نقیب اللّٰہ محسود کے والد کا خط

تولو ملگرو تہ سلام (تمام دوستوں کو السلام علیکم)!

میری یہ چٹھی کسی بڑے افسر یا کسی طاقتور شخصیت کے نام نہیں بلکہ میں اپنے جیسے بے بس اور کمزور انسانوں سے ہم کلام ہونا چاہتا ہوں۔ تین اہم ترین اور بااثر شخصیات نے مجھے یقین دہانی کروائی تھی کہ آپ کو ہر صورت انصاف ملے گا اور نقیب کو ناحق قتل کرنے والے راؤ انوار کو سزا ہوگی۔

اس یقین دہانی کے بعد میں مطمئن ہوگیا کیونکہ پشتونوں میں کسی معاملے پر زبان دینے یعنی وعدہ کر لینے کے بعد ساری ذمہ داری اس شخص پر عائد ہو جاتی ہے جس نے قول دیا ہوتا ہے۔ مگر ان یقین دہانیوں کے باوجود میرے بیٹے کے قاتل کو سزا نہ ہو سکی اور کمبخت زندگی نے اتنی مہلت ہی نہیں دی کہ میں انصاف ہوتا دیکھ سکتا۔ ابھی تک میری نقیب سے ملاقات نہیں ہوئی اور یہی سوچ کر پریشان ہو رہا ہوں کہ آمنا سامنا ہونے پر اسے کیا جواب دوں گا۔

قابلِ احترام دوستو! سب سے پہلے تو یہ بات واضح کر دوں کہ اپنے بیٹے کے ماورائے عدالت قتل پر بھی میں نے پاکستانیت کے عَلم کو اپنے سینے سے لگائے رکھا، کسی موقع پر کوئی غیر ذمہ دارانہ بات نہیں کی اور اب بھی مجھ سے کسی ایسی ویسی بات کی توقع نہ کی جائے۔

میں نے اپنے بیٹے کے قاتل کو سزا دلوانے کیلئے جائز اور قانونی راستہ اختیار کیا، علالت کے باوجود بطور مدعی تمام تقاضے نبھاتا رہا اور مسلسل عدالتوں کے دھکے کھاتا رہا۔ یہاں تک کہ داعیٔ اجل نے طلب کیا اور کسی کی کیا مجال کہ اس کے بلاوے پر انکار کر سکے۔

دنیا کی عدالتوں سے تو روپوش ہوا جا سکتا ہے، پیشی کے موقع پر حاضر ہونے سے معذرت بھی کی جا سکتی ہے مگر یہاں عالم بالا سے جب پکارا جاتا ہے اور روبکار آجاتی ہے تو پھر زندگی کی قید سے رہائی یقینی ہو جاتی ہے۔

مجھے کینسر جیسے مہلک مرض نے مار ڈالا مگر ایک کینسر آپ کے معاشرے کو بھی لاحق ہے اور میں نے اسی خطرناک بیماری کی نشاندہی کرنے کیلئے آپ کو خط لکھا ہے۔

ناانصافی کے کینسر نے پورے ملک کو دیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کر دیا ہے اور سچ پوچھیں تو مجھے بھی وہ کینسر نہیں تھا جسے آپ لاعلاج سمجھتے ہیں اور جس کیلئے شوکت خانم کینسر اسپتال بنایا گیا ہے۔ مجھے ناانصافی کا کینسر اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا اور اس کا علاج کسی اسپتال میں ممکن نہیں تھا بلکہ عدالتوں سے ہی شفا مل سکتی ہے۔

ناانصافی کا یہ کینسر نجانے کتنے لوگوں کو نگل چکا ہے اور اس کی تباہ کاریوں کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ اگر آپ اپنے معاشرے کو بچانا چاہتے ہیں تو اسپتال، سڑکیں اور ڈیم بنانے کے بجائے اس بیماری کو ختم کرنے کی مہم چلائیں۔ ابھی کسی نے بتایا ہے کہ سیالکوٹ میں ایک ماں نے اپنے بیٹے کے قاتل کو عدالت سے رہا ہونے پر مار ڈالا ہے۔ یہ بہت تشویشناک بات ہے۔

اگر لوگ عدالتوں سے مایوس ہوکر خود انصاف کرنے لگ پڑے تو کیا ہوگا؟ پشتونوں میں تو خود بدلہ لینے کی روایت بہت پرانی ہے مگر میں نے نقیب کے قتل ہونے کے بعد صورتحال کو بہت مشکل سے سنبھالا اور سب کو اس بات پر قائل کیا کہ عدالتوں کے ذریعے قانونی جنگ لڑی جائے۔

میں نے بدلہ لینے پر قانونی جنگ کو اس لئے ترجیح دی کہ انتقام بھی تو ماورائے عدالت قتل ہوتا۔ کسی ایک شخص کو قتل کرکے اپنے کلیجے کو ٹھنڈا تو کیا جا سکتا ہے لیکن قتل ناحق کی آگ نہیں بجھائی جا سکتی۔

عزیزانِ گرامی! رائو انوار کسی ایک شخص کا نام نہیں بلکہ یہ ایک سوچ ہے جسے آپ پڑھے لکھے لوگ فاشزم کہتے ہیں۔ اس سوچ کا بنیادی تصور یہ ہے کہ جسے آپ غلط سمجھتے ہیں، اسے قانونی کارروائی کیے بغیر صفحہ ہستی سے مٹا دیں تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔

جب تک یہ سوچ ختم نہیں ہوتی، جب تک اس مائنڈ سیٹ کو شکست نہیں دی جاتی، نقیب جیسے بیگناہ نوجوان قتل ہوتے رہیں گے۔ اگر مجھ جیسے مدعی بدترین حالات سے دوچار ہونے کے باوجود مایوس ہوکر قانون کو ہاتھ میں نہیں لیتے تو قانون کے محافظوں کو یہ اختیار کیسے دیا جا سکتا ہے کہ وہ مخصوص حالات میں ایف آئی آر، گرفتاری اور ثبوتوں کا تکلف کیے بغیر موقع پر ہی گولی مار کر فیصلہ صادر کر دیں؟

اگر آپ رائو انوار جیسے شخص کو ’’بہادر بچہ‘‘ قرار دیں گے، عدالت پیش ہونے پر اسے پروٹوکول دیں گے اور ملزم ہونے کے باوجود اس سے لاڈلوں جیسا سلوک کریں گے تو پھر اس سوچ کی حوصلہ شکنی کیسے ہو گی؟

زما کرانو ملگرو! آپ بیشمار قومی مسائل میں الجھے ہوئے ہوں گے اور یقیناً ان میں سے ہر ایک معاملہ بہت اہمیت کا حامل ہوگا مگر میری ناقص رائے کے مطابق ناانصافی کے کینسر کا علاج کرنا ازحد ضروری ہے۔ عدالتوں کے چکر لگانے کے بعد مجھے یہ بات سمجھ آئی ہے کہ اس کینسر کا علاج کسی ایک کے بس کی بات نہیں بلکہ سب اداروں کو مل کر کوشش کرنا ہوگی۔

اگر یونہی ایک دوسرے پر تنقید کرتے رہے تو پھر رائو انوار جیسے لوگ طاقتور ہوتے چلے جائیں گے اور مایوسی کی تمام حدیں عبور ہو جانے پر مقتولوں کے ورثا کو وہی قدم اٹھانا پڑے گا جو سیالکوٹ کی ایک ماں کو اٹھانا پڑا۔

خط لکھوا رہا تھا تو اس دوران مردان یونیورسٹی کا طالبعلم مشال خان آگیا۔ جب میں نے اسے بتایا کہ چٹھی بھجوا رہا ہوں تو اس نے کہا، چند جملے میری طرف سے بھی لکھ دیں۔

بقول اس کے امریکی خاتون دانشور (Lois Mcmaster) نے کہا ہے کہ مُردے انصاف کی دہائی نہیں دے سکتے، یہ زندہ انسانوں کی ذمہ داری ہے کہ ان کیلئے آواز اُٹھائیں۔ چنانچہ انصاف کا عَلم اب اس معاشرے کے سپرد ہے۔ اگر اس میں زندگی کے آثار ہوئے تو ہمیں انصاف ضرور ملے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے