‏جب لال لال لہراۓ گا

‏آج کل جہاں طلبہ کے اس نعرے نے روایت پسندوں میں ہلچل مچا رکھی ہے، وہیں ایک طبقہ میں اس بات پر بحث جاری ہے کہ طلبہ کو تعلیمی اداروں میں سیاست کی اجازت دی جانی چاہیے یا نہیں، گذشتہ روز ٹوئیٹر نوردی کرتے ہوۓ ایک مشہور ٹی وی اینکر کا ایک ٹوئیٹ نظر سے گذرا جس میں محترمہ فرما رہی تھیں کہ ماں باپ اپنے بچوں کو کالج یونیورسٹی میں پڑھنے کے واسطے بھیجتے ہیں نا کہ سیاست کرنے کے لیے، تو خیال گذرا کے ایسی غیر ذمہ دارانہ بات تو ضرور کسی لا علمی نا سہی کم علمی کا شاخسانہ ضرور ہے۔

‏سیاست بھی علم و عمل کے تمام شعبوں کی طرح ایک ایسا شعبہ ہے جس کا تعلق براہ راست عوام کی فلاح و بہبود سے ہے اور ایک ترقی یافتہ قوم کو جہاں دیگر شعبوں میں ترقی و بہتری کے لیے جوان خون کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے، ویسے ہی سیاست کے شعبہ میں بھی ہے، جب آپ طلبہ سیاست پر پابندی کی حمایت کر رہے ہوتے ہیں تو ایک طرح سے آپ موروثی سیاست کے حامی بن جاتے ہیں یا اگر آپ اس سے انکاری ہیں تو ایسا کہنے کا دوسرا مقصد صرف یہی رہ جاتا ہے کہ آپ امید رکھتے ہیں کہ سیاستدانوں کی اگلی نسل آسمان سے ٹپکے گی یا تیسری اور آخری صورت صرف یہی رہ جاتی کہ آپ آمریت کہ پرستار ہیں۔

‏جیسے تمام شعبہ جات میں مہارت کے لیے عملی تربیت درکار ہے ویسے ہی ایک طالب علم کو سیاسی شعور و آگہی کے لیے بھی عملی تربیت درکار ہے اور اس سلسلہ میں آپ طلبہ سیاست کے کردار کو بہر طور نظرانداز نہیں کر سکتے اور ذرا سوچیے سیکھنے کا یہ عمل فقط تنظیموں سے وابستہ افراد کو متاثر نہیں کرتا بلکہ منتخب کرنے کے عمل میں ہر اس طالبعلم کو بھی کافی کچھ سیکھنے کا موقع فراہم کرتا ہے، جو اپنے ووٹ کے ذریعے اپنی نمائندہ جماعت کو چنتا اور کامیاب بناتا ہے، یہ پراسیس ایک عام طالبعلم میں منشور اور مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ بنیادی سیاسی نظریات کو سمجھنے اور سوال اٹھانے کا سلیقہ اور شعور بھی اجاگر کرتا ہے۔

‏حمایت و مخالفت اور مخاصمت کے علاوہ ایک طبقہ میں سرخ اور سبز کی بحث بھی عروج پر دیکھنے میں آئ جہاں موضوع بحث کمیونسٹ نظام کی فرسودگی اور اسکی جاءِ پیدائش سمجھے جانے والے ممالک میں اسکی غیر مقبولیت اور رد کیے جانے کو مشق ستم بنا کر دلیل کے طور پر پیش کیا گیا تو اس ضمن میں بس یہی کہنا چاہونگا کہ برسوں سے کومہ میں پڑا مریض ہوش میں آجاۓ اور رو بہ صحت ہو تو کسے پرواہ ہے کہ دو لوگ اس بحث میں مبتلا رہیں کہ مریض مادام نور جہاں کے گانے سے ہوش میں آیا ہے یا کسی آسمانی صحیفہ کی تلاوت سے‏طلبہ سیاست کا نیم مردہ مریض کم از کم ہوش میں تو آیا اب اسکی وجہ سبز ہے یا سرخ اس سے قطع نظر فلحال یہ ایک تحریک ہے جس کے کامیاب ہونے کی صورت میں دیگر سیاسی نظریات سے وابستہ سیاسی تنظیموں کے میدان میں آنے کے امکانات بھی کافی روشن ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مثبت سرگرمی کو پابندیوں میں جکڑنے کے بجاۓ اسے تشدد اور کلیدی سیاست سے وابستہ جماعتوں کے رسوخ اور دخل اندازی سے پاک رکھنے کے لیے اقدامات کرتے ہوۓ خرد افروزی و شعور سے بھرپور اس سرگرمی سے فائدہ اٹھانے کے مواقع نوجوانوں کو فراہم کیے جائیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے