کیا قطر،سعودی عرب تنازعہ حل ہو چکا ؟

سعودی فرماں رواشاہ سلمان بن عبدالعزیز کی جانب سے امیر قطر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی کو مکہ مکرمہ میں منعقد ہونے والے خلیج ایمرجنسی سربراہ اجلاس کا دعوت نامہ پہنچادیا گیاہے جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان جون 2017ء سے جاری تنازع کے خاتمے کے حوالے سے بہت سی امیدیں روشن ہوگئی ہیں۔

26مئی کو خلیج تعاون کونسل کے سیکرٹری جنرل عبداللطیف الزیانی سعودی بادشاہ کا دعوت نامہ لیکر دوحہ پہنچ گئے جہاں انہوں نے قطری وزیرخارجہ الشیخ محمدبن عبدالرحمن آل ثانی سے ملاقات کی اور دعوت نامہ پہنچادیا۔امریکہ کی جانب سے ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ منسوخ کرنے کے بعد ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہواہے کشیدگی کی اس فضاء میں ہونے والی چند کارروائیوں نے سعودی عرب اوردیگر خلیجی ممالک کے لئے سنگین خطرات پیداکردئے ہیں۔

12مئی کو فجیرہ کی بندرگاہ پرسعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات کے چار تیل بردارجہازوں پرنامعلوم عناصرکی جانب سے تخریب کار حملہ ہوا، ابھی اس کے ذمہ داروں تک رسائی کے لئے کارروائیاں جاری تھیں کہ دوروز بعد14مئی کویمن کے حوثی باغیوں نے ریاض کے علاقے دوادمی اورعفیف کے درمیان تیل پائپ لائن پرڈرون طیاروں کے ذریعے حملے کروائے۔اس حملے میں حوثی باغیوں نے سات ڈرون طیارے استعمال کئے جس سے سعودی عرب کی تیل پپمنگ اسٹیشن کو خاصا نقصان پہنچا۔

اس صورتحال کے پیش نظر سعودی عرب نے 30مئی کو مکہ مکرمہ میں خلیج تعاون کونسل کا ایمرجنسی کا سربراہ اجلاس منعقد کرنے کااعلان کیا ہے جس میں شرکت کے لئے قطر کو بھی دعوت دی گئی ہے۔ مکہ ایمرجنسی سربراہ کانفرنس میں اب تک تین عرب سربراہوں نے شرکت کی یقین دہائی کرائی ہے۔مصرکے عبدالفتاح السیسی،فلسطین کے صدرمحمود عباس اورتیونس کے صدر باجی قائد السبسی سعودی عرب کو شرکت کی یقین دہانی کراچکے ہیں۔اب تک نوعرب ممالک نے مکہ سربراہ اجلاس کی تحسین کی ہے جن میں بحرین،امارات،موریتانیہ،یمن،سوڈان،کویت،اردن اورافریقہ کے کئی دیگر عرب ممالک کے نام موجودہیں۔

ادھر مکہ مکرمہ خلیج ایمرجنسی سربراہ کانفرنس میں خطے کے تجزیہ کاروں کی توجہ سب سے زیادہ مبذول کرنے والا پہلو امیر قطر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی کی متوقع شرکت ہے۔اب تک کی اطلاعات کے مطابق قطر نے دعوت نامہ قبول کرلیا ہے اور امید ہے کہ امیر قطر خود اس سربراہ اجلاس میں شریک ہوں۔اگرایسا ہوتاہے یہ دسمبر2017ء میں کویت میں منعقد ہونے والے خلیج تعاون کونسل کے سربراہ اجلاس کے بعدامیرقطر کا خلیج سربراہ اجلاس میں شرکت کا پہلا موقع ہوگا۔

خیال رہے کہ 5جون 2017ء کو سعودی عرب، مصر،متحدہ عرب امارات اوربحرین نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کئے ہیں . مذکورہ چاروں ممالک کا دعویٰ ہے کہ قطر علاقائی امن معاہدے کی خلاف ورزی کامرتکب ہے اور خطے کے ممالک کے لئے خطرہ بننے والے عناصرکے ساتھ تعلق رکھتاہے۔دوسری جانب قطر اس الزام کی تردید کررہاہے۔

قطر کادعویٰ ہے کہ مذکورہ چاروں ممالک نے قطر کا زمینی،سمندری اورفضائی حصار کررکھاہے یہ انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے اورقطری عوام کے ساتھ ظلم وزیادتی کے مترادف ہے۔ جون 2017ء کے بعد قطر کی جانب سے عرب اور خلیجی سربراہ اجلاسوں میں شرکت کے حوالے سے مختلف نوعیت کاطرز عمل دیکھاگیاہے۔

رواں برس تیونس میں عرب لیگ کاسالانہ سربراہ اجلاس منعقد ہواجس میں سعودی فرماں رواسمیت مصری صدراور دیگر اہم عرب رہنماشریک ہوئے۔ امیر قطر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی نے بھی عرب لیگ سربراہ اجلاس کی افتتاحی نشست میں شرکت کی تاہم وہ بعد میں اٹھ کر چلے گئے جس کے بعد انکی نمائندگی ان کے وزیرخارجہ نے کی۔

اس سے قبل دسمبر2018ء میں خلیج تعاون کونسل کا 38واں سربراہ اجلاس منعقد ہوا لیکن امیر قطر نے اس میں شرکت نہیں کی تاہم قطر کے وزیرمملکت برائے خارجہ امور نے دوحہ کی نمائندگی کی۔2018ء میں سعودی عرب کے شہر ظہران میں عرب لیگ سربراہ اجلاس منعقد ہوا اس میں بھی امیرقطر نے شرکت نہیں کی۔

قطری وزارت خارجہ نے 26مئی کوسعودی عرب کی جانب سے خلیج تعاون کونسل کے سربراہ اجلاس میں شرکت کی دعوت موصول ہونے کی تصدیق کی ہے لیکن اس حوالے اجلاس میں شرکت کرنے یا نہ کرنے کا کوئی اشارہ نہیں دیا۔البتہ اس سے قبل 20مئی کو قطر نے30مئی کو مکہ مکرمہ میں اسلامی تعاون تنظیم کی سرپرستی میں منعقد ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس میں شرکت کاعندیہ دیاتھا۔

ادھر قطر یونیورسٹی میں ایران اورمشرق وسطیٰ کی جدید تاریخ کے استاذ اورسینئر تجزیہ کار محبوب الزویری نے کہاہے کہ قطر کے لئے سعودی عرب کی جانب سے دعوت نامہ ملنا کوئی بڑا معنی نہیں رکھتا کیونکہ قطر خلیج تعاون کونسل کارکن ہے اورابھی تک اس حیثیت سے خلیجی تعاون کونسل کی انتظامیہ قطر کو کسی بھی پروگرام کی دعوت دینے کا پابند ہے تاہم اس میں جو اہم پہلو ہے وہ قطر کا شکوہ ہے جو ابھی تک اپنی جگہ موجودہے۔

خلیجی ممالک میں رونماہونے والے تنازع کے بعدپیداہونے والے حالات میں کوئی تبدیلی دکھائی نہیں دی ہے ۔قطرکے خلاف بائیکاٹ کرنے والے ممالک کاحصار اورناکہ بندی بدستور قائم ہے جبکہ قطر کے خلاف میڈیا پروپیگنڈہ بھی عروج پرہے۔یہاں تک کہ رمضان ٹرانسمیشن میں بھی قطر کے خلاف پروپیگنڈہ جاری ہے .

جب تک سعودی عرب اوراس کے اتحادی ممالک میڈیا کی سطح پرایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈا ختم نہیں کرتے اور قطرکی ناکہ بندی کے خاتمے کا اشارہ نہیں دیتے تب تک تنازع کے خاتمے کے بارے میں کسی بہتری کا امکان ظاہرنہیں کیا جاسکتا۔

تنازع ختم کرنے کے لئے میڈیا پروپیگنڈہ بندکرواناہوگا،اختلاف ختم کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے اورقطر کے شکوے اور شکایات کو سننے کا موقع مہیاکرناہوگا۔ان کے مطابق اس وقت خلیجی خطہ متضاد آراء کا شکارہیں ایک جانب متحدہ عرب امارات اورسعودی عرب ایران کے ساتھ جنگ کی حمایت کررہے ہیں اوراس کی حوصلہ افزائی میں مصروف ہیں جبکہ دوسری جانب کویت،قطراورعمان تنازع کے سفارتی حل پرزوردے رہے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے