کیا مغرب میں عورت محفوظ ہے؟

جب بھی ہمارے معاشرے میں کوئی بھیانک واقعہ پیش آتا ہے خاص کر جب کسی معصوم بچی یا بچہ جنسی استحصال کا شکار ہوتا ہے یا اس قسم کے کسی دوسرے غیر انسانی فعل کا رتکاب ہوتا ہے۔ تو کچھ لوگ جو عمومی طور پر اسلام بیزار یا اسلام سے بے خبر ہوتے ہیں ان واقعات کی آڑ میں اسلامی احکام کا مذاق اڑانا شروع کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ زینب کا واقعہ اور فرشتہ بچی کا حالیہ بھیانک واقعہ کے بعد سوشل میڈیا میں مختلف پوسٹس نظر آتی ہیں۔ کہ اگر پردہ نہ کرنے پر اللہ کو جلال آتا ہے تو اللہ کو اس واقعہ پر جلال کیوں نہیں آتا وغیرہ ان کو پتہ ہوتا ہے کہ دین اور دینی احکام سے لوگوں کو متنفر کرنے کا یہ گولڈن موقع ہے اور وہ اس کا استحصال کرتے ہیں اور ہمارے جذباتی دوست بھی ان کے ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔

اس طرح کچھ لبرل حضرات ان واقعات کے تناظر میں مغربی اقدار بطور حل پیش کرتے ہیں گویا کہ مغرب میں عورت بہت محفوظ ہے اور ہم بھی ان کے نقش قدم پر چل کر ہی ان جرائم سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ ان کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ سیکس کو ازاد کردو زیادہ سے زیادہ باہمی رضامندی ہونی چاہئے تو اس سے جنسی فرسٹریشن ختم ہوگی اور یہ واقعات نہیں ہوں گے۔ نیچھے دئے گے اعداد و شمار ایک ایسی سوسائٹی کے ہیں جہاں جنسی اعتبار سے ہر قسم کی آزادی موجود ہے لیکن اس کے باوجود اس طرح کے بھیانک واقعات ہمارے معاشرے کے بنسبت بہت زیادہ ہیں۔ لہذا یہ جنسی فرسٹریشن کی وجہ سے نہیں اس کی وجوہات کچھ اور ہیں جس کے خلاف لکھنے سے ان کے نظریات مجروح ہوتے ہیں۔

یہ سادہ فکری کی انتہا ہے وہ تہزیب خاتون کو کیا تحفظ دے گی جہاں شہوانی جذبات کو ابھارنا بطور کموڈٹی (مال تجارت) کے مارکیٹ میں بیچا جاتا ہو۔ جہاں ریپ اورچھوٹے بچیوں کی پوری پورن انڈسٹری چل رہی ہو جو حکومت کو ٹیکس بھی دیتی ہو۔ جہاں ہر ڈرامے اور مووی جنسی بر انگیختگی کو مرکزی تھیم کے طور پر پیش کرتی ہو۔

پھر لوگ سوال اٹھاتے ہے کہ اگر وہاں جرائم ان وجوہات کی بنا پر ہیں تو ہمارے ہاں کیوں اس طرح ہو رہا ہے۔ تو عرض ہے کہ اب دنیا ایک گلوبل ویلج ہے اور سرمایہ دارانہ مارکیٹ نے اس طرح کے واقعات کو بڑھانے والے مواد ہمارے گھروں کے اندر بھی گھسایا ہے اب مغرب اور مشرق کا کوئی فرق نہیں سارے ایک جیسے متاثر ہیں۔

یاد رکھنا چاہئے کہ مغرب کی بے حیائی یا جرائم ہمارے جرائم کو جسٹیفائی نہیں کر سکتے۔ بس مقصد یہی ہے کہ اسی عطار کے لونڈے سے کیوں دوا لیا جائے جس کے سبب تم بیمار ہوئے ہو۔ حل اسلام میں ہے اسلامی احکام اور قوانین کے اجراء اور تنفیذ میں ہے جس سے ہم کتراتے ہیں۔

مندرجہ ذیل اعداد و شمارسے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کے واقعات کو بنیاد بنا کر مغرب کی تقلید پر اصرار کرنا کتنا گمراہ کن ہے۔ مغرب میں خواتین کے ساتھ زیادتی پر ہم بالکل خوش نہیں ہیں کیوں کہ اسلام میں انسانی حرمت سب کے لئے یکساں ہے لیکن یہ صرف ان لوگوں کے لئے جو مغرب کو معیار سمجھ کر اسے مشعل راہ بنانے پر اصرار کر رہے ہیں۔

نیشنل سیکشول وائلنس ریسورس سینڑ کی طرف سے جسنی جرائم کی اعداد و شمار۔یہ اعداد و شمار امریکہ کے حوالے سے ہیں۔

1۔ ہر پانچ میں سے ایک خاتون اور ہر اکھتر میں سے ایک مرد زندگی میں کبھی نہ کبھی ریپ کا شکار ہوگا۔

2۔ تقریبا دس میں سے ایک خاتون اپنی زندگی میں کسی محرم یا قریبی رشتہ دار کے ہاتھوں ریپ ہو جاتی ہے۔ اس طرح پینتالیس میں سے ایک مرد جاننے والوں کے ہاتھوں ریپ ہوتا ہے۔

3۔ ریپ کے شکار شدہ افراد میں 91%خواتین اور 9% مرد شامل ہیں۔

4۔ دس میں سے آٹھ ریپ کے کیسیز میں مظلوم، ریپ کرنے والے کو جانتا ہے۔

5۔ 81% خواتین اور 35% مردوں کی پوری زندگی ہمیشہ کے لئے یا کچھ وقت کے لئے ریپ کی وجہ سے متاثر ہو چکی ہے۔

6۔ چار میں سے ایک بچی اور چھ میں سے ایک بچہ اٹھارہ سال سے پہلے جنسی استحصال کے شکار ہوتے ہیں۔

7۔ 12.3% خواتین پہلی دفعہ دس یا دس سال سے کم عمر میں جنسی استحصال کی شکار ہوئیں اس طرح 30% خواتین گیارہ اور سترہ سال کے درمیان جنسی استحصال کی شکار ہوئیں۔

8۔ ایک تہائی خواتین جنہوں نے اٹھارہ سال سے پہلے کیا ہوا ریپ رپورٹ کیا ہو وہ اٹھارہ سال کے بعد بھی ریپ ہو چکی ہیں۔

9۔ تین لاکھ پچیس ہزار بچے ہر سال کمرشل جنسی استحصال کے ممکنہ خطرے سے دو چار ہیں۔

10۔ اوسطا لڑکیاں بارہ سے چودہ سال کی عمر میں پرسٹیٹیوشن کی شکار ہوتی ہیں جبکہ بچے گیارہ سے تیرہ سال کی عمر میں۔

11۔ پانچ میں سے ایک لڑکی اور سولہ میں سے ایک لڑکا کالج کے دوران جنسی استحصال کا شکار ہوتا ہے۔

12۔ کالج کے دوران 90% سے زیادہ جنسی استحصال کے کیسیز رپورٹ نہیں ہوتے۔

13۔ امریکہ میں ریپ سب سے کم رپورٹ ہونے والا جرم ہے۔ 63% جنسی حملے پولیس کو رپورٹ نہیں کی جاتی۔ اس طرح صرف 12% بچوں کا جنسی استحصال رپورٹ کیا جاتا ہے باقی نہیں۔

یہ کچھ پوائینٹس ہیں تفصیل کے لئے NSVRC کے ویب سائٹس سے مزید اعداد و شمار دیکھ سکتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے