اپنے لاہورکے ملامتی شاہ حسین کا یہ شعر تو جوانی سے یاد رکھا ہوا ہے جس میں شاعر نے اس امر پر قناعت بھری طمانیت کا اظہار کیا کہ اس کے نصیب میں جو ”گڑ“لکھا گیا تھا اسے ”مکھیوں“ نے ختم کردیا ہے۔اس کے ”کوٹے“ میں آیا ”گڑ“ ختم ہوا تو وہ مکھیوں کی بھنبھناہٹ سے بھی آزاد ہوگیا۔
شاہ حسین نے جس ”گڑ“ کا ذکر کیا اس کی مختلف توجیہات ہوسکتی ہیں۔نظر بظاہر یہ استعارہ کسی فرد کے ”حسن“ کے لئے استعمال ہوا محسوس ہوتا ہے جو بالآخر بڑھاپے کی نذر ہوجاتا ہے۔مزید گہرائی میں جائیں تو یہ ہی استعارہ دنیاوی خواہشات سے رہائی کی نوید بھی سناتا ہے۔
صوفی ہونے کی مجھے کبھی تمنا نہیں رہی۔ دولت جمع کرنے کا شوق بھی تاہم لاحق نہیں رہا۔ اس خواہش نے اگرچہ کئی دہائیوں تک بہت بے چین رکھا کہ مجھے دھانسو رپورٹر شمار کیا جائے۔ بطور صحافی میرے پاس ”اندر“ کی وہ ”خبر“ ہو جو وقت سے پہلے عیاں کردی جائے تو لوگ حیران ہوکر واہ واہ پکار اٹھیں۔ اپنی اس خواہش کے حصول کے لئے بہت پاپڑ بیلنا پڑے۔ اس کی وجہ سے تھوڑی شہرت بھی میسر ہوگئی۔ بتدریج مگر دریافت کرنا شروع ہوگیا کہ وطن عزیز میں اقتدار کے کھیل کے ضوابط 1950ءکی دہائی ہی سے طے ہوچکے ہیں۔ہماری ہر نوع کی اشرافیہ انہیں تبدیل کرنے کو ہرگز تیار نہیں۔خود کو بلکہ ان کے مطابق ڈھالنے کی تگ ودو میں مصروف رہتی ہے۔ اس ضمن میں کلیدی کردار اگرچہ بدلتے رہتے ہیں۔
اپریل 2014ءسے نواز شریف ”ووٹ کو عزت دو“ کے سفر پر گامزن ہوئے تھے۔ منزل مگر نصیب نہ ہوئی۔ بالآخر 2019ءسے لندن میں پناہ گزین ہونے کو مجبور ہیں۔ان دنوں ان کے سگے بھائی ہمارے ملک کے وزیر اعظم ہیں۔آئینی اعتبار سے یہ منصب اسلامی جمہوریہ کہلاتے پاکستان کا طاقت ور ترین منصب سمجھا جاتا ہے۔اس عہدے کی ”اصل اوقات“ مگر جاننا ہو تو محض یاد رکھیں کہ شہباز شریف صاحب کے مذکورہ منصب پر فائز ہونے کے باوجود ان کے بڑے بھائی اگر وطن لوٹیں تو انہیں سیدھا جیل جانا ہوگا۔کسی عوامی عہدے کے انتخاب کے لئے بھی وہ فی الحال ”تاحیات نااہل“ ہی رہیں گے۔
نواز شریف صاحب کی طرح عمران خان نے بھی اقتدار سے محروم کئے جانے کے بعد 1950ءکی دہائی سے قائم ہوئے ریاستی بندوبست کو جارحانہ انداز میں للکارنا شروع کردیا۔مجھے کئی بہت ہی پڑھے لکھے دوست پرخلوص انداز میں سمجھاتے رہے کہ نواز شریف صاحب کے برعکس عمران خان صاحب اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اپنے تجزیے کی بنیاد انہوں نے Youth Bulgeکو بنایا۔سادہ لفظوں میں یہ 18سے 35سال کی درمیانی عمر والوں کی توانائی کی علامت ہے۔اس عمر والے نوجوانوں کی بے پناہ تعداد عمران خان صاحب کی دیوانی ہے۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا بھی ہے جو ”نظام کہنہ“ کو پاش پاش کرنے کی قوت سے مالا مال بتایا جاتا ہے۔عمران خان صاحب اور ان کی جماعت اس میڈیا کو اپنے پیغام کے فروغ کے لئے استعمال کرنے کے ہر ہنر سے بخوبی آگاہ ہے۔ اپنا ”گڑ“ پرنٹ میڈیا میں خرچ کردینے کے بعد اگرچہ میں ذاتی طورپر ”بدلتی دنیا“ دیکھنے کے قابل نہیں رہا۔سانپ سے ڈسے فرد کی طرح رسی سے بھی خوف کھاتا ہوں۔عالمی امور پر نگاہ رکھنے کی علت سے مگر آزاد نہیں ہوپایا۔ ”یوتھ بلج“ اور سوشل میڈیا کی طاقت کا ذکر ہو تو برما،تھائی لینڈ اور مصر جیسے ملک یاد آجاتے ہیں۔وسوسوں بھرا دل لہٰذا عاجزی سے مصر رہا کہ روایتی اور سوشل میڈیا پر نظر آتے جلال کے باوجود عمران خان صاحب بھی بالآخر ہمارے دیگر کئی سیاستدانوں کی طرح ”عطار کے اسی لڑکے“ سے ”تعاون“ کے طلب گار ہوں گے جو ہمارے سیاستدانوں کو 1950ءکی دہائی سے بہلائے رکھتا ہے۔
میرا دل ناامید لہٰذا اس ”خبر“ کو فوراََ درست تصور کرنے کو مجبور ہوا جس کے ذریعے ”اندر کی بات“ ڈھونڈ لینے والی ”چڑیا“ کے وسیلے سے ہمارا ذہن تیار کرنے والے سینئر ترین صحافی جناب نجم سیٹھی صاحب نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ تحریک انصاف اور ”ان “ کے مابین ”درمیانی راہ“نکالنے کے لئے روابط شروع ہوگئے ہیں۔اس کے بعد ہمارے کئی جستجو کی تڑپ سے ہمہ وقت بے قرار صحافیوں کے ایک گروہ نے عمران خان صاحب کی ہماری ریاست کے طاقت ور ترین ادارے کے سربراہ سے ”ملاقات“ کی تفصیلات بھی بیان کرنا شروع کردیں۔ اس گروہ میں میرے چند عزیز ترین ساتھی بھی شامل ہیں۔ ٹی وی پر ریٹنگز لیتے ہیں۔ان کے یوٹیوب چینل بھی عوام میں بہت مقبول ہیں۔ان کی دی ”خبر“ غلط اور بے بنیاد ہوتی تو اس کی ”تردید“ کے لئے ایوان صدر سے ”فقط ایک ”مختصر بیان ہی کافی تھا۔
متوقع تردید جاری کرنے کے بجائے ہمارے صدر بلکہ عوام میں مقبول ایک اور اینکر جناب کامران خان کے پروگرام میں تشریف لائے۔”قوم کے وسیع تر مفاد میں“ عارف علوی صاحب مذکورہ انٹرویو کے دوران کردار ادا کرنے کو بھی آمادہ سنائی دئے۔ اپنے گھرتک محدود اور عملی صحافت سے عرصہ ہوا ریٹائر ہونے کی وجہ سے میں لہٰذا دو جمع دو کرنے کو مجبور ہوگیا۔
مذکورہ انٹرویو مجھ سادہ لوح کو اس لئے بھی اہم محسوس ہوا کیونکہ عارف علوی صاحب سے قبل عمران خان صاحب نے کامران خان صاحب ہی کو ایک طویل ون آن ون انٹرویو بھی دیا تھا۔میری دانست میں اس انٹرویو کا کلیدی پیغام یہ تھا کہ اگر نئے انتخاب کی تاریخ کا اعلان کردیا جائے تو عمران خان صاحب موجودہ آرمی چیف کے مزید کچھ عرصے تک اسی عہدے پر براجمان رہنے پر معترض نہیں ہوں گے۔ویسے بھی ان کا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ صاف ستھرے انتخاب کے ذریعے منتخب ہوا وزیر اعظم ہی نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا اعلان کرے۔ یہ ”فراخ دلی“دکھاتے ہوئے تحریک انصاف کے قائد کو اگرچہ یہ یقین بھی ہے کہ نئے انتخاب کے بعد وہ دو تہائی اکثریت نہ سہی تب بھی بھاری بھر کم اکثریت کے ساتھ اقتدار میں لوٹ آئیں گے۔
بقول منیر نیازی ”جمال ابروباراں“ میں ہوئی مبینہ یا حقیقی ملاقاتوں کے بعد شہباز حکومت کے چل چلاﺅ کی فضا استوار ہونا قطعی منطقی تھا۔ یہ بات چل نکلی تو عوام میں بے تحاشہ مقبول اور متحرک صحافیوں کا ایک اور گروہ نہایت اعتماد اور شدت سے اصرار کرنا شروع ہوگیا کہ ”ملاقاتوں“ کی ….باتیں جھوٹی ہیں-یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں“۔ عمران خان صاحب اور ان کے حامیوں کی ”خواہش کو خبر“ بناکر پھیلایا جارہا ہے۔”مبینہ ملاقاتوں“ کی وجہ سے تحریک انصاف کے قائد مطمئن ہوگئے ہوتے تو رواں مہینے کے اواخر میں اسلام آباد ایک لشکر سمیت آکر نئے انتخاب کے حصول کے لئے دھرنے کی تیاری نہ کررہے ہوتے۔ یہ دعویٰ بھی مجھ ”بے خبر“ کو معقول سنائی دے رہا ہے۔”اصل خبر کیا ہے“؟یہ معلوم کرنے کی مجھ میں ہمت ہی باقی نہیں رہی۔ گزشتہ چار دنوں سے دیوانوں کی طرح پیناڈول نامی گولی کے پتے ڈھونڈ رہا ہوں جو مارکیٹ میں نایاب چکے ہیں۔