آزاد کشمیر کا قومی ترانہ بچپن سے سنتے آئے ہیں۔ اور لہک لہک کر گاتے بھی ، تب سے جب پتہ بھی نہیں ہوتا تھا کہ اس کے جو لفظ ہیں ان کے معانی کیا ہیں۔ اس لئے اعتراض بھی نہیں تھا ، جو بھی معانی ہوں ، قومی ترانہ ہے ، مقدس ہے ، احترام میں کھڑا ہونا ہے ، کاغذ پہ کہیں لکھا ہو تو وہ کاغذ گرنے نہیں دینا ، اب جب سمجھ آنے لگی تو ’قومی ترانہ بڑا عجیب لگنے لگا۔ ترانہ کسی بھی قوم کے تشخص اور یکجہتی کی علامت ہوتا ہے ، جبکہ ہمارا ترانہ عجیب سا ہے اس حوالے سے۔ نہ صرف اس کے الفاظ پیچیدہ مبہم ہیں بلکہ سوچنے والوں کے لئے کئی سوالات چھوڑتے ہیں۔ شروع اس طرح ہوتا ہے ،
’وطن ہمارا آزاد کشمیر، وطن ہمارا آزاد کشمیر
آزاد کشمیر کا مطلب؟ ’آزاد کشمیر کا ایک مطلب ہو سکتا ہے ، وہ آزاد کشمیر جس کی مانگ مسلم کانفرنس نے شیخ عبداللہ کی ’کشمیر چھوڑ دو تحریک ‘ سے پہلے کی تھی ، ، یا ’خودمختار کشمیر‘ کے لئے یہ لفظ کچھ لوگ استعمال کرتے ہیں ، تو پھر آزادکشمیر کی وہ سیاسی جماعتیں جو الحاق پاکستان کے نظریہ پر یقین رکھتی ہیں وہ کس طرح اس ترانہ کو اپنا قومی ترانہ مان سکتی ہیں۔
اگر اس ’آزاد کشمیر کا مطلب خودمختار کشمیر ہے تو پھر یہ متنازعہ ایکٹ 74 کے بھی منافی ہے جس کی رو سے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کی سیاسی جماعتوں کے لئے نظریہ الحاق پاکستان کی وفاداری کا حلف اٹھانا لازمی ہے ، اس لئے آزاد کشمیر کی مین اسٹریم پالیٹیکس کی ساری جماعتیں نظریہ الحاق پاکستان ک ساتھ وفاداری کا حلف لیتی ہیں۔ یہ ان کے نظریہ کے خلاف بھی ہے لیکن اس کے باوجود یہ قومی ترانہ ہے
،
دوسرا مطلب یہ ہو سکتا ہے موجودہ ’آزاد کشمیر ‘ تو پھر یہ انتہائی مضحکہ خیز ہے کیونکی پاکستان کے زیرانتظام کا پورا سرکاری نام ’ آزاد جموں و کشمیر ‘ اور اقوام متحدہ کی قرادادوں کے مطابق پوری متنازعہ ریاست میں آزاد کشمیر ، جموں اور گلگت بلتستان بھی شامل ہے ، اس کے نام سے نہ صرف جموں کو حذف کر دیا گیا ہے بلکہ یہ سیدھی سیدھی تقسیم کشمیر پر دلیل ہے ، گلگت بلتستان اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر کا اس میں ذکر نہیں ہے ، تو کیا جو ترانہ ہم اتنے عرصے سے سنتے ، گاتے سکھاتے آرہے ہیں ، وہی کشمیر کی وحدت و یکجہتی کی بجائے اس کی تقسیم پر دلیل ہے۔
آزاد کشمیر میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے نہ ہی صف اول کی سیاسی جماعتوں میں نہ کسی دوسری جماعت میں جو تقسیم کشمیر چاہتا ہو ، یا اگر چاہتا بھی ہو تو اس کا کھلم کھلا اظہار کر سکے ، بلکہ جب بھی تقسیم کشمیر کی بات ہوئی ، نہ صرف عوام بلکہ حکمران طبقے نے بھی اس کی مخالفت کی۔آزاد کشمیر جو کہنے کو تحریک آزادی کا بیس کیمپ اور پوری منازعہ ریاست جموں و کشمیر کی نمائندہ حکومت ہے ، اس کے ترانہ کسی بھی صورت میں ان علاقوں کا نمائندہ نہیں ہے۔
آسماں ہے جس کا پرچم ، پرچم چاند ستاروں والا
ترانہ پاکستان کے مشہور شاعر حفیظ جالندھری نے لکھا ہے ، ، حفیظ جالندھری ہی پاکستان کے قومی ترانہ کے خالق بھی ہیں ، ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے آزاد کشمیر کا پرچم کبھی دیکھا ہی نہیں ، بس لکھ ڈالا ، جو دل میں آیا ، کیونکہ پرچم میں آسمان کہیں نہیں ، یہ بہر حال ایک ثانوی بات ہے ، اصل مسئلہ یہ ہے کہ ترانہ کسی بھی طرح کشمیری قوم کے کسی ایک بھی طبقے کا ترجمان نہیں ہے
پھر آگے چل کر اس ترانے کے الفاظ ہیں
’کوہستانوں کی آبادی ، پہن چکی تاج آزادی ،
عزت کے پروانے جاگے ، آزادی کی شمع جلا دی ،
تم بھی اٹھو اہل وادی ، حامی ہے اللہ تمہارا
وطن ہمارا آزاد کشمیر
تم بھی اٹھو اہل وادی ، حامی ہے اللہ تمہارا
یعنی ، اب آزادی کے لئے بیس کیمپ کو نہیں صرف اہل وادی کو اٹھنے کی ضرورت ہے ، اور اہل وادی پہلے ہی اتنی قربانیاں دے چکے ہیں ، ان کو نہیں در اصل خود کو اٹھنے کے لئے کہنا چاہئے ، اگر کوئی یہ کہے کہ یہ نوے کی دہائی سے پہلے کی وادی کے لئے تھا تو بھی یہ غلط ہے ، پیغام یہ دیا جا رہا ہے کہ تم بھی اٹھو ، لیکن ہماری طرف سے مدد کی امید نہ رکھنا حامی اللہ ہی ہے تمہارا ، اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے یہی کیا ہے وادی کے کشمیریوں کے ساتھ اور کشمیری ابتدا سے ہیں نہ صرف جاگے ہیں ، بلکہ وہی لوگ ہیں جو ہر طرح کی قربانیاں دے کر اس مسئلے کو زندہ رکھے ہوئے ہیں ، جو کبھی ہمارے نعرے بازی کے شوق کی تسکین کے لئے کام آتا ہے اور کبھی ہماری روزی روٹی کا زریعہ بنتا ہے۔
ترانے کے اس حصے پر بالخصوص وادی کے کشمیری ہم وطنوں کا اعتراض بجا ہے ، اور ایک چار متحدہ جہاد کونسل کے اس وقت کے سیکرٹری جنرل ارشاد ملک نے اعتراض بھی کیا تھا ، جس کے نتیجے میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ترانے میں ترمیم کے لئے ، اس کمیٹی نے بھی ترانے کے صرف اس حصہ میں ترامیم کی تجویز دی ، باقی کی الفاظ کی طرف دھیان نہیں دیا ، دھیان دے بھی دیتے تو کوئی فائدہ نہیں تھا ، کیونکہ ان کی مجوزہ ترمیم کا اطلاق تو آج تک ہو نہیں سکا۔
ہمارا ایک سب سے بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمیں کشمیر سے متعلق حقائق بہت کم معلوم ہیں۔ نوجوان نسل کی معلومات بالخصوص بہت کم ہیں۔ نہ ان کو سکول یا کالجز میں کشمیر کی تاریخ پڑھائی جاتی ہے اور نہ ہی آگہی کا کوئی اور طریقہ ہے۔ اس پر مستزاد یہ ترانہ سکھا کر ان کو صرف یہ باور کروایا جاتا ہے ، کہ ہمارے حصے میں صرف آزاد کشمیر ہی ہے ، وادی والے اٹھے تو ان کا اللہ حامی ہوگا ، ہماری کوئی زمہ داری نہیں ہے ، اور درحقیقت ایسا ہی ہے ، باقی زمہ داریاں پوری کرنا دور کی بات ، ترا نے کے الفاظ پر کسی نے دھیان دینے کی کوشش نہیں کی۔ اگر دھیان دینے کی کوشش کرتے تو شاید معلوم ہوتا کہ بچپن میں جو سکول کی اسمبلی میں لہک لہک کر گاتے تھے وہ یہ بھی کہتا ہے
زر کے لالچ سے او شیطاں ، کیوں بیچیں ہم دین و ایمان
اس حوالے سے جب آزاد کشمیر کی مختلف شخصیات سے بات ہوئی تو انہوں نے اس ترانے کو خلاف حقیقت اور ریاست کا حقیقی ترجمان تصور کرنے سے انکار کرتے ہوئے اس میں ترمیم پر زور دیا ۔
آزاد کشمیر کے سابق بیوروکریٹ اکرم سہیل ، سینئیر صحافی اور تجزیہ کار ارشاد محمود، اطہر مسعود وانی ، ریاض ملک، الطاف حسین ندوی اور کئی سنجیدہ شخصیات نے اس ترانے کے مختلف نکات پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ قومی ترانہ قوم کے ماضی و حال کی ترجمان اور مستقبل کے لئے قوم کی امنگوں کا ترجمان ہونا چاہئے ، بالخصوص جو حالات کشمیر کے ہیں ، جتنی حالات خراب ہوں ، اور آزمائش جتنی بڑی ہو اتنی بڑی ذمہ داری بھی ہوتی ہے، باقی ذمہ داریوں کا ہم کیا حشر کرتے ہیں یہ ایک الگ بحث ہے ، لیکن کم از کم اتنا تو کیا جا سکتا ہے کہ ہم زبانی کلامی ہی سہی پوری ریاست جموں کشمیر کے ساتھ وابستگی کا اظہار کریں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ارباب اختیار اس کا نوٹس لیں اور ترانے میں لازمی ترمیم کر کے اس کو ایسا بنائیں جو پوری قوم کی ترجمانی کر سکے