بریگزٹ: برطانوی پارلیمان پھر کسی نتیجے پر پہنچنے میں ناکام

برطانیہ کے ارکان پارلیمان ایک بار پھر بریگزٹ کے اگلے مرحلے کے حوالے سے تجاویز پر اتفاقِ رائے میں ناکام ہو گئے ہیں۔

برطانوی دارالعوام میں یورپی یونین سے انخلا کی چار قراردادوں پر ووٹ دیا گیا،جن میں کسٹم یونین اور برطانیہ کو ناروے طرز پر سنگل مارکیٹ میں رکھنے کی تجاویز شامل تھیں، لیکن ان میں سے کسی بھی قرارداد کو اکثریت حاصل نہ ہو سکی۔

ووٹنگ پر کسی قسم کی کوئی قانونی پابندی نہیں تھی لہٰذا حکومت پر ان تجاویز کو اپنانے کے لیے دباؤ نہیں ڈالا گیا۔

برطانیہ کی پارلیمان میں وزیر اعظم ٹریزا مے کے بریگزٹ معاہدے کو دو مرتبہ تاریخی فرق سے مسترد کیا جا چکا ہے۔ یہ معاہدہ وزیراعظم ٹریزا مے اور یورپی یونین کے بیچ طے پایا تھا۔

جمعے کے روز ارکان پارلیمان نے ایک بار پھر ٹریزامے کے یورپی یونین سے انخلا کے منصوبے کی مخالفت کی تھی۔

ٹریزا مے کے پاس اب 12 اپریل تک کا وقت ہے جس کے دوران وہ یا تو یورپی یونین سے منصوبے پر عمل درآمد کے لیے مزید وقت مانگیں گیں یا پھر برطانیہ کو بغیر کسی معاہدے کے یورپی یونین سے نکلنا پڑے گا۔

سب سے کم فرق سے شکست پانے والی قرار داد میں کسٹم یونین کی تجویز دی گئی تھی جس کو صرف تین ووٹوں سے شکست ہوئی۔

ایک اور ریفرینڈم کرانے کی قرارداد کے حق میں سب سے زیادہ 280 ووٹ ڈالے گئے تاہم پھر بھی اس قرارداد کو 12 ووٹوں کے مارجن سے شکست ہوئی۔

کنزرویٹو پارٹی کے نک بولس، برطانیہ کے سنگل مارکیٹ میں رہنے کی اپنی ہی قرارداد کی ناکامی کے بعد پارٹی سے مستعفی ہو گئے ہیں۔ نتائج آنے کے بعد انھوں نے کہا کہ’وہ اپنی جماعت کی مزید حمایت نہیں کر سکتے ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا ’ میں نے وہ سب کچھ کیا جو میں سمجھوتے کے لیے کر سکتا تھا۔‘

ان کے دارالعوام سے نکلتے وقت کئی ارکین پارلیمان نے انھیں روکنے کی کوشش کی اور کہا ’ نک مت جاؤ‘ جبکہ کچھ اراکین نے ان کے اس اقدام کی تعریف کی۔

بعد ازاں اپنی ٹویٹ میں انھوں نے کہا کہ وہ رکن پارلمان رہیں گے اور دارالعوام میں ’آزادانہ پروگریسو کنزرویٹو‘ کی حیثیت سے بیٹھا کریں گے۔

بریگزٹ سیکرٹری سٹیفن بارکلے کے مطابق ’واحد آپشن` یہی بچا تھا کہ یورپی یونین سے بغیر کسی معاہدے کے نکلنے کا کوئی راستہ ڈھونڈ لیا جائے۔

انھوں نے کہا ’حکومت اب بھی یقین رکھتی ہے کہ بہترین حل یہی ہے کہ اسے جلد از جلد کر لیا جائے۔‘

’اگر اس ہفتے پارلیمنٹ میں کوئی منصوبہ پاس ہو جاتا ہے تو ابھی بھی ممکن ہے کہ یورپی الیکشن سے بچا جا سکتا ہے۔‘

لیبر پارٹی کے رہنما جیریمی کوربین نے کہا ’یہ مایوس کن ہے کہ کوئی بھی تجاویز اکثریت حاصل نہیں کر سکیں ہیں۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ’ارکان پارلیمان کو یاد کرانا چاہتے ہیں کہ ٹریزا مے کے معائدے کو انتہائی واضح اکثریت سے رد کیا گیا تھا۔‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے