معروف مصنف آسکر وائلڈ نے کہا تھا کہ ’ہماری یادداشت وہ ڈائری ہے جو ہم سب اپنے ساتھ لے کر گھومتے ہیں۔‘
تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری یادداشت کمزور ہوتی جاتی ہے یا سادہ الفاظ میں اِس ڈائری کے کچھ صفحے بعض اوقات کھو جاتے ہیں یا ہم انھیں کہیں رکھ کر بھول جاتے ہیں، جو کہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں ’ڈائنیمک میموری لیبارٹری‘ کے ڈائریکٹر پروفیسر چرن رنگناتھ ان نیورو سائنسدانوں میں سے ایک ہیں جو یادداشت اور اسے بحال رکھنے پر تحقیق کرتے ہیں۔
وہ اس موضوع پر ایک کتاب کے مصنف بھی ہیں۔ پروفیسر چرن کے مطابق چار ایسی بُری عادات ہیں جن کے باعث ہمارا ذہن چیزیں بھولنا شروع کر دیتا ہے یعنی یادداشت کمزور ہوتی جاتی ہے۔ پروفیسر چرن نے وہ تدابیر بھی بتائی ہیں جن کو اختیار کر کے یادداشت کی کمزوری سے بچا جا سکتا ہے۔
1۔ آرام اور نیند کی قلت
جیسے جیسے ہماری عمر بڑھتی ہے، ویسے ویسے ہماری نیند کا دورانیہ کم ہوتا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کام (نوکری)، مالی حالات اور صحت سمیت دیگر مسائل بھی ہماری نیند کے معیار کو متاثر کرتے ہیں اور یوں صحت کے سنگین مسائل جنم لیتے ہیں۔
پروفیسر چرن کا کہنا ہے کہ ’دماغ کا ایک نظام ہے جس کے ذریعے وہ اپنے اندر جمع ہونے والے زہریلے مواد کو باہر نکالتا ہے۔ ان میں امیلوئیڈ پروٹین شامل ہیں جن کا تعلق الزائمرز سے ہے۔ یہ نظام رات کے وقت متحرک ہوتا ہے۔‘
پروفیسر چرن نے دماغ پر تحقیق میں 25 سال گزارے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ نیند ہماری صحت اور جسم کی بحالی کا کام بھی کرتی ہے۔ ’اگر ایک شخص کو نامناسب نیند ملتی ہے تو دماغ کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ اس سے تناؤ کے خلاف برداشت کی سطح بھی گِر جاتی ہے۔ لہذا لوگ صحیح طرح کسی چیز پر فوکس نہیں کر پاتے۔‘
تاہم رات کے وقت دماغ نہ صرف زہریلے مواد کو نکالتا ہے اور ایک طرح سے اپنی بیٹری ریچارج کرتا ہے بلکہ یہ آپ کی یادداشت کو بھی ترتیب دیتا ہے۔
اُن کے مطابق ’سوتے وقت یادداشت کے عمل کو دوبارہ متحرک کیا جاتا ہے اور اسی عمل کو خواب دیکھنے کی بنیاد سے جوڑا جاتا ہے۔۔۔ نیند کی بدولت معلومات باقی رہتی ہے۔‘
انھوں نے تجویز دی ہے کہ سونے سے قبل فون اور کمپیوٹر استعمال نہ کریں، زیادہ کھانا نہ کھائیں اور نہ ہی شراب یا الکوحل والے مشروبات پیئں اور کیفین سے اجتناب کریں تاکہ آپ کو اچھی آرام دہ نیند مل سکے۔
جن لوگوں کو رات میں اچھی نیند نہیں آتی تو انھیں دن کے اوقات میں سونے کا مشورہ بھی دیا جاتا ہے۔ ’دن کے اوقات میں بھی (نیند کے ذریعے) یادداشت کو بہتر رکھنے کے فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔‘
2۔ ایک وقت میں کئی کام کرنا
آج کی مشکل اور مصروف دنیا میں ’ملٹی ٹاسکنگ‘ یعنی ایک وقت میں کئی کام سرانجام دینا، اچھا سمجھا جاتا ہے۔ لیکن پروفیسر چرن کا کہنا ہے کہ یہ یادداشت کے لیے ’بہت بُرا‘ ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ دماغ کا حصہ پریفرنٹل کورٹیکس ’ہماری توجہ برقرار رکھنے میں مدد کرتا ہے تاکہ ہم اپنے مقاصد حاصل کر سکیں۔ لیکن یہ صلاحیت متاثر ہوتی ہے جب ہم مسلسل ایک مقصد سے دوسرے مقصد کی طرف چھلانگیں لگائیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ہمارے دماغ میں نیورانز کے مختلف گروہوں کے بیچ مقابلہ چل رہا ہوتا ہے جو مختلف کاموں میں حصہ لیتے ہیں۔ یہ مقابلہ ہی ہمیں ایک ساتھ مختلف کام صحیح طریقے سے کرنے سے روکتا ہے۔
پروفیسر چرن کے مطابق اگر آپ ایک کلاس میں اپنے موبائل پر پیغامات چیک کر رہے ہوں گے تو آپ کو یہ معلوم ہی نہیں ہو گا کہ لیکچر کے دوران کیا کہا گیا تھا۔
’جب آپ مقاصد تبدیل کرتے ہیں (جیسا کہ موبائل فون چیک کرنا) تو نیورانز کی توجہ ہٹ جاتی ہے۔ وہ اس دوران یادداشت میں محض کچھ چیزوں رکھ پاتے ہیں کیونکہ آپ ایک کام سے دوسرے کام کی طرف جانے سے انھیں ملنے والے حکم کو تبدیل کر دیتے ہیں۔ اور اس سے میموری میں چیزیں نہیں رہ پاتیں۔‘
تاہم ہر اصول کی طرح اس میں بھی ایک چیز کو استثنیٰ حاصل ہے اور وہ ہے ایسے کام جو ایک دوسرے سے منسلک ہوں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’اگر آپ کیک بنا رہے ہیں اور اوون کو پری ہیٹ کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ڈو بنانے میں لگ جاتے ہیں۔۔۔ اگر آپ تمام کاموں کو ایک بڑا کام تصور کریں تو آپ اسے کر سکتے ہیں۔‘
ملٹی ٹاسکنگ کے خاتمے کے لیے پروفیسر چرن کی تجویز ہے کہ دوسرا کام شروع کرنے سے قبل پہلا کام ختم کریں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسی چیزوں سے بچیں جو مقاصد سے آپ کی توجہ ہٹاتی ہیں۔
اُن کی تجویز ہے کہ جب کوئی اہم کام کیا جا رہا ہو تو اپنے فون کو سائلنٹ پر لگائیں، خاص کر ای میل اور میسج نوٹیفیکیشنز کو۔
ان کی یہ بھی تجویز ہے کہ کام کے دوران بریک لیں اور اپنی ٹانگوں کو سٹریچ کریں۔
سمارٹ فون پر وقت گزارنے سے ایک اور سوال نے جنم لیا: اس کے آج کے نوجوانوں پر کیا اثرات ہوں گے؟
وہ کہتے ہیں کہ ’اس کے مثبت اور منفی نتائج ہیں۔ لیکن اہم چیز یہ ہے کہ ان سے ایسی عادتیں پنپ رہی ہیں جو یادداشت کے لیے اچھی نہیں۔‘
سنہ 2023 کی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ امریکی نوجوان اور بچے روزانہ پانچ سے آٹھ گھنٹے اپنے سمارٹ فون استعمال کرتے ہوئے گزارتے ہیں۔
3۔ زندگی کے ایک ہی دائرے میں پھنس جانا
آپ کی سوچ کے برعکس انسانی دماغ کو اس طرح پروگرام نہیں کیا گیا کہ یہ سب یاد رکھے۔ یہ مخصوص چیزوں کو یاد رکھنے کے لیے بنا ہے۔
پروفیسر چرن کہتے ہیں کہ ’ہمارے اکثر تجربات یا معلومات ہم پہلے ہی بھول چکے ہیں۔‘
صرف وہ تجربے یا واقعات ہمارے دماغ میں محفوظ رہتے ہیں جن میں غصہ، خوف، خواہش، خوشی، حیرانی یا کوئی اور جذبہ ہو۔ ان جذبات سے ہمارے دماغ میں ایڈرینالن، سروٹن، ڈوپامین اور کورٹسول جیسے کیمائی مادے خارج ہوتے ہیں۔
یہ کیمیائی مادے ہماری یادداشت محفوظ رکھنے کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتے ہیں۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے پروفیسر کے مطابق ’دماغ میں اس سے کام کو سرانجام دینے میں مدد ملتی ہے، خاص کر وہ کام جو بار بار کیے جائیں اور ان میں اچھی قابلیت درکار ہو۔‘ وہ کہتے ہیں کہ یہ صلاحیت عمر کے ساتھ کم ہو جاتی ہے۔
اسی لیے وقت گزرنے کے ساتھ بینک اکاؤنٹ، موبائل فون یا ای میل کا پاسورڈ یاد رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ’جب آپ پاسورڈ بدلتے ہیں تو پرانے پاسورڈ والے نیوران نئے پاسورڈ والوں سے لڑتے ہیں۔‘
ان کے مطابق روٹین کو توڑنا ضروری ہے تاکہ دماغ کی چیزوں کو یاد رکھنے کی صلاحیت برقرار رہ سکے۔
4۔ حد سے زیادہ اعتماد
پروفیسر چرن کا کہنا ہے کہ ’لوگوں کو لگتا ہے کہ اُن کی یادداشت اچھی ہے لیکن زندگی میں ایک لمحہ ایسا بھی آتا ہے جب انھیں پتا لگتا ہے کہ ایسا بالکل نہیں۔‘
یہ حیرانی کی بات نہیں۔ پروفیسر کا کہنا ہے کہ دماغ ہر چیز یاد رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اندازہ ہے کہ امریکہ میں ایک ہر شخص اوسطاً روزانہ 34 جی بی کی معلومات (جو کہ 11.8 گھنٹے کے برابر ہے) حاصل کرتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’میموری کا مقصد ماضی کو یاد رکھنا نہیں۔ یہ ایسا کرتا ضرور ہے۔ بلکہ اس کا کام ماضی کی اہم معلومات کو یاد رکھنا ہے جو حال اور مستقبل کے لیے آپ کو تیار رکھ سکے۔‘
ان کی تجویز ہے کہ کوئی چیز سیکھنے کے لیے رٹا لگانے اسی لیے کارآمد ثابت نہیں ہوتا۔
’سیکھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ اس سے کوئی یاد وابستہ کریں اور اس سے وہ ردعمل حاصل کریں جو آپ چاہتے ہیں۔‘
’مثلاً اگر آپ کا تعارف کسی شخص سے کروایا جائے اور اس کے چند منٹ بعد آپ خود کو چیلنج کریں اور ان کا نام دہرائیں۔ جب گفتگو جاری رہے تو آپ ایسا بار بار کریں۔ ان کوششوں میں جتنا وقفہ ہو گا، اتنا ہی آپ کے لیے بہتر ہو گا۔‘
دیگر تجاویز
مذکورہ چار عادات سے نجات کے علاوہ پروفیسر چرن کہتے ہیں کہ یادداشت بہتر کرنے کے اور بھی طریقے ہیں۔ ’بہت سی چیزیں ہیں جو لوگ اپنی یادداشت بہتر کرنے کے لیے کر سکتے ہیں۔ لیکن وہ کسی گولی یا ویکسین کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ یہ قدرے آسان ہے اور انھیں لگتا ہے کہ انھیں اپنا طرز زندگی تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘
ان مزید عادات کے بارے میں وہ بتاتے ہیں کہ ’مختصر مدت میں: بہتر سونے کی کوشش کریں، تناؤ سے نمٹنا سیکھیں (یا اس کی وجہ بننے والے اسباب کو کم کرنے کی کوشش کریں) اور ذہن سازی کے طریقوں کو اپنائیں، جو آپ کی توجہ پھرنے کی وجہ بتاتی ہے۔‘
طویل مدتی میں فہرست تھوڑی لمبی ہے: ’کھانا بہت کچھ کر سکتا ہے، بحیرہ روم کی ڈائٹ نے ثابت کیا ہے کہ جب دماغی صحت کو فروغ دینے کی بات آتی ہے تو اس کے بہت اچھے نتائج ہوتے ہیں۔‘
’جسمانی ورزش، خاص طور پر ایروبکس، اچھی ہے کیونکہ یہ دماغ میں کیمیائی مادے خارج ہونے میں مدد کرتی ہے جس سے ذہنی اور یادداشت کی صلاحیتیں بہتر ہوتی ہیں۔‘
’دانتوں اور سماعت کی اچھی صحت بھی ضروری ہے کیونکہ مطالعے سے پتا چلا ہے کہ جو لوگ دانتوں کی صفائی کے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں یا جو اپنے کانوں کا خیال نہیں رکھتے وہ مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ اور آخر میں، سماجی تعلقات اور نئی چیزوں کی آزمائش۔‘
پروفیسر کے مطابق اچھی عادات سے لوگوں نے اپنی یادداشت بڑھائی اور ڈیمنشیا کے خطرات کو ایک تہائی تک کم کیا۔
اعداد و شمار بھی حوصلہ افزا ہیں۔ کینیڈین الزائمر سوسائٹی کے مطابق 65 سال کی عمر کے بعد 40 فیصد لوگوں کو کسی نہ کسی طرح کی یادداشت کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔
بشکریہ بی بی سی