سیدہ امتیاز فاطمہ چار سال کی تھیں جب شدید بخار نے ان سے ان کی ٹانگیں چھین لیں۔ گردن توڑ بخار کب ٹائیفائیڈ میں بدلا اور کب زندگی بھر کے لیے معذور بنا گیا، انھیں پتا ہی نہ چلا۔
وہ بتاتی ہیں کہ ہوش میں آنے پر جب انھیں محسوس ہوا کہ وہ زندگی بھر نہیں چل پائیں گی تو اس وقت انھیں یوں لگا کہ ان کی پوری زندگی اندھیرے میں ڈوب گئی ہے۔
’میری والدہ نے مجھے گھر کے قریب ہی ایک سکول میں داخل کروا دیا۔ میرا ساتھ نبھانے کے لیے میری بہن بھی میرے ساتھ جاتی تھی، حالانکہ اس کی عمر صرف ڈھائی سال تھی۔ میری والدہ چاہتی تھیں کہ میں اکیلی نہ رہوں۔‘
تیسری جماعت تک امتیاز فاطمہ کو بچوں کے ساتھ کھیلنے کی اجازت نہیں تھی۔ سکول کی استانیاں بچوں سے کہتی تھیں کہ ’آپ اپنا کھیلو، یہ اپنا کھیلے گی۔‘
[pullquote]ٹوٹے گڈولنے اور خواب[/pullquote]
فاطمہ بتاتی ہیں کہ ان کی والدہ نے معذوری کے سبب ان کے لیے لکڑی کا ایک ’گڈولنا‘ خرید رکھا تھا جس کی مدد سے وہ سکول جاتی تھیں۔ مگر سکول میں بچے روزانہ وہ گڈولنا توڑ دیتے تھے اور روزانہ واپسی پر وہ رویا کرتی تھیں۔
https://www.youtube.com/watch?time_continue=17&v=Xx_XoDiEQOE&feature=emb_logo
ان کے لیے وہ محض گڈولنا نہیں بلکہ ان کی ’ٹانگیں‘ تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’جب میں نے بریسس پہن کر آہستہ آہستہ چلنا شروع کر دیا تو استانی نے مجھے ٹاٹ پر بیٹھنے سے روک دیا۔ انھوں نے کہا کہ ٹاٹ پر بیٹھو گی تو ٹاٹ کٹ جائے گا، ایسے کرو آپ مٹی پر بیٹھ کر پڑھو۔۔۔ اور پھر میں مٹی پر بیٹھ کر پڑھا کرتی تھی۔‘
فاطمہ بتاتی ہیں کہ سکول کا زمانہ انھوں نے انتہائی تکلیف میں گزارا۔ بچوں اور استانیوں کے اس رویے نے ان کے اندر نفسیاتی مسائل پیدا کیے اور وہ خود کو قصور وار سمجھنے لگیں۔
’میں یہی سوچا کرتی تھی کہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا۔۔ ہر روز میں اپنے ذہن میں ایک عدالت لگاتی تھی اور ہر روز خود کو کٹہرے میں رکھ کر یہ سوال کرتی کہ میرا قصور کیا ہے؟‘
[pullquote]پھر وقت بدل گیا[/pullquote]
فاطمہ بتاتی ہیں کہ ان کی والدہ نے چوتھی جماعت میں ہی انھیں لاہور کے ایک سکول میں داخل کروا دیا۔
’وہاں جا کر معلوم ہوا کہ وہ سکول معذور افراد کے لیے ہی ہے۔ ان کے آس پاس سب معذور افراد تھے۔ کوئی ایک دوسرے پر آواز کسنے والا نہ تھا۔ کوئی ایک دوسرے کا مذاق اڑانے والا نہ تھا۔ کوئی کسی کو کسی کے ساتھ کھیلنے سے روکنے والا نہ تھا۔ دوسرے معذور افراد تھے۔ اس سکول کے اساتذہ بھی شفیق اور ہمدرد تھے۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ جب انھیں متوازن ماحول ملا تو ان میں بھی جینے کی امنگ پیدا ہوئی، آگے بڑھنے کا موقع ملا۔ ان کے اساتذہ نے ان میں محبت اور صلہ رحمی کا جذبہ بڑھانے کے لیے ان کی تربیت بھی کی۔
’ہمارے اساتذہ نے ہم سے ایک انجمن امداد باہمی بنوائی جس کے لیے ہر ہفتے ہم ایک روپیہ اپنے جیب خرچ سے نکالا کرتے تھے اور اپنے غریب دوستوں کو دیا کرتے تھے۔ جمع ہونے والے پیسوں سے ہم مستحق بچوں کو پنسل کاپی یا ضرورت کی چیزیں خرید کر دیتے تھے۔‘
فاطمہ بتاتی ہیں کہ میٹرک کے بعد انھوں نے اور ان کے تمام دوستوں نے مل کر ایک اولڈ ایسوسی ایشن آف ڈس ایبل پرسنز بنائی جس میں وہ مستحق غریب بچوں کے لیے چیزیں اکٹھی کرتے اور ان کی مدد کرتے۔ آہستہ آہستہ انھوں نے بچوں کی تدریسی ذمہ داری بھی خود اٹھا لی اور کالجوں میں بچوں کے داخلے بھی کروانے لگیں جبکہ اس وقت وہ خود کالج میں پڑھ رہی تھیں۔
امتیاز فاطمہ اور ان کے دیگر دوستوں نے مل کر دور دراز علاقوں کے معذور افراد کی فلاح و بہبود کے لیے آؤٹ ریچ پروگرام بھی تشکیل دیا جس کے تحت مختلف علاقوں میں میڈیکل کیمپس بھی لگائے گئے۔
[pullquote]کیا محض علاج کافی ہے؟[/pullquote]
فاطمہ بتاتی ہیں کہ میڈیکل کیمپس میں وہ معذور افراد کی شناخت کر کے ان کا طبی معائنہ کرتے اور پھر جن کو بریسس کی ضرورت ہوتی ان کو بریسس لگواتے تھے۔
لیکن علاج کے باوجود بھی چھ ماہ بعد جب بچے اپنے علاقوں میں جاتے تو ان کی حالت مزید بدتر ہو جاتی۔ اکثر بچوں کے ’بریسس‘ غائب ہوتے اور وہ انھیں کیچڑ میں لت پت ملتے۔
فاطمہ بتاتی ہیں کہ اس کی اصل وجہ ان بچوں کے والدین میں شعور کی کمی تھی۔ والدین شکایت کرتے تھے کہ ’بریسس‘ پہننے سے بچوں کو تکلیف ہوتی ہے لیکن ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ یہی واحد علاج بھی ہے۔
امتیاز فاطمہ کے مطابق انھیں لگا کہ ان بچوں کے مسائل حل کرنے کا بہترین طریقہ ان کی انفرادی طور پر تربیت ہے جس کے ذریعے ان میں خود اعتمادی پیدا ہو اور وہ اپنے ساتھ دوسرے لوگوں کی بھی رہنمائی کر سکیں۔
اس مقصد کی تکمیل کے لیے انھوں نے ایک 10 سالہ تربیتی پروگرام کا آغاز کیا اور لاہور میں ایک گھر بنایا جس کو ’انڈیپنڈنٹ لیوِنگ ہوم‘ کا نام دیا گیا۔
پروگرام کے تحت ’دور دراز علاقوں کے بچوں کو اس گھر میں لا کر زندگی گزارنے کے گُر سکھائے جاتے ہیں۔‘
[pullquote]معذور افراد کے حقوق کی جنگ[/pullquote]
امتیاز فاطمہ بتاتی ہیں کہ معذور بچوں کو سب سے زیادہ والدین کا رویہ متاثر کرتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ والدین کو لگتا ہے کہ ایسے بچے خود کو نہ کسی اور کو فائدہ دے سکتے ہیں۔
’ہم سے اکثر مائیں اور دادیاں پوچھتی ہیں کہ یہ (معذور بچہ) کب تک مر جائے گا؟ ان کی زندگی کی امنگ کسی کو نہیں ہے۔ (صرف) ان کے مرنے کا انتظار ہے۔‘
لیکن امتیاز فاطمہ ایسا نہیں سمجھتی اور وہ معذور افراد کے لیے مواقع پیدا کرنا چاہتی ہیں۔ شاید اسی لیے ان کے لیوِنگ ہوم میں جھنگ، رینالہ، میانوالی، ایبٹ آباد، کشمیر، قصور اور دیگر شہروں سے لوگ اپنے بچے لارہے ہیں۔
لیکن انھیں معاشرے سے شکوہ ہے۔ اسی لیے وہ معذور افراد کے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہیں۔
’دفتر، سکول، کالج، حتیٰ کہ سرکاری عمارات قابل رسائی نہیں ہیں۔ بیت الخلا بھی قابل رسائی نہیں ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ معذور افراد کو ووٹ ڈالنے میں بھی دشواری پیش آتی ہے۔
لیکن ان مسائل کا حل کوئی مشکل کام نہیں۔ امتیاز فاطمہ کہتی ہیں کہ ’ہم نے واش روم، سنک، باورچی خانہ اور سب کچھ قابل رسائی بنایا ہے۔ پاکستان میں ابھی تک کسی کو معلوم نہیں ہے کہ عمارت کیسے بناتے ہیں۔‘
وہ سمجھتی ہیں کہ ملک میں معذور افراد کی ایک بڑی تعداد ہے اور ان کے حقوق کے لیے فوری اقدامات اور قانون سازی ضروری ہیں۔
لیکن اس کے ساتھ ہی وہ بھی کہتی ہیں کہ معذور افراد کو باقی لوگوں سے الگ نہیں کرنا چاہیے۔ ’پارک میں معذوروں کے لیے ایک الگ حصہ بنا دیا جاتا ہے۔ ہمیں آپس میں گھلنے ملنے کیوں نہیں دے رہے۔‘
ہو سکتا ہے کہ مسئلے کا حل بھی یہی ہو اگر لوگ آپس میں بات چیت کریں اور ایک دوسرے کی ضروریات سمجھنے کی کوشش کریں۔
فاطمہ معذور افراد کے ساتھ معاشرتی نا انصافی سے پریشان ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے سینٹر میں بچے رات بھر درد اور تکلیف میں روتے ہیں۔
معذور افراد کے لیے بیت الخلا قابل رسائی نہ ہونے کی وجہ سے فاطمہ کے مطابق اکثر لوگ ’دن بھر کھاتے پیتے نہیں تاکہ انھیں واش روم جانا نہ پڑ جائے۔‘
اس حساس مسئلے کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے امتیاز فاطمہ نے سٹیج اور آرٹ کا ذریعہ اپنایا ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ اس کے ذریعے لوگ معاشرے میں خود اعتمادی کی زندگی گزار سکیں گے۔
اپنے ادارے میں بچوں کی پڑھائی اور تربیت سے شاید ان کے مطابق معذور افراد کے والدین کو اب اپنے بچوں کی موت کا انتظار کرنا نہ پڑے۔
بشکریہ بی بی سی اردو