لیے ضروری ہے کہ ہم سب نکلیں اور لوگوں کو بتائیں کہ ہمارے معاشرے میں مسائل کیا ہیں اور ہمیں کیا نہیں مل رہا۔

عورت مارچ صرف چند گھنٹوں یا ایک دن کا نہیں بلکہ یہ ایک بڑی مہم کا حصہ ہے جو آگے بڑھے گی اور ضروری ہے کہ ہم سب اس کے لیے باہر نکلیں، چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔

گذشتہ سال اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں عورتوں کے لیے سائیکل ریلی ہوئی تھی اور میں نے اس میں حصہ لیا تھا۔ کوئی آدھے گھنٹے اسلام آباد کی سڑکوں پر سائیکل چلائی اور وہ کافی پراثر تھا۔ کئی لوگوں نے اس کو اچھا سمجھا اور مثبت طور پر لیا لیکن کافی لوگوں کی جانب سے منفی رد عمل سامنے آیا تھا۔

ایک چھوٹی سے بات ہے لیکن عورت کا ایک گروپ میں سڑک پر آجانا کوئی آسان بات نہیں ہے۔ بہت سوچنا پڑتا ہے۔ میں نے کیا پہنا ہوا ہے، کیا میں نے دوپٹہ لیا ہوا ہے یا نہیں، کیا میں نے پتلون پہنی ہوئی ہے، کیا میں اس طرح کسی جگہ جا سکتی ہوں یا نہیں، کیا یہ میرے لیے صحیح ہے یا نہیں، یہ سب بہت سوچنا پڑتا ہے اور صرف ایک عورت کو پتا ہوتا ہے کہ گھر سے بازار جانے تک کتنا سوچنا پڑتا ہے۔

لیکن اب بس بہت ہو گیا۔ وقت آگیا ہے کہ ہم ساتھ باہر نکلیں اور اکھٹے ہو کر اپنی آواز بلند کریں کہ یہ سال 2019 ہے، اب ہم عورتوں کو حقوق دینے کا وقت آگیا ہے۔

[pullquote]ثنا جہانگیر (کراچی)[/pullquote]

میں ثنا جہانگیر ہوں اور میں انڈس ہسپتال سے بحیثیت ایچ آر پروفیشنل منسلک ہوں۔

عورت مارچ میں حصہ لینے کی میری سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ میں سمجھتی ہوں کہ انسان کو اُس کے بنیادی حقوق ملنے چاہییں، خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ میں اس مارچ میں لوگوں سے اپنی کہانی بیان کر سکوں تاکہ شاید وہ اس سے متاثر ہوں اور کوئی سبق لے سکیں، انھیں حوصلہ یا کوئی راستہ ملے۔

میری خود بہت چھوٹی عمر میں شادی ہوگئی تھی اور اُس وقت تو مجھے خود نہیں پتا تھا کہ شادی کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ والدین کا فیصلہ تھا، پہلے کہتے تھے کہ ڈاکٹر بننا ہے لیکن پھر ایک دم سے پتا چلا کہ شادی کرنی ہے اور پھر شادی ہوگئی لیکن بدقسمتی سے یہ ناکام رہی۔

مجھے شروع سے ہی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ تشدد جسمانی بھی تھا اور ذہنی بھی۔ شادی سے پہلے میں جیسی تھی، اس کے بعد میں بالکل تبدیل ہوگئی۔

جب بھی میں نے اپنے ساتھ ہونے والے واقعات کے بارے میں کچھ کہنے کی کوشش کی تو مجھے چپ کرا دیا گیا کہ بیٹیوں کو گھر بسانا ہوتا ہے اور ان کا کام ہوتا ہے کہ حالات سے سمجھوتا کر لیں کیونکہ وہیں گزارا کرنا ہے، تو میں نے یہ سن کر ہار مان لی۔

میری ایک بیٹی بھی ہوئی تھی لیکن اسے قبول نہیں کیا گیا اور اس کا تو نام دینے میں بھی بہت مشکل پیش آئی اور ایسا تاثر دیا گیا کہ بیٹی آ گئی تو بوجھ آگیا، بیٹا ہوتا تو اچھا ہوتا۔

لیکن میرے اس فیصلے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا اور جو چیز ہونی تھی، وہ ہو گئی۔ میری شادی ختم ہو گئی کیونکہ اسے چلنا ہی نہیں تھا اور وہ ایک غلط فیصلہ تھا۔ میری غلطی یہ تھی کہ میں نے اُس وقت بغیر سوچے سمجھے ماں باپ کی خاطر ہاں کر دی تھی۔

طلاق کے بعد سب لوگ دکھ میں تھے اور آپ کو علم ہے کہ معاشرے میں طلاق یافتہ عورت کو کیسا سمجھا جاتا ہے۔ لیکن میں نے تہیہ کیا کہ جو ہوا سو ہوا، اب مجھے آگے بڑھنا ہے۔

میری شادی انٹر کے بعد ہوگئی تھی تو شادی ختم ہونے کے بعد میں نے دوبارہ اپنی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا جو کہ کافی مشکل کام تھا کیونکہ میں بہت عرصے بعد کتابیں کھول رہی تھی اور میں نے جس طرح کی زندگی گزاری تھی، اس کی وجہ سے پڑھائی پر توجہ دینا بھی دشوار تھا۔

لیکن اس عرصے میں میری ماں نے میرا سب سے زیادہ ساتھ دیا اور مجھے حوصلہ دیا کہ میں اپنے ادھورے خواب پورے کروں۔

میں نے پڑھائی کرنی شروع کی اور اب ایم بی اے کرنے کے بعد سے میں نوکری کر رہی ہوں، خوش ہوں اور اپنی بیٹی کی زندگی پر توجہ دے رہی ہوں لیکن جو بات میرے لیے سب سے زیادہ اہم ہے وہ ہے کہ میں نے اس سارے سفر میں اپنے میں ایک طاقت محسوس کی، ایک شناخت حاصل کی ہے۔

مجھے اس تمام عرصے میں بےشمار دفعہ سننا پڑا کہ لوگ کیا کہیں گے، معاشرہ کیا کہے گا، لیکن میں نے خود کو پہچان لیا تو میں نے نہ کہنا سیکھ لیا۔ اپنے بارے میں سوچا کہ مجھے کیا پسند ہے، میرے لیے کیا ٹھیک ہے، اور صرف وہی کیا اور میرے فیصلے درست ہوتے گئے اور آج میں اس مقام پر ہوں کہ میں اپنے زندگی کی کہانی اعتماد کے ساتھ بتا سکتی ہوں۔

یہ تمام قصہ ہی میرا عورت مارچ میں جانے کی وجہ ہے۔ بہت ساری چیزیں اس لیے نہیں ہوتی کہ انھیں چھپایا جائے لیکن ہم انھیں اس لیے پھر بھی چھپاتے ہیں کیونکہ ہمیں ڈر ہوتا ہے کہ دنیا کیا کہے گی۔

ہم اپنی پہچان کیوں چھپائیں؟ ہمیں اپنے پہچان نہیں چھپانی چاہیے کیونک ہم خود اپنے لیے اور ایک دوسرے کے لیے سہارے کا باعث بنتے ہیں اور میری بیٹی میرے لیے سہارا ہے۔

ہر بات پر ہمیں یہ کہہ کر چپ کرا دیا جاتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے، عورت کی عزت نازک ہوتی ہے، چپ ہو جاؤ۔ اور اسی خاموشی کی وجہ سے ہمیں اتنی تکالیف ہوتی ہیں، اتنی گھٹن ہوتی ہے کہ لوگ زندہ لاشیں بن جاتے ہیں۔

ہم سب کو مل کر ایک دوسرے کی مدد کرنی ہوگی اور آگاہی پھیلانی ہوگی تاکے ہم جس چیز سے گزرے ہیں کہ اس کے بارے میں دوسروں کو بتائیں تاکہ وہ اس سے سبق سیکھ سکیں اور اس کے لیے عورت مارچ زبردست پلیٹ فارم ہے تاکہ ہم سب ایک ساتھ جمع ہو کر اس مشن کو آگے لے جائیں۔

[pullquote]لیلیٰ طارق (لاہور)[/pullquote]

میرے نزدیک عورت مارچ کی ایک اہم بات یہ ہے کہ اس کی مدد سے ہمیں عوامی مقامات پر آزادی حاصل کرنے کا موقع ملے گا۔ جب تمام خواتین مل کر اپنی طاقت کا اظہار کریں گی ہمیں احساس یکجہتی ہوگا اور ہم سب مل کر اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھا سکیں گے۔

مجھے عورتوں کے حقوق کے حوالے سے مہم میں راغب کرنے کی کئی وجوہات ہیں۔ کئی ایسے مواقع تھے جیسے میں گھر سے اگر تیز لپ سٹک لگا کر نکلتی ہوں تو میرے کردار پر انگلی اٹھائی جاتی ہے، میرے کردار کو میری شرٹ کی لمبائی سے ناپا جاتا ہے۔

ان کے علاوہ بھی بہت سی ایسی وجوہات ہیں جنھوں نے مجھے اس مقصد کی جانب راغب کیا۔ میں ایک صحافی ہوں، تو جب میں کبھی انٹرویو کے لیے جاتی ہوں تو پہلے سے ہی یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ میں شوبز کی طرف جانا چاہتی ہوں کیونکہ میں ایک عورت ہوں، کرنٹ افئیرز کی جانب میری توجہ نہیں ہوگی۔

اور جس جگہ پر لاہور میں یہ مارچ منعقد ہو رہا ہے، اس جگہ تو میں رات میں جانے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ ہراسگی کا سامنا تو مارچ کے دوران بھی کرنا ہوگا جیسا گذشتہ سال ہوا تھا لیکن مارچ کے علاوہ بھی شام کے وقت اس جگہ جانے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

سچی بات تو یہ ہے کہ گذشتہ سال کے بعد سامنے آنے والے ردعمل کے بعد مجھے امید نہیں ہے کہ اس سال کے مارچ کے بعد لوگوں کے رویوں میں تبدیلی آئے گی لیکن یہ ایک عمل کا حصہ ہے اور امید ہے کہ ہر سال تھوڑا تھوڑا کر کے کچھ تبدیلی آئے۔ لیکن یہ کیونکہ صرف دوسرا سال ہے تو مجھے نہیں لگتا کہ کوئی مثبت ردعمل سامنے آئے۔

البتہ جو چیز مجھے سب سے زیادہ غلط لگتی ہے وہ ہے کہ مجھ سے جڑے مردوں کی عزت کا بوجھ میرے کندھے پر ڈالا جاتا ہے۔ اس سوچ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

دوسری جانب اس معاشرے کے طرز عمل کی وجہ سے مردوں کو بھی مشکل ہوتی ہے جیسے انھیں اپنے جذبات کا اظہار کرنے کی اجازت نہیں ہوتی اور اسے بھی تبدیل ہونا ضروری ہے۔ ہمارے معاشرے میں جیسے کہا جاتا ہے کہ مرد کو درد نہیں ہوتا۔ مرد کو بالکل درد ہوتا ہے لیکن ان میں جذبات محسوس کرنے یا اس کا اظہار کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔

مردوں کا تصور اس طرح بنایا گیا ہے کہ نہ وہ روتے ہیں اور نہ وہ کمزور پڑ سکتے ہیں اور گھر چلانے کی ساری ذمے داری ان کی ہوتی ہے اور عورتوں کی حفاظت کرنا بھی ان کے ذمے ہوتا ہے۔

دوسری طرف خواتین کے لیے رویہ ایسا ہے کہ وہ جو گھر کا کام کرتی ہیں وہ تو ان کا فرض ہے۔ اس کام کو بوجھ نہیں بلکہ ایک انعام سمجھا جاتا ہے۔ ان کے بوجھ کو بوجھ نہیں سمجھا جاتا اور بہت سے دیگر باتیں سننی پڑتی ہیں کہ آپ نے تو یہ بوجھ خود کے لیے چنا ہے تو اس سے مشکلات دگنی ہو جاتی ہیں۔

بنیادی طور پر ہمیں جنس کی بنیاد پر کام کرنے کے عمل کو تبدیل کرنا ہوگا۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ اگر کوئی لڑکا ہو تو وہ کوئی مخصوص کام کرے اور اگر کوئی لڑکی ہو تو وہ کوئی دوسرے کام کرے۔ دونوں کو آزادی ہونی چاہیے اپنی مرضی کے کام پسند کرنے کی۔

قدرتی طور پر جو کردار ہمیں ادا کرنا ہے تو وہ ٹھیک ہے لیکن جو معاشرے نے جو کردار دیا ہے ہم ان سے آزادی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ اگر لڑکا گھر سے باہر نکل کر کام کرنا نہیں چاہتا اور بیوی چاہتی ہے تو دونوں کو ایسا کرنے کی کھُلی اجازت ہونی چاہیے۔

میرے نزدیک عورت مارچ کی کامیابی یہی ہوگی اگر مرد بھی اس میں جوش و خروش سے حصہ لیں اور عورتوں کا بھرپور ساتھ دیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے