پاکستان میں خلائی سائنس کی عام مقبولیت

آج 3 مئی ‘ جمعہ، ہے اور چندا ماموں سے ملاقات کا اہتمام کچھ یوں ہوا ہے کہ آج ہے آغاز پاکستان کے اپنے پہلے چاند مشن کا . انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی نے اعلان کیا ہے کہ چاند مشن آئی کیوب-کیو 12:50 دوپہر (مقامی وقت) پر چین کے ہائنان خلائی لانچ سائٹ سے کرے گا ، تاکہ خلائی سفر پر جائے۔ اس کا مقصد چاند کے پوشیدہ جنوبی قطب پر پہنچ کر گرد و خاک کے نمونے اکٹھے کرنا ہے۔ "آئی کیوب کیو” کے سیٹلائٹ مشن کی کامیابی کے بعد، پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہوتا ہے، جنہوں نے چاند کے مدار میں سیٹلائٹس کو استعمال کیا ہے۔

تاریخی موقع ہے اور میں بھی تاریخی کامیابی کے لیے دعا گو ہوں . ہم وقت کے تقاضوں سے اور ترقی کے مختلف پیمانوں میں جانچے جائیں تو پتا چلتا ہے کہ ہم بہت پیچھے رہ گئے . صرف سائنٹفک ترقی اور ٹیکنالوجی میں نہیں (جیسا کہ اس "مون مشن ” کو اب سے ساٹھ سال پہلے ہونا چاہیے تھا) بلکہ اخلاقی ، روحانی اور فکری اصلاح اور بہتری میں بھی .

یادوں کے جھروکوں سے مجھے وہ مختصر مدت دکھائی دیتی ہے، جب میں پی ٹی وی پر لائیو مارننگ نشریات کی میزبانی کرتی تھی ( ہم اس وقت صحافی کہنے سے ہچکچاتے تھے ) اور ساتھ ہی ساتھ جنگ اخبار کے نوجوانوں کے صفحے کے لئیے سائنسی کالم لکھنے شروع کئیے. یہ اردو میں پہلی بار ہوا تھا . پزیرائی بھی ملی، شائد نوجوانی یا ٹی وی کی عطا کردہ شہرت کے صدقے لیکن اچنبھا زیادہ تھا .

کچھ اچھے لوگوں نے صلاح دی کہ ابھی جوان ہو "فائدہ ” اٹھاؤ اور ایسی باتیں کرو ، جس سے ترقی کر سکو . ایک بار میں نے نا سا کے حوالے سے کالم لکھا ،جس میں اس آرزو کا اظہار کیا کہ ایک دن میں خلا باز بن جاؤں ،جس پر میرا دوستوں تک نے مذاق اڑا یا .

آج ہم دار پہ کھنچے گئے جن باتوں پر -کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں (فراز )

ڈاکٹر بہو کی شادی مارکیٹ میں اس وقت تو بہت طلب تھی لیکن ایمانداری سے اس ڈگری کو حاصل کرنے والی لڑکیوں اور پوسٹ گریجویٹ اسناد کے حصّول کے لئیے جو طویل ، محنت طلب دقت طلب اور صبر آزما راستہ ہے، اس کو بہت کم میکے والے بھی سمجھ پاتے ہیں، سسرال کا ہمدرد ہونا تو گویا کروڑوں ڈولرز کی لا ٹری نکلنا ہے.

وقت بدل رہا ہے کہ اس کا کام ہی چلنا ہوتا ہے لیکن اہم سوال یہ ہے کہ گردش رات و دن کے ساتھ کیا ہمارے سوچنے اور زندگی کو دیکھنے اور پھر خاص طور سے بچیوں کے کیریئر کے کے حوالوں سے کوئی بہت بہتر بدلاؤ بھی آیا ہے کہ نہیں ؟ میں ان طبقات کی بات نہیں کر رہی، جن کے لئیے زندگی کا ہر معاملہ آسان ہے اور جو جب چاہتے ہیں جو بھی بننا چاہتے ہیں بن جاتے ہیں.

میرے لئیے وہ تین کروڑ بچے اہم ہیں جو کبھی سکول ہی نہیں گئے اور مجھے نجانے کیوں اب بھی دکھ ہوتا ہے، (حیرت کبھی نہیں ہوئی ہے) اب تک لائے گیۓ تمام حکمرانوں پر ( جو صرف حکمران ہیں عوام کے خادم نہیں ) ان کے سکون سے سونے پر، ان کی نمائشی سرگرمیوں پر، ان کی ہمّت پر ،ان کے سارا دن بھڑکیں مارتے ہوئے سٹامنہ پر ، پھر مغموم ہوتی ہوں، عدلیہ پر ،جس کو سماجی نا انصافی پر ایکشن اٹھانے کی توفیق نہیں ہوتی اور اس آئینی شق کی شکنی پر خاموش ہے، جس کو آرٹیکل پچیس اے کہتے ہیں. صحافت اور اس کی ترجیحات پر کیا ہی تبصرہ کیا جائے جو جید صحافی بھی تھے وہ بھی اب کسی کے حواری ہی ہیں . ایک بزرگ نے بتایا کہ ذَرائع کا ہونا ضروری نہیں ، تھوڑا سا غور کرو خود ہی سمجھ لو ،کون کس کی زبان بول رہا ہے اور کون کون ہیں ، جو وکٹ کے دونوں طرف ہی کھیلتے ہوں اور ابھی تک براجمان ہیں .

کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ پاکستان ایک جیتا جاگتا ناول ہے- طلسم ہوشربا . معلوم نہیں یہاں امیر حمزہ کون ہے ؟ اور ہم جفا کش عورتوں کا کیا مقام ہے ؟ شائد ہم شہرزاد بھی نہیں ہیں اور ہمیں ایک ہزار راتوں سے کہیں زیادہ سمے تک کہانیاں سنانی ہیں اور ابھی تو صرف 76 برس ہی بیتے ہیں.

بدلتی ہوئی دنیا میں نو آبادیاتی نظام ابھی تک ہے گو کہ ڈی کالونائزیشن پر بھی آواز بن رہی ہے مگر ہمارے یہاں ابھی تک ڈونرز کا تسلط ہے اور کبھی کبھی اس بہانے کچھ کے مستقبل سنوار دئیے جاتے ہیں . یہ بات توجہ اور تفصیل طلب ہے،پھر کبھی بیان کروں گی . آج پر غور کریں عورتوں کی سائنس میں شمولیت پر جھکاؤ ہے . میرے اسکولز اور کالج میں جنرل سائنس، حساب ، کیمسٹری ، فزکس اور بیالوجی کی ٹیچرز خواتین تھیں ، جن کو میں نے پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرتے ہوئے دیکھا . میرے خاندان میں انجینئرز خواتین بھی ہیں . ان میدانوں میں ریسرچ کی طرف جانا اورا علی ترین ڈگری حاصل کرنا یا اچھی ملازمات حاصل کرنا ،صرف ذہانت کا کھیل نہیں بلکہ ان میں بھی دولت اور ڈو می سائل کا ہاتھ ہوتا ہے . ان پر نا تو ،توجہ ہے نا ہی ہوگی کیونکہ جگہ جگہ اشرافیہ یا ان کے منظور نظر لوگوں نے ٹیکنالوجی کے سٹارٹ اپ کی دکانیں کھول رکھی ہیں اور ظاہر ہے کہ ڈونرز اور ڈپلومیٹک کلب تک ان کی با آ سانی رسائی اور شنوائی ہے . ایسی صورت حال میں محض میرٹ پر کچھ حاصل کرنا معجزہ ہے اور ایمانداری کی ر اہ پر رہنے کی روش پر قائم رہنا دہکتے ہوئے کوئلوں پر چلنا ہے . کم ہی اس راستے کے مسافر ہیں . زیادہ تر نوجوان یا تو کسی بھی طور بیرون ملک جانا چاہتے ہیں یا سیاسی پارٹیوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں یا بے ڈھنگی شاعری کر رہے ہیں یا سنسنی خیز "صحافت ” کر رہے ہیں اور بھی بہت کچھ کر رہے ہیں، وہ لکھ نہیں سکتی .

حاصل کلام یہ کہ اس ملک کی فلاح خلائی سائنس سے منسلک فتوحات میں ہے .

ڈاکٹر رخشندہ پروین-ایک پاکستانی صحت عامہ اور صنفی امور کی ماہر ہیں اور ایک سوشل انٹراپرینور ہیں. مختلف سماجی ترقی کے سیکٹرز میں کام کرتی رہی ہیں اور کئی جامعات میں پڑھاتی بھی رہی ہیں. وہ پاکستان میں پی ٹی وی کی صبح کی لائیو نشریات اور حالات حاضرہ کے شو کی پہلی خاتون اینکر ہونے کا اعزاز بھی رکھتی ہیں. صنف کے حوالے سے پی ٹی وی پر بطور نجی پروڈیوسر ان کی سال 1999 کی سیریز جینڈر واچ ایوارڈز بھی حاصل کر چکی ہے . اس کے علاوہ جہیز بطور ایک تشدد اور صنفی تشدد کے خلاف ان کا کام نمایاں اور منفرد رہا ہے . گزشتہ دس سالوں سے وہ اپنی تحریر اور تقریر سے محب وطن بہاریوں خاص طور پر موجودہ بنگلہ دیش میں محصورین کے لئیے بھی ایک آواز بن رہی ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے