رؤف کلاسرا جواب دو

ان دنوں سوشل میڈیا پر بڑی شدو مد سے معروف صحافی اور اینکر رؤف کلاسرا کے خلاف مہم چلائی جا رھی ھے ،پانامہ انکوائری میں جے آئ ٹی کے روبرو شریف خاندان رقم دولتِ کے ذرائع کا حساب دے رھا ھے نئی تاریخ رقم ھو رھی ھے ،

سورج کا پارہ چڑھ رھا ھے گرمی کی شدت بڑھ رھی ھے اور اس کے ساتھ ھی حکمرانوں کا پارہ بھی چڑھ رھا ھے ،جو جو صحافی حکمرانوں سے سوالات طلب کرے گا عوام میں شعور بیدار کرے گا وہ حکمران دشمن کہلائے گا،

اس وقت حکومت کے نزدیک دو طرح کے صحافی پائے جاتے ھیں حکمران دوست اور حکمران دشمن یہ صحافی حضرات حکومت کے خلاف سازش کر رھے ھیں ،،

ترقی کا پہیہ روکنا چاہتے ہیں اور جیسا کہ وزیراعظم کی دختر نیک اختر صحافی عمر چیمہ کو پانامہ لیکس سیکنڈل بے نقاب کرنے پر پاکستان کے خلاف سازش قرار دے چکی ھیں ،،،

ایسی مہم میں ھمیشہ کارکن صحافی ھی حکومتی اشاروں پر اور سیٹھ میڈیا مالکان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے استعمال ھوتے ھیں ،،

سیٹھ میڈیا مالکان ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھتا ھے، جب سارا سرکاری اور نیم سرکاری میڈیا جے آئ ٹی ارکان کو متنازعہ بنانے پر تلا ھوا ھے.

رؤف کلاسرا نہ صرف اس مہم کو بے نقاب کررھے ھیں بلکہ جے آئی ٹی ارکان کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ بھی کررھا ھے،،،

اب کلاسرا کو یہ کون سمجھائے کہ پنجاب حکومت کی پیپلز پارٹی دور میں جسٹس خواجہ شریف کو قتل کرنے سے متعلق جھوٹی خفیہ رپورٹ پر ناول لکھ کر اس سازش کو بے نقاب کرنے کی کیا ضرورت تھی اور پھر پاکستان کے سیاسی کرداروں کے لیے گاڈ فادر کی اصطلاح متعارف کرنے کی کیا ضرورت تھی،

بات صرف یہاں تک نہ رکی بلکہ کلاسرا نے ماریو پوزو کے شہرہ آفاق ناول کا اردو ترجمہ کرکے اردو قارئین سے متعارف کروا دیا ،،

جب دلائل کمزور ھو جائیں تو پھر ذاتی کردار کشی کا عمل شروع کیا جاتا ھے چنانچہ ایسی ھی مہم شروع کردی گئی اور کلاسرہ کو کیا ضرورت تھی کہ بیوی کے کینسر کے علاج کے لئے گھر بنانے کے لئے رکھا گیا پلاٹ فروخت کرکے علاج کے لئے رقم کا بندو بست کرتا ،،،

بھابھی فہمیدہ مرزا کی طرح لاکھوں روپے کا علاج سرکاری خرچ پر کروا سکتی تھی یا کلاسرہ سرکاری خرچ پر علاج کی حکومتی پیش کش کو نہ ٹھکراتے،،،

نواز شریف جب اپوزیشن میں لندن میں مقیم تھے تو اتفاق سے کلاسرا بھی تعلیم اور صحافت کی غرض سے لندن میں تھے ،،،

پرویز رشید نادر چودھری کے ساتھ شب و روز گزارتے،،،

پرویز رشید عالی ظرف صحافی کی جنرل مشرف کے دور میں نواز شریف کے بارے میں گھٹیا اور اخلاق سے گری ھوئی خبریں اپنے پرس میں رکھتے اور پاکستان میں گرتے ھوئے صحافت کے معیار پر گریہ کرتے،،،

آج وہ صحافی صالح اور حکمران دوست ھیں اور کلاسرہ حکمران دشمن

چودھری نثار جنرل مشرف کے مارشل لاء میں چپ کا روزہ توڑنے کے بعد کلاسرا کو دے گئے انٹرویو میں ھی نمودار ھوئے اور نواز شریف کی جانب سے کلاسرا کو خراج تحسین پیش کرتے ھوئے خطوط بھی ریکارڈ کا حصہ ھیں لیکن کلاسرا
اپنے بھی خفا مجھ سے ھیں بیگانے بھی ناخوش
میں زہر ھلاھل کو کہہ نہ سکا قند
کے مصداق صحافت کرتے ہیں۔۔

اسی لئے تحریک انصاف جو کل تک کلاسرا کے گیت گاتی نہ تھکتی تھی، آج کل ان پر تبرے برسا رھی ھے کیونکہ بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے کرپشن زدہ سیاستدانوں کو تبدیلی کی دعویدار جماعت نے گلے سے لگایا تو کلاسرہ کے قلم نے انہیں بھی تنقید کا نشانہ بنایا ،،،

ان کے راھنما اصول ان کے بھائی ڈاکٹر نعیم کلاسرا نے مرتب کیے اور وہ ہزار خوف ھوں لیکن زبان ھو دل کی رفیق کے قائل تھے۔۔

اب جب کہ نعیم کلاسرا دنیا میں نہیں رھے کلاسرا کو چاھیے ان اعلیٰ اصولوں کو بھی دفن کر دے اور حکومت کی حمایت کرکے کسی ادارے کا سربراہ بن جاتے اور آزاد اور غیر جانبدار صحافی بن کر صحافت کرتے رھتے۔۔ بھلا نابینا شہر میں آئینہ بیچنا پاگل پن نہیں تو اور کیا ھے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے