پیرس: ہماری اب تک کی معلومات کے مطابق صرف زمین ہی وہ واحد سیارہ ہے جہاں زندگی نہ صرف موجود ہے بلکہ ان گنت انواع و اقسام کی صورت میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہے… تپتے صحراؤں سے لے کر سمندر کی تاریک گہرائیوں تک۔ لیکن اب سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے زمین پر ایک ایسا مقام ڈھونڈ لیا ہے جہاں زندگی کی کوئی بھی معلوم شکل نہ تو وجود میں آسکتی ہے اور نہ ہی پروان چڑھ سکتی ہے۔
یہ جگہ ایتھوپیا میں ’’داناکی ڈپریشن‘‘ نامی ایک علاقہ ہے جہاں زیرِ زمین آتش فشانوں کی وجہ سے ہر وقت شدید گرم رہنے والے تالاب پائے جاتے ہیں۔ لیکن یہاں شدید گرمی کے علاوہ، زندگی موجود نہ ہونے دوسری وجوہ بھی ہیں۔
ان تالابوں کا پانی دُور سے بہت خوبصورت نظر آتا ہے جس کا رنگ کہیں پر سبز ہے تو کہیں پیلا، کہیں نارنجی ہے تو کہیں بھورا۔ لیکن اتنی خوبصورتی کے باوجود، یہ گرم تالاب انتہائی تیزابی اور شدید قسم کے کھارے پانی سے بھرے ہیں؛ اور اسی بناء پر یہاں زندگی کی کوئی شکل پروان نہیں چڑھ سکتی۔
واضح رہے کہ ایسے جاندار جو انتہائی ناموافق حالات میں بھی زندہ رہنے کے قابل ہوں، انہیں سائنس کی زبان میں ’’ایکسٹریموفائل‘‘ کہا جاتا ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ وہ شدید ترین ماحول میں بھی زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایکسٹریموفائلز سے تعلق رکھنے والے کچھ جاندار انتہائی شدید سردی، شدید گرمی، شدید نمک، شدید تیزابیت اور آکسیجن کی شدید قلت جیسے حالات میں بھی زندہ رہتے اور پروان چڑھتے ہیں۔
ان کا سائنسی مطالعہ خصوصی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ ایکسٹریموفائلز کے ذریعے ہم نہ صرف زندگی کے عوامل کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں بلکہ انسانیت کی بھلائی کےلیے ان کی کچھ اہم خصوصیات سے استفادہ بھی کرسکتے ہیں۔
اسی سوچ کے تحت ماضی میں مختلف مواقع پر داناکی ڈپریشن کے علاقے میں مختلف سائنسی مہمات بھیجی جاتی رہی ہیں۔ ایسی ہی ایک تحقیقی مہم کے نتائج اس سال مئی کے ’’نیچر سائنٹفک رپورٹس‘‘ میں شائع ہوئے تھے جن میں دعوی کیا گیا تھا کہ یہاں زندگی کے لیے انتہائی ناسازگار دکھائی دینے والے تیزابی اور زہریلے تالابوں میں بھی بعض انتہائی مختصر خردبینی جاندار دیکھے گئے ہیں جن کی جسامت صرف چند نینومیٹر جتنی ہے۔
اب اسپین اور فرانس کے ماہرین نے ایک بار پھر اس جگہ کا جائزہ لیا ہے اور پچھلے دعوے کی نفی کردی ہے۔ ریسرچ جرنل ’’نیچر ایکولوجی اینڈ ایوولیوشن‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع شدہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ پچھلی تحقیقی ٹیم نے جن چیزوں کو نینومیٹر پیمانے والے ’’جاندار‘‘ سمجھ لیا تھا، وہ جاندار نہیں بلکہ ان کی غلط فہمی تھے۔
نیا مطالعہ، پچھلی تحقیق کے مقابلے میں کہیں زیادہ مفصل ہے جس میں زندگی کا سراغ لگانے کےلیے کئی طرح کی حساس تکنیکوں کا استعمال کیا گیا ہے جو حیاتیات، کیمیا، حیاتی کیمیا، طبیعیات، حیاتی طبیعیات، اور ارضیات کے میدانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ 2016 سے 2018 تک اس تحقیقی ٹیم نے داناکی ڈپریشن کے مختلف مقامات سے نمونے جمع کیے اور پھر مختلف تکنیکوں کے ذریعے ان کا نہایت باریکی سے تجزیہ کیا۔
اگرچہ ان تالابوں کے آس پاس سے کچھ جرثومے ضرور ملے ہیں مگر وہ سیاحت کی غرض سے آنے والے انسانوں کی وجہ سے وہاں تک پہنچے ہیں۔ یعنی وہ تالابوں میں پروان نہیں چڑھے بلکہ کہیں اور سے یہاں لائے گئے ہیں۔
اسی ریسرچ پیپر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ماضی میں جس چیز کو ’’جاندار‘‘ سمجھ لیا گیا تھا، وہ ایسے سالمات (مالیکیولز) ضرور ہیں جیسے جرثوموں سے خارج ہوتے ہیں، لیکن ان کے بننے میں کسی جاندار کا کوئی عمل دخل نہیں بلکہ وہ زمین کی اندرونی گرمی کے باعث وہاں کے شدید نمکین اور تیزابی پانی میں کیمیائی تعاملات (کیمیکل ری ایکشنز) کے نتیجے میں بنے ہیں جن کا کسی جاندار سے کوئی تعلق نہیں۔
مزید تفصیلات کے مطابق، ان تالابوں میں صرف عمومی نمک نہیں بلکہ میگنیشیم پر مشتمل نمکیات بھی وافر مقدار میں موجود ہیں، جن کی زیادتی کسی بھی خلیے کو تباہ کرکے ختم کرنے کےلیے کافی ہے۔
اگرچہ نئی تحقیقی شہادت خاصی جاندار ہے لیکن گزشتہ تحقیق میں داناکی ڈپریشن کے اِن تالابوں میں جاندار موجود ہونے کا دعوی کرنے والی ٹیم اپنی بات پر قائم ہے۔ ایک بار پھر مزید حساس اور ناقابلِ تردید تجزیئے کی ضرورت پر زور دیا جارہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ ہونے والی کوئی تحقیق پرانے دعوے کو درست ثابت کرتی ہے یا غلط۔